کہا جاتا ہے کہ اگر انسان ذرا طویل چھٹیاں گزار کر واپس اپنے روٹین پر آئے تو ان کی کسلمندی دور کرنے کے لئے اسے مزید چھٹی درکار ہوتی ہے جو شاید کم ہی لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے اپریل کے پہلے ہفتے میں چینی فیسٹیول 'چھنگ منگ‘ کی ایک چھٹی ہفتہ اور اتوار کے ساتھ مل کر چینی باشندوں کو کچھ تقویت دینے کا باعث بن جاتی ہے‘ جو نئے چینی سال کی طویل چھٹیوں کے مزے لینے کے بعد سے اداس گھوم رہے ہوتے ہیں۔ یہ تہوار بھی اپنے اندر ایک عجیب سا رنگ لئے ہوا ہے جس میں 'کبھی خوشی کبھی غم‘ والا عنصر پایا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر اس فیسٹیول کو 'قبروں کی صفائی اور آرائش‘ (Tomb Sweeping) والے دن سے شروع کیا جاتا ہے‘ جس میں چینی باشندے اپنے بزرگوں اور رشتہ داروں کی قبروں پر کھانے‘ وائن‘ کاغذ کے مصنوعی نوٹوں (جلانے کے لئے)‘ پھلوں اور پھولوں کے ہمراہ حاضری دیتے ہیں‘ اور مقبروں کے ارد گرد اگے جھاڑ جھنکار کی صفائی بھی کرتے ہیں۔ کاغذ کے فرضی نوٹ ڈھیروں خوشبودار اگربتیوں کے ہمراہ جلانا بھی ایک اپنی ہی طرز کی روایت ہے جسے سب سے پہلے میں نے سنگاپور میں اپنے چینی پڑوسیوں کو کرتے دیکھا تھا‘ سمجھ البتہ یہاں پہنچ کر آئی۔ ان لوگوں کے نزدیک یہ پیسے جلانے سے معاشی آسودگی نصیب ہوتی ہے؛ البتہ مقبروں پر اس روایت کے جاری رہنے سے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ شاید ان کے آبائواجداد اس خواہش کو موثر طریقے سے آسمانوں پر پہنچاتے ہوں۔ چین کے لوگ روایتی طور پر تو اپنے خاندان کی آخری آرامگاہوں پر حاضری دینا اس موقع پر سب سے اہم کام تصور کرتے ہیں‘ لیکن بدلتے وقت اور نہایت مصروف طرز زندگی نے اس موقع کے لوازمات پر کافی اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہاں کی معاشرت میں اس دنیا سے گزرنے والوں کی تدفین کے لئے مناسب جگہ اور قبر کی تعمیر ہی سب سے مناسب اور پُروقار طریقہ ہے لیکن قبرستانوں میں جگہ کی تنگی اور بڑھتے ہوئے اخراجات کے باعث لوگوں کی ایک بڑی تعداد اپنے مردوں کے جلانے کو ترجیح دینے لگی ہے۔ اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے ہی شاید ہر سال قبرستانوں میں حاضری دینے والوں کی تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے‘ اور اسی نسبت سے رسومات میں بھی روایتی رنگ پھیکا پڑنے لگا ہے۔
قبرستانوں میں مناسب جگہوں کی فراہمی اور تجہیز و تکفین کا انتظام کرنے والے بیجنگ کے ایک ادارے کے مطابق ایک میت پر اوسطاً 70 ہزار یو آن (گیارہ لاکھ بیس ہزار روپے کے قریب) گزشتہ برس کا خرچہ تھا۔ شہروں میں جگہوں کی کمیابی کے باعث گرد و نواح کے بڑے قبرستان اب تدفین کے لئے موجود تو ہیں‘ لیکن یہاں بھی قبروں کے لئے پلاٹ کی بکنگ لینا کوئی آسان کام نہیں رہا ہے۔ شہر سے پچاس کلومیٹر دور لنگ شان پگوڈا قبرستان ہی بیجنگ کے ان باشندوں کی آخری پناہ گاہ بن سکتا ہے‘ جن کے لواحقین اتنے اخراجات ادا کرنے کے قابل ہوں۔ حکومت جگہ کی کمیابی اور اخراجات کا حل نکالنے کے لئے خاندانوں کی مخصوص جگہ پر تدفین یا پھر ان کو جلا کر راکھ بنانے کی پالیسی پر زور دے رہی ہے۔ شنگھائی جیسے شہروں میں تو مردوں کو جلانے کا رجحان کافی زور پکڑ چکا ہے‘ جہاں لواحقین راکھ کو محفوظ کر سکتے ہیں‘ سمندر میں بہا سکتے ہیں یا پھر کسی درخت وغیرہ کے نیچے دفن کر سکتے ہیں۔ مردوں کو نذر آتش کرنے کا پڑھ کر آپ یہ نہ سوچئے گا کہ چین میں ہندوستان کی طرح کوئی شمشان گھاٹ پائے جاتے ہیں‘ جہاں منوں لکڑی تلے مردے کو آگ لگائی جاتی ہو بلکہ یہاں بھی مغربی طرز پر آگ کی مشینی بھٹیوں پر پیشہ ورانہ طریقوں سے مردوں کو جلایا جاتا ہے۔ عام طور پر متمول یا روایت پسند چینی اس طریقے کو اختیار نہیں کرتے کیونکہ اس طرح خاندان کی عزت اور مردے کی تقدیس پر اثر پڑتا ہے۔ یہ لوگ اپنا رتبہ یعنی چہرہ 'میان زی‘ (Mianzi) بچانے یا دوسرے الفاظ میں اپنی ناک اونچی رکھنے کے لئے بھاری اخراجات کر کے تدفین اور پکی قبر تعمیر کروانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان تمام باتوں کے ساتھ ہی چینی لوگ مردوں کو جلانے والی بھٹیوں میں کام کرنے کے پیشے کو بہت باعزت نہیں سمجھتے۔ ایک ورکر کے بقول: 'میں کام پر جاتے ہوئے ٹیکسی والے کو اصل جگہ سے پہلے ہی رکوا کر اتر جاتا ہوں کیونکہ بعض ٹیکسی والے یہاں کی سواری لینا اچھا شگون نہیں سمجھتے‘۔ بہرحال چینی پسند کریں یا نہ کریں ایک بڑی تعداد اب انہی لوگوں سے رجوع کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔
اس سے پہلے کہ آپ ان تفصیلات کو پڑھتے ہوئے لاحول کہہ کر بقیہ کالم چھوڑ دیں‘ اسی چھٹی سے منسلک دوسرے خوشگوار حصے پر آ جاتے ہیں‘ رشتہ داروں کی آخری آرام گاہوں پر حاضری دینے کے ساتھ ہی یہ موقع موسم بہار کی ابتدا اور پھول‘ پھلواریاں بونے کا آئیڈیل وقت بھی سمجھا جاتا ہے‘ کیونکہ درختوں پر ہریالی نظر آنے لگتی ہے اور سردی بھی بالآخر جان چھوڑتی نظر آتی ہے۔ جب اس دنیا سے گزر جانے والوں کی یاد منانے کے بعد لوگ بہار کی آمد کا استقبال کرتے ہیں تو یہ ایک منفرد تہوار کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ چھوٹا موٹا بسنت کا میلہ بھی منایا جاتا ہے۔ موسم چوونکہ خوشگوار ہو رہا ہوتا ہے اس لئے لوگ کھلی جگہوں‘ پارکوں اور تفریح گاہوں کا رخ کرتے ہیں۔ روایتی طور پر اس موسم کو پتنگ بازی کے لئے کافی موزوں سمجھا جاتا ہے‘ لیکن یاد رہے کہ یہاں ہونے والی پتنگ بازی میں نہ 'بو کاٹا‘ ہوتا ہے اور نہ ہی پیتل کی تاروں سے ڈور بنا کر لوگوں کی زندگی سے کھیلا جاتا ہے۔ خاندان‘ دوست مل کر کھلی جگہوں پر نہایت رنگین اور خوبصورت پتنگیں خاموشی سے بلندی پر اڑاتے رہتے ہیں۔ ان چھٹیوں میں تو نہیں البتہ چند ایک ویک اینڈ پر ہم نے بھی کافی بڑے سائز کی پتنگیں اڑانے کی کوشش کی تھی‘ لیکن نتیجہ وہی نکلا جو پاکستان میں نکلتا تھا‘ یعنی پتنگ اڑتے ہی بیٹھ گئی اور ہم ڈور ہی ہلاتے رہ گئے۔ 'چھنگ منگ‘ فیسٹول کے ترجمے 'خالص اور روشن‘ کو بہار کے موسم کے لحاظ سے اسم بامسمیٰ ہی سمجھیں‘ مشرقی چین کا علاقہ بشمول شنگھائی کافی سرسبز خطہ ہے‘ جہاں آپ ساری رتیں بدلتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں۔ بہار کے آغاز سے ہی درختوں میں ننھی ننھی کونپلیں نمودار ہونے لگتی ہیں‘ چیری کے درخت بھی مختصر مدت کے لئے اپنی خوبصورتی بکھیرتے ہیں۔ طویل سردی کے ستائے ہوئے لوگ جوق در جوق باہر نکلنا شروع ہوتے ہیں‘ اور اسی طرح بھرتی ہوئی شاخوں پر پرندے دوبارہ چہچہانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس دن کی مناسبت سے لوگ روایتی پکوانوں کا اہتمام کرتے ہیں‘ بلکہ ایک عجیب روایت یہ ہے کہ اس روز گرم پکے ہوئے کھانوں کے بجائے ایسے پکوانوں کو ترجیح دی جاتی ہے جو کچے یا ٹھنڈے ہوں۔ اس روایت کے پس منظر میں بھی ہزاروں برس قبل کی ایک دیومالائی داستان ہے‘ جس کی تفصیل میں جائے بغیر اتنا سمجھ لیں کہ ایک بادشاہ سلامت نے اپنے ایک وفادار ملازم کی ناگہانی موت کے باعث (جس کی حادثاتی موت کے وہ خود ہی ذمہ دار تھے)‘ اس دن آگ میں کھانا پکانے کی ممانعت کر دی تھی‘ اور پھر چل سو چل‘ روایت کچی ہو یا پکی چلتی رہتی ہے۔ بعض روایت پسند چینی اس دن کھانا چولہے پر نہیں پکاتے بلکہ اس سے ایک دو دن پہلے تیار کر کے رکھ لیتے ہیں۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کچھ مخصوص ڈشز تو وجود میں آ گئی ہیں لیکن ہمیں شبہ ہے کہ شہروں کے اکثر باسی اب اس روایت کو زیادہ سنجیدہ لیتے ہوں گے۔
چینیوں کا 'چھنگ منگ‘ فیسٹول ہو‘ بسنت کی گہماگہمی‘ بیساکھی کا میلہ‘ ہولی کا ہنگامہ یا نوروز کی آمد کا جشن‘ یہ سب تہوار دراصل نئے موسم کی آمد کا اعلان ہوتے ہیں۔ ایک قدیم مشرقی معاشرے کی حیثیت سے چین میں بھی ان سے جڑی کہانیاں‘ حکایات اور قصے پائے جاتے ہیں جو کچھ دیر کے لئے لوگوں کو انتہائی مصروف زندگی میں سے فراغت اور تفریح کے مواقع فراہم کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ سکڑتی دنیا اور لوگوں کی یکسانیت بھری مشینی زندگی میں ان تہواروں کا دم غنیمت ہے‘ جس میں لوگ کچھ دیر کے لئے اپنے دماغ کو آرام دے کر دل کو بہلا لیتے ہیں۔