ہمارا شمار بھی ان والدین میں کیا جاسکتا ہے جو نہایت کم عمری سے ہی اپنے بچے کو انگریزی بولتا دیکھ کر خوشی سے نہال ہو جاتے ہیں اور اس میں اگر تھوڑا سا غیر ملکی لہجے کا تڑکہ لگا ہو تو سینہ مزید پھول جاتا ہے۔ ہمارا بیٹا جس کا پہلا کنڈر گارٹن سکول چینی تھا ابتدا میں تو سکول میں بولی جانے والی چینی اور گھر کی اردو میں گزارا کرتا رہا لیکن جب سے اس نے پرائیوٹ انٹرنیشنل سکول میں جانا شروع کیا ہے تو چینی اور اردو دونوں کو ایک ہی جست میں پھلانگتے ہوئے فوراً ہی انگریزی پر فدا ہو چکا ہے۔ شروع میں تو ہم ذرا مطمئن رہے کہ چلو انٹرنیشنل کمیونٹی اور ایجوکیشن کا معاملہ ہے لیکن جلد ہی جب اسے ماں کی بولی جانے والی سرائیکی اور پنجابی سے غصے کی بو آنے لگی ( غصے میں تو مادری زبان ہی نکلتی ہے حالانکہ ماں انگریزی کے علاوہ فرنچ سے بھی کافی شناساہے) اور باپ کی اردو کو (Funny) سمجھنے لگا تو ہمارا ماتھا ٹھنکا کہ اب محض اردو اور سرائیکی بولنے سے گزارا ہونے والا نہیں بلکہ کچھ پڑھانے کا بندوبست بھی کیا جائے۔اس سلسلے میں کچھ اردو قاعدے مختلف ذرائع سے جمع کئے اور یوں دن بھر انگریزی میں لوٹ پوٹ کر آنے والے صاحبزادے کا پہلا اردو قاعدہ شروع کر دیا گیا ۔پہلے سے موجود جس قاعدے سے ا‘ب‘ پ کا آغاز کیااس نے چند ایک مواقع پر بڑی الجھن میں ڈال دیا ۔ حروف تہجی پڑھاتے اور ان کو لکھوانے کے دوران جیسے ہی قاعدے کا ' ک‘ اور ' گ‘ والا صفحہ آیا تو ک کے سامنے بنی کار کی تصویر دیکھ کر بچہ خوشی سے بول ْاٹھا کہ ' ک‘ سے اردو میں گاڑی ۔ اب یہاں تو' ک‘سے کار لکھا تھا جب کہ سامنے ہی ' گ‘ سے گاجر کی تصویر بنی ہوئی تھی بہرحال اس ایک مشکل صفحے کے علاوہ اس قاعدے نے بھی گزارا کروا دیا سوائے اس کے اب بھی ' ٹ‘ کے سامنے بنے ہوئے ٹماٹر کو دیکھ کر وہ ' ٹ‘ سے ٹومٹو‘ ہی بولتا ہے۔ بعد ازاں چند دوستوں کے مشورے سے اردو کی کچھ نصابی کتابیں منگوائیں تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ ان اداروں کی کتب کا معیار کافی بلند تھا (پاکستان کے نجی اداروں نے درسی کتب کو جدید بنانے اور اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے اچھا خاصا کام کیا ہے جس کا چرچا کم ہی سنائی دیتا ہے)۔
اس ہلکے پھلکے ابتدائیے کے بعد اصل بات کی طرف آتے ہیں کہ ہمارے خطے میںانگریزی کا ایک حاکمانہ ثقافتی پس منظر رہا ہے۔ پاکستان میں خاص طور پر مراعات یافتہ طبقے کی زبان کے طور پر اس نے پوری قوم کو الجھن میں ڈال رکھا ہے۔ متوسط طبقہ معاشی اور سماجی ترقی کے لئے انگریزی کو اہمیت دینے پر مجبور ہے۔ باقی سب کو تو چھو ڑیں مجھ جیسا فرد بھی پاکستانی کرکٹرز کی انگریزی پر اس طرح شرمندہ ہوتا ہے جیسے وہ کرکٹ کی مہارت کے بجائے انگریزی کا زبانی امتحان دینے آیا ہو۔ حا لانکہ عین ممکن ہے اس کی تعلیمی قابلیت بھی شین واٹسن یا کرس گیل جتنی ہی یا کچھ زیادہ ہو بس فرق زبان کا پڑ جاتا ہے‘ یہاں میں یہ لکھے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہماری ٹیم کی کرکٹ بھی انگریزی جیسی ہوتی جارہی ہے۔ انگریزی کی چھوٹ تو مل سکتی ہے خراب کرکٹ کی نہیں۔ چین میں گزشتہ تیس برس کے دوران انگریزی زبان کو بہت فروغ ملا ہے لیکن اس کی نوعیت پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میںانگریزی کے مقام سے بہت مختلف ہے۔ان لوگوں کے لئے اس زبان میں مہارت کا تجارتی پہلو زیادہ اہم ہے ،اسی لئے چینیوں کی انگریزی کی کم مہارت یا یہاں چینی سے انگریزی ترجمہ کرتے ہوئے غلط جملوں پر مذاق تو بن سکتا ہے لیکن اس سے یہاں کے تعلیمی معیار‘ شرح خواندگی اور ملکی ترقی پر کوئی اثر نہیں پڑتا کیونکہ ہر چینی باشندے کے لئے کم ازکم نو سالہ لازمی سکول کی تعلیم کے دوران ذریعۂ تعلیم ان کی اپنی زبان ہے۔ابتدائی تعلیم میں یہاںچینی زبان اور حساب کی تعلیم کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔انگریزی کو ایک مضمون کے طور پر پڑھانے کا رجحان بڑھا ہے لیکن اس کا شرح خواندگی سے کوئی تعلق نہیں ہے جو کم وبیش نوے فیصد سے زیادہ ہے۔میں نے جو تھوڑی بہت چینی زبان پڑھی ہے اس کے بعد تو اس قوم کو مزید داد دینے کو دل چاہتا ہے کہ ایک ایسی مشکل زبان جس کو لکھنے کے لئے آپ کے پاس پچیس تیس حروف تہجی کے بجائے ہزاروں الفاظ ہوں ‘پڑھا لکھا دینا بذات خود ایک چیلنج ہے۔ چینیوں نے نہ صرف اپنے لئے بلکہ غیر ملکیوں کے لئے بھی اس زبان کو آسان بنانے کے بڑے جتن کئے ہیں۔ ہزاروں برس کے ورثے والی اس زبان کی تحریر کے مشکل کلاسیکی الفاظ کو سادہ تحریر میں لائے تاکہ لکھنے میں آسانی ہو۔ چینی الفاظ کی آوازیں سمجھانے کے لئے انگریزی حروف تہجی کے ذریعے (Pinyin) کا طریقہ ایجاد کیا تاکہ مقامی اور غیر مقامی دونوں کو سیکھنے میں آسانی پیش آئے۔چین کے مختلف حصوں میں مختلف لب ولہجے میں بولی جانے والی چینی زبان کو' مینڈرن‘ جو چینی زبان کا سرکاری ماڈل ہے کے ذریعے سہل بنایا گیا ہے۔
یہاںکے تجربے سے جوکچھ نتائج میں نے اخذ کئے ہیں وہ اس پس منظر میں واضح کرنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ انگریزی بطور رابطے کے لئے اور دنیا بھر کے علوم کے وسیع ذخیرے کے باعث جو مرکزی حیثیت اختیار کر چکی ہے اس کا ادراک چینیوں کو بھی ہے اس لئے یہ لوگ اس کے سیکھنے کو بہت اہمیت دے رہے ہیں ۔ جس چیز کو یہاں اہمیت حاصل نہیں ہے وہ اس زبان کو بطور طبقاتی تفریق کے لئے رواج دینا ہے۔ یہاں بھی مغرب زدہ طبقہ ہے جو امریکہ ‘ یورپ کا دلدادہ ہے اوربے شمار چیزوں میں مغرب کی پیروی کرتانظر آئے گا‘ لیکن سرکاری سطح پر اپنی زبان کو اہمیت دینے کے باعث عام لوگوں کو اپنی کاروباری یا معاشی ضرورت کے علاوہ اس زبان سے کوئی لینا دینانہیں ہے یعنی انگریزی نہ آنا ایک مہارت کی کمی تو ہوسکتا ہے لیکن کم تعلیم یافتہ ہونے کا طعنہ نہیں بن سکتا۔ اسی سلسلے سے جڑی بات یہاں کی قیادت کا سرکاری سطح پر سختی سے صرف اپنی زبان میں بات کرنا ہے حا لانکہ اب یہاں لاکھوں لوگ بیرون ملک تعلیم حاصل کر کے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ جب حکمران طبقہ‘ بیورو کریسی‘ عدالتیںاور یونیورسٹیوں تک کی سطح پر اپنی زبان کی ہی گونج ہو تو وہ لوگوں میں کمتری کا احساس پیدا نہیں ہوتے دیتی ۔ مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ پاکستان کا کیس کافی مختلف ہے لیکن ہمیں بھی بہرحال اس زبان پر بطور ایک ہنر زیادہ توجہ دینی چاہیے جیسے کسی اور زبان مثلاٌ چینی ہی کا سیکھنا ایک نفع بخش قابلیت ہوسکتی ۔اسی طرح اس بات کے پیش نظر کہ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت کی مادری زبان اردو نہیں ہے اس کا عام فہم ترجمہ اور استعمال اپنی سرکاری اور قانونی زبان میں کرنے کی ضرورت ہے ‘یہ بالکل ضروری نہیں کہ متروک یا غیر مانوس الفاظ سے اسے بوجھل بنائیںساری بات اس سطح پر تحقیق اور لوگوں کے لئے آسانیاں پید ا کرنے کی ہے۔
آخر میں پھر ایک ذاتی مثال سے بات کو مکمل کرتا ہوں کہ میرے بیٹے کے سکول نے سب والدین کو ایک آن لائن ریڈنگ روم فراہم کیا ہے جس میں کمپیوٹر ‘ ٹیبلٹ یا سمارٹ فون پر کم ازکم تین سو انگریزی کی مختصر تصویری کتابیں موجود ہیں ۔ درجہ بدرجہ پڑھنے والے اس ریڈنگ روم میں وہ ان کتابوں میں موجود جملوں کو سنتا ہے پھر انہی کو تصویروں کی مدد سے پڑھتا ہے اور کوئز کی شکل میں موجود سوالات کے جواب دے کر سٹارز لیتا ہے ۔ محض چند ماہ میں اس کی پڑھنے کی صلاحیت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ میری ان باتوں کو آپ خو دنمائی کے چونچلے سمجھ کر نظر انداز نہ کیجئے گا اس طرح کی ہزاروں کتابیں کہانیوں کی صورت میں اردو میں لکھنے والے لوگ بھی ہمارے ہاں ہوں گے اور کروڑوںکی تعداد میں چھاپ کر ملک کے کونے کونے میں پھیلائی بھی جا سکتی ہیں۔ پاکستانی، انٹرنیٹ اور موبائل فونوں کے معاملے میں بھی کسی سے کم نہیںاس لئے ان کاآن لا ئن استعمال بھی ممکن ہے۔ مجبوراً انگریزی کا ہی ایک لفظ استعمال کرکے بات ختم کرتا ہوں کہ ان سب چیزوں کے لئے اشرافیہ کی پولیٹیکل ول بہت ضروری ہے باقی سارے کام چٹکیوں میں ہو سکتے ہیں۔