بچپن سے لڑکپن تک ہمارے نزدیک بال کٹوانے کا مطلب انہیں اتنا چھوٹا کروانا ہوتا تھا کہ سکول میں پی ٹی کے ٹیچر کی مٹھی میں نہ آپائیں کیونکہ ان کا بالوں کی لمبائی ناپنے کا پیمانہ وہی ہوتا تھا۔ایک وقت ایسا بھی تھا کہ نائی کرسی پر ایک تختہ لگا کر ہمیں اونچا بٹھا دیتا کہ حجامت ٹھیک سے بنا سکے اور ہم ایک فرمانبردار بکر ا بنے اپنا سر آگے دے دیتے تھے اور وہ ہمارے سر کے ساتھ سلوک بھی قربانی کے بکرے والا ہی کرتا تھا۔ جیسے ہی ذرا بڑی کلاسوں میں پہنچے تو بالوں کو چھوٹے کروانے سے زیادہ ان میں سٹائل لانے کی فکر لاحق ہوئی لیکن مسئلہ وہی تھا کہ اس شوق میں سکول کے ڈسپلن کا تختہء مشق نہ بن جائیں، بہرحال جب جب حالات نے مہلت دی تب تب خطرہ مول لے کر بالوں کو زلفوں میں تبدیل کرنے کو شش ضرور کی۔ کالج میں داخل ہونے کی سب سے زیادہ خوشی بھی یہی تھی کہ اب جس فلمی ہیرو کا انداز چاہیں اپنائیں کوئی کان مروڑنے والا نہیں ۔اسی دور میں چند ایک شوقین مزاج دوستوں نے بالوں کو مزید خوبصورت بنانے کے چند ایک فارمولے بھی بنا رکھے تھے جن میں سے اولین نہانے سے پہلے سر پر انڈے کی زردی مل لینا تھا یہ تجربہ کچے انڈے کی دلفریب خوشبو کی وجہ سے ایک بار استعمال کرکے چھوڑ دیا ‘ دوسرا آزمودہ نسخہ رات کو سوتے ہوئے ڈھیر سارا سرسوں کا تیل مل لینا اور صبح اٹھ کر سر دھونے سے متعلق تھا لیکن یہ معاملہ بھی عجیب سا ہی لگا پھر جس تکیے پر سر رکھ کر سوتے اس کا کور دھلنے کے لائق ہی نہ رہتا ‘ ہماری کامن سینس نے یہی بتایا کہ سیدھے طریقے سے شیمپو استعمال کرلینے میںکوئی حرج نہیں ۔بچپن کی حجامت والی یادوں نے کچھ ایسا نفسیاتی دبائو پید ا کیا ہے کہ اب بھی بینک کے علاوہ اگر کہیں کنفیو ژن ہوتی ہے تو وہ باربر شاپ یعنی جناب نائی صاحب کے سامنے ہی ہوتی ہے ۔بھلے لوگ تو اپنے چند ایک آزمودہ نائیوںکے پاس ہی جاتے ہیں لیکن ہم نے اتنی جگہیں بدلی ہیں کہ کسی کو چاہتے ہوئے بھی مستقل اپنا نہیں سکے۔ اب پڑھنے والوں کو یہ تو اندازہ ہو ہی گیا ہے کہ بات چاہے کہیں سے بھی شروع ہو ہم نے اسے چین پہنچا کر ہی دم لینا ہوتا ہے اس لئے شنگھائی پہنچنے سے پہلے ایک چین سے باہر کا قصہ سنتے چلیں۔
لندن میں جب ہم نہایت ہی اعلی پائے کی تعلیم کے لئے وارد ہوئے تو سب سے بڑا جھٹکا یہاں پائے جانے والے دیسیوں کی تعداد کو دیکھ کر لگا۔ جہاں کا رخ کریں انڈین‘ پاکستانی اور بنگالی بھائی بہنوں کی کثیر تعداد دیکھ کر ایسا لگتا جیسے نسبتاً صاف‘ ٹھنڈے اور سر سبز کلکتہ میں گھوم رہے ہیں اور چند ایک گورے جو نظر آتے وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ملازم ہیں۔ اس ماحول کا بہرحال ایک ایڈوانٹیج یہ تھا کہ دیسی نائیوں کی دکانوں پر گوروں کی نسبت کم پیسوں میں بالوں کا کریا کرم ہو جاتا۔ ہم نے بھی ایک پاکستانی نژاد نائی کو منتخب کر لیا جو ایک معقول رقم کے عوض اتنا کام کر دیتا کہ ڈیڑھ ‘دو مہینے نکل جاتے ‘ ایک دن شاپنگ مال میں موجود ایک خالصتاً گوری باربر شاپ دیکھ کر سوچا کہ چلو دو چار پائونڈز کی مزید قربانی دے کر ذرا اس بلونڈ حسینہ سے بال بنوائے جائیں ۔ موصوفہ نے بالوں کو تراشنے سے پہلے خالص لندن کے کوکنی لب و لہجے میں ہمارا انٹرویو شروع کر دیا‘ لندن کا یہ ' کوکنی‘ لہجہ ایسا ہوتا ہے کہ ڈیوڈ کیمرون کو بھی سمجھ نہ پڑے تو ہم جیسا ' فریشی‘ کیسے جواب دے پاتا( برطانیہ کے مقامی پیدا ہونے والے ایشیائی باشندے نئے دیسیوں خصوصاً طلباء کو' فریشی‘ یعنی دوسرے لفظوں میں پینڈو کہہ کر پکارتے تھے اور شاید اب بھی ایسا ہی ہو) حجام حسینہ کی انگریزی تو خیر بھگت ہی لیتے لیکن جب اس نے بالوں کی کٹائی سے متعلق تکنیکی سوالات یعنی کتنے انچ کہاں سے چھوٹے کرنے ہیں؟ باقاعدہ ناپ تول کے انداز میں پوچھے تو بس ہاں ہوں کر کے جان چھڑائی اور چند منٹوں میں ہی اس نے ادھر ادھر سے چار بال کتر کے تھپکی دی کہ اٹھ بچے کر دیا تیرا شوق پورا‘چپ کر کے پیسے دئیے اور کان دبا کر بلکہ ان کو ہاتھ لگاتے ہوئے نکل کھڑے ہوئے‘ کئی دنوں تک دوستوں سے نئے ہیئرکٹ کے بارے میں رائے لیتے رہے جن کا سوال نما جواب یہی تھا کہ اچھا توتم نے بال کٹوائے ہیں۔
اب دیگر چند ایک اور ممالک اور وہاں کے ہیئر ڈریسرز کے تجربات چھوڑتے ہوئے ذرا شنگھائی کے نائیوں کی بات کر لیتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے اس شہر کی بیکریاں اور ہیئرسیلون سب سے زیادہ بھاتے ہیں جو ہیں تو بھانت بھانت کے لیکن اکثر میں ہر کسی کی جیب کے مطابق کچھ نہ کچھ سامان یا سروس میسر رہتی ہے۔ یہاں کے باسی خصوصاً خواتین تو ہیئرسیلونز کی بڑی گرویدہ ہیں جہاں بالوں کی آرائش اور ٹریٹمنٹ کے معروف طریقوں اور جدید مشینوں کی مدد سے نت نئے انداز میں کام جاری رہتا ہے۔ جہاں تک مردوں کی بات ہے تو یہاںاکثر حضرات چھوٹے بال رکھتے ہوئے ایک ہی طرح کا سٹائل پسند کرتے ہیں جو ہمارے بچپن کے زبردستی بنوائے جانے والے سولجر کٹ جیسا ہی ہوتا ہے۔ پہلی مرتبہ جب چینی زبان با لکل ہی نہ آتی تھی ہیئرڈریسرکو اشاروں کی مدد سے سمجھا یا تو اس کے زور زور سے سر ہلانے کے باوجود جب بال کٹنے کی رسم انجام کو پہنچی تو ہمارا حلیہ بالکل وہی بن گیا جیسا پانچویں جماعت میں ہوتا تھا ۔ دوسری مرتبہ ذرا اونچے دام والے سیلون جہاں غیر ملکی زیادہ جاتے تھے اس امید پر پہنچے کہ شاید کچھ بات بن جائے اور ٹوٹی پھوٹی انگریزی جاننے والے ہیئر ڈریسر نے کافی مناسب کٹنگ بھی کردی ‘ ابھی ہم مسکرا کر اٹھنا ہی چاہتے تھے کہ موصوف نے اشارے سے روکتے ہوئے ڈرامائی انداز میں اپنی کمر سے لٹکے بیگ کے در جنوں اوزاروں میں سے کچھ نکالا اور ہم نے یہ سوچ کر آنکھی موند لیں کہ فائن ٹچنگ ہو رہی ہے ‘ گردن اور کانوں کے پاس مشین کے چلنے سے کچھ شک گزرا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں لیکن ان چند سیکنڈوں میں ہی کارروائی مکمل ہو چکی تھی یعنی سامنے سے ہم ہالی وڈ اداکار بریڈ پٹ اور پیچھے سے حوالدار بن چکے تھے۔اس حادثے کے بعد جب اسٹائلسٹ پر نظر ڈالی تو اس کی فخریہ مسکراہٹ نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور پھر ہم نے اس جگہ پر بھی کراس لگا دیا۔
قصہ مختصر کہ ادھر ادھر بھاگ دوڑ کرنے کے بعد بالآخر ' بغل میں بچہ اور شہر میں ڈھنڈورا ‘ کے مصداق ہم پر یہ انکشاف ہوا کہ جن کمرشل بلڈنگز میں ہمارا آنا جانا زیادہ ہوتا ہے ان سے محض دو تین سو میٹر کے فاصلے پر ایک ایسی پر رونق اسٹریٹ موجود ہے جہاں کم وبیش چار پانچ نہایت اسٹائلش ہیئر سیلونز میں بڑا زبردست مقابلہ جاری رہتا ہے جس کے باعث سروس زوردار اور دام مناسب ہوتے ہیں۔ اب ہم اس اسٹریٹ پر ٹہلتے ہوئے کسی بھی ایک میں داخل ہو جاتے ہیں جہاں دروازے پر کھڑا ایتھلیٹک سا اسٹاف خو ش آمدید کہہ کر کوٹ یا جیکٹ لاکر نما الماری میں رکھ دیتا ہے ‘ بالوں کو کنڈیشنر سے دھویا ‘ خشک کیا جاتاہے اور اسی دوران عجیب و غریب ڈیزائن کی درجنوں قینچیوں سے مزین ہیئرڈریسر تشریف لے آتے ہیں ‘ ہم اپنے موبائل میں محفوظ ایک تصویر دکھا کر اسے کسی حد اپنے مطلوبہ اسٹائل کا اشارہ دیتے ہیں اور کام شروع ہو جاتا ہے۔ ارد گرد موجود چینی حسینائوں کو جن میں سے اکثر کے سر بڑی گول مشینوں سے ڈھکے ہوتے ہیں یا ان پر ڈھیروں کلپس اور رولز لگے ہوتے ہیں ایک نظر دیکھتے ہیں اور ان کو اپنے اسمارٹ فونوں میں مشغول پا کر مایوسی سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ اکثر چائے سے تواضع بھی کی جاتی ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ بال کٹنے سے پہلے اور اس کے بعد شیمپو ‘ کنڈیشنر وغیرہ سے سر دھونے کے لئے علیحدہ واش جگہ اور نوجوان چاق و چوبند‘ زنانہ اسٹاف بھی ہوتا ہے ‘ اب ایک شادی شدہ دیسی کو اس سے بڑی کیا نعمت میسر ہوسکتی ہے۔جہاں تک بات رہ گئی مطلوبہ ہیئراسٹائل کی تو اس کالم کے ساتھ تصویر دیکھنے کے بعد آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہو گا کہ ہم نگر نگر گھوم کر چین بھی آپہنچے لیکن بالوں کا معاملہ وہیں کا وہیں اٹکا رہ گیا ہے۔