کسی بھی ملک کی صنعتی مہارت اور برتری کا ایک ثبوت مسافر بردار ہوائی جہازوں کی تخلیق و تعمیر ہوتی ہے ‘ اس وقت پوری دنیا میں چلنے والے فضائی جہازوں کی بڑی مارکیٹ پر امریکی کمپنی بوئنگ یا یورپین ائیر بس جیسے اداروں کی اجارہ داری ہے۔ ان جہازوں کی تعمیر انجینئرنگ کی معراج سمجھی جاتی ہے اور اب چینی ریاست کی ملکیت کمپنی 'کمرشل ایئر کرافٹ کاپوریشن‘ اس منزل تک پہنچا ہی چاہتی ہے۔گزشتہ برس انہوں نے شنگھائی میں ہی واقع اپنے مرکز سے پہلا ایئر کرافٹ C919 تیار کرکے پیش کر دیا جس میں 168 مسافروں کی گنجائش موجود ہے ۔اس کامیابی پر چینی پھولے نہیں سما رہے ہیں جو گزشتہ سات برس کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔امید کی جارہی ہے کہ اپنی تمام تجرباتی پروازوں کے بعد اس طرح کے طیارے چار سے پانچ برس میں اپنے خریداروں تک پہنچنا شروع ہو سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ابتدائی سینکڑوں ایئر کرافٹس کی پہلی مارکیٹ خود چین ہی کی ہو گی جن کی مقامی ضرورت نہایت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔چینی بینک کے مطابق ان منصوبوں کے لئے آٹھ کھرب روپے سے زائد کا سرمایہ بھی فراہم کیا جارہاہے۔یہاں اس بات کا ذکر بھی کرتا چلوں کہ پاکستان ایئر فورس چین کے تعاون سے ہی لڑاکا جہازجے ایف17 تھنڈر بنا رہی ہے جن کی جدت اورافادیت نے دنیا بھر کو چونکا دیا ہے۔ مسافربردار جہازوں کو بنانے کا معاملہ بہرحال ایک مختلف بال گیم ہے جو کافی پیچیدہ اور حساس ہوتا ہے ‘ چین کا اس مقام کے قریب پہنچ جانا اس کی صنعتی ترقی کاحالیہ برسوں میںایک کارنامہ سمجھا جا سکتا ہے۔
اس شاندار منصوبے کی کامیابی کے پس منظر میںایک
ایسی رپورٹ کا تذکرہ بھی ہو جائے جو اس شہر کی صنعتی اور کاروباری ترقی سے متعلق ادارے شنگھائی کمیشن آف کامرس نے پیش کی ہے۔عموماً ان کالموں میں بھاری بھرکم اعدادو شمار اور تفصیلات کو کم ہی رکھا جاتا ہے لیکن میں یہ معلومات اور اس کے بعدسادہ سا تجزیہ نہایت مختصر انداز میں پیش کرنا ایک ذمہ داری سمجھتا ہوں تاکہ قارئین چین کے اس سر کردہ شہر کی بدلتی معاشی پالیسی کے ذریعے چینیوں کے نئے ڈیویلپمنٹ ماڈل سے واقفیت حاصل کر سکیں ۔اس رپورٹ کے مطابق سال 2015 میں اس شہر کا جی ڈی پی (Gross Domestic Product) ڈھائی کھرب چینی یوآن تک پہنچ چکا ہے اور سالانہ ترقی کی شرح چھ اعشاریہ نو فیصد رہی ہے۔اس شہر میں صرف ای کامرس یعنی انٹرنیٹ کے ذریعے کی جانے والی تجارتی لین دین کی مالیت بھی ایک کھرب ساٹھ ارب یو آن رہی ہے جو2014 کے مقابلے میں اکیس فیصد زیادہ ہے۔گزشتہ برس یہاں 851 تجارتی اور کاروباری نمائشیں منعقد ہوئیں ۔ اس شہر کی سروس انڈسٹری میں تجارت کا حجم دو سو ارب امریکی ڈالر بتایا جارہا ہے جو پورے چین کا تیس فیصد تک بنتا ہے۔براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 58 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے جبکہ یہاں سے باہر کی جانے والی سرمایہ کاری بھی 57 ارب ڈالر سے زیادہ بنتی ہے۔اب ذرا سانس بحال کرکے صرف اتنا جان لیں کہ یہ چین کے صف اول کے کمرشل شہر کی داستان ہے جو ملک کی کل آبادی کا صرف دوفیصد پرمشتمل ہے۔تیس برس قبل یہ شہر کچی پکی ‘خستہ آبادیوں سے اٹا ہوا تھا جس کی نشانیاں اب بھی پرانے علاقوں میں نظر آتی ہیں ‘ تنگ گلیاں اور چھوٹے مکانات پاکستان کے کسی بھی شہر کی پرانی آبادیوں سے مماثل ہیں۔
آج اسی شہر میں 535 ملٹی نیشنل کمپنیوں کے علاقائی صدر دفاترہیں۔دنیا کی پانچ سو بہترین کمپنیوں جن کو (Fortune 500) کے نام سے جانا جاتا ہے میں سے ایک سو بیس نے اپنے ریسرچ اور ڈیویلپمنٹ یعنی (R&D) کے مراکز اس شہر میں قائم کئے ہیں۔شہر میں ایک علیحدہ اور مکمل طور پر نو تعمیر شدہ فری ٹریڈ زون قائم کیا گیا ہے۔ریسرچ اور ڈیولپمنٹ سمیت نئی ایجادات کے لئے سینکڑوں ملکی ادارے جن میں معروف چینی برانڈز شامل ہیں یہاں مصروف عمل ہیں۔ گزشتہ دو تین برس میں میری آنکھوں کے سامنے کئی بلند وبالا عمارات مکمل ہوئی ہیں جن میں دنیا کی دوسری بلند ترین عمارت شنگھائی ٹاور بھی شامل ہے۔ رواںسال جون میں یہاں نہایت عظیم الشان ڈزنی لینڈ کا تھیم پارک بھی مکمل ہونے جا رہا ہے جو ٹوکیو اور ہانگ کانگ کے پارکس کی چمک دمک بھی ماند کر سکتا ہے۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ایک اور دلچسپ ٹرینڈ جو سامنے آرہا ہے وہ یہاں رہائش پذیر غیر ملکیوں خصوصاً مغربی باشندوں کا یہ شکوہ کہ شہر اتنا مہنگا ہوتا جا رہا ہے کہ ان کی کمپنیاں ان کو بعض مالی سہولیات فراہم کرنے سے قاصر ہوتی جا رہی ہیں۔ آپ کو یہ بات پچھلی لکھی گئی تمام تفصیلات کی روشنی میں ایک بڑا تضاد محسوس ہو گی اس لئے یہ جان لیں کہ یہ صورت حال بھی شہر چلانے والوں کی پالیسی کا نتیجہ ہی ہے‘ پالیسی یہ نہیں کہ لوگ یہاں سے لازمی شفٹ کر جائیں بلکہ یہ کہ شہر اپنی ترقی کے ماڈل میں دور رس تبدیلیاں کر رہاہے اور کمپنیوں کو نئے حالات میں ایڈجسٹ کرنا ہو گا۔
شہر کا تبدیل ہوتا اکنامک ماڈل اب ہمیں چین کی کیا تصویر دکھارہا ہے؟ ایک بہت ہی دلچسپ کیس سٹڈی ہو سکتا ہے۔ اس بات کو ذرا سادہ انداز میں بتانے کی کوشش کرتا ہوں۔ شنگھائی شہر چین کے بہت مشکل ادوار میں بھی اپنے محل وقوع کے باعث صف اول کا تجارتی شہر رہا ہے لیکن اب چین کے وہ علاقے جو انفرا سٹرکچر اور سہولیات کی فراہمی مکمل کر چکے ہیں ان میں صنعتی ترقی کا کام تقسیم ہوچکاہے۔ میں نے اطراف کے صوبوں اور شہروں کو کئی مرتبہ دیکھا ہے اور ان علاقوں کو جدید انفراسٹرکچر اور سہولتوں کے لحاظ سے نہایت متاثر کن پایا ہے ۔ چین میںشہروں‘ صوبوں اور علاقوں کی اقتصادی درجہ بندی کی جاتی ہے جن میں شنگھائی سمیت چند شہر صف اول کے ہیں ‘ اس کے بعد دوسرے ‘تیسرے درجے کے شہروں اور پسماندہ علاقوں کا نمبر آتا ہے۔ اگر آپ چین سے متعلق خبریں پڑھتے رہتے ہیں تو یہ بھی ضرور پڑھا ہو گا کہ حالیہ برسوں میں ترقی کی سالانہ رفتار میں کمی آئی ہے۔ اس ٹرینڈ کو چینی پالیسی ساز ' نیو نارمل‘ کی دلچسپ اصطلاح سے سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ چینیوں کی آمدنی کا بڑا ذریعہ دنیا بھر میں ان کی مصنوعات کی فروخت سے حاصل ہوتا ہے جو یورپ اور امریکہ کی سکڑتی قوت خرید سے متاثر ہو رہا ہے۔ چینی پالیسی سازوں کے نزدیک بیرون ملک نئی مارکیٹس میں اضافے کے علاوہ اب اپنے ملک میں لوگوں کی بڑھتی ہوئی قوت خرید کے ذریعے بھی اکا نومی کو سنبھالا جا سکتا ہے اور اسی لئے سروس انڈسٹری کی نشونما پر توجہ دی جا رہی ہے۔ نئی سست روی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اب رفتہ رفتہ صنعتی آلودگی بڑھانے والے یونٹس اورکوئلے کے ذریعے توانائی کے حصول کو ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں ۔اسی طرح رفتار بمقابلہ استحکام کا تصور بھی زور پکڑ گیا ہے ‘ چین کے پسماندہ مغربی علاقوں میں ترقی کے ثمرات پھیلانے اور طویل المیعاد منصوبوں پر زیادہ توجہ مرکوز کی جا رہی ہے جس سے وقتی طور پر رفتا ر کم ہوتی نظر آتی ہے۔
اس سارے پس منظر میں جو حکمت عملی نظر آتی ہے وہ یہ اشارہ کرتی ہے کہ پھیلائو کے اس عمل کے نتیجے میں شنگھائی جیسے مالدار اور ترقی یافتہ شہر اب کنزیومرازم‘تحقیق اور نئے انڈسٹریل ٹرینڈز کو بڑھائیں گے جب کہ اندرون ملک میں تیار ہوجانے والی سہولیات روایتی صنعتی پیداوار اور ترقی کا بڑا حصہ سنبھالتے جائیں گے۔
چینی حکمران جماعت کا سالانہ اجلاس بھی بیجنگ میں شروع ہو چکا ہے جہاں سرکاری اہلکار‘ پارٹی نمائندے اور بزنس لیڈرز پر مشتمل ہزاروں مندوبین ہر سال مارچ میں جمع ہو کر ماضی کی پالیسیوں کا جائزہ اور مستقبل کے منصوبوں کا فیصلہ کرتے ہیں۔ اخبارات چھان ماریں یا ٹی وی سے جڑ کر اس کی کارروائی جانیں مجال ہے جو عمومی یا مبہم باتیں سننے کو ملیں ایسا لگتا ہے کہ ایک کامیاب کمپنی کے بورڈ آف ڈائرکٹرز کا اجلاس ہو رہا ہے جس کا شئیرہولڈر ہر چینی باشندہ ہے ۔اکثر دل میں خیال آتا ہے کہ ان کی قیادت سے کہوں کہ تھوڑا Chillکریں ہر وقت پلاننگ کی ٹینشن اور مستقبل کی فکر میں ہی لگے رہتے ہیںلیکن پھر سوچتا ہوں اگر انہوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تو ہم کہاں جائیں گے۔