شنگھائی کے کسی بھی تفریحی مقام خصوصاً پارکس کے باہر کھانے پینے کی ہلکی پھلکی چیزوں‘ رنگ برنگے غباروں اور کھلونے فروخت کرنے والوں سے واسطہ پڑنا معمول کی بات ہے۔ چھٹی والے روز ان کی تعداد مزید بڑھ جاتی ہے۔ اب خوشگوار سی گرمی (یہاں مئی میں ٹمپریچر عموماً سولہ سے چوبیس‘ پچیس ڈگری کے درمیان رہتا ہے) کے آغاز کے باعث پانی کی بوتلیں‘ اور موٹے تنکوں میں پروئے ہوئے خربوزے‘ بیچنے والے بھی اس گروہ میں شامل ہو گئے ہیں۔ مجھے سٹک پر لگی آئس کریم کے انداز والے خربوزوں کا آئیڈیا بہت پسند آیا ہے‘ جس میں آپ ہاتھ خراب کئے بغیر خربوزے کی پھانک نوش کر لیتے ہیں۔ عوامی تفریح گاہوں کے داخلی دروازوں اور اس کے ارد گرد کی فٹ پاتھوں پر موجود یہ خوانچہ فروش ایک پاکستانی کے لئے تو کوئی ایسی غیر معمولی چیز نہیں‘ جس پر زیادہ توجہ دی جائے لیکن ایک اور مختلف نظارہ کبھی کبھی ذرا دلچسپی کا باعث بن جاتا ہے۔ یہ سارے خوانچہ فروش ہاتھ سے چلائے جانے والے روایتی ٹھیلوں یا دو پہیوں کی سائیکلوں کے بجائے تین پہیوں والے ٹھیلوں پر اپنا سامان رکھ کر بیچتے ہیں تاکہ اگر رش کے باعث مقامی پولیس انہیں وہاں سے ہٹائے تو وہ آسانی سے پیڈل مارتے ہوئے رفوچکر ہو جائیں۔ عام طور پر یہاں مرکزی سڑک کے ساتھ سائیکل اور موٹر سائیکلوں کی لین ہوتی ہے‘ اور پھر فٹ پاتھ۔ جب مقامی انتظامیہ کے اہلکار اس جگہ کو خالی کرنے کا کہتے ہیں تو یہ ٹرائی سائیکل خوانچے والے مزے سے سائیکل والی لین پر اتر کر اور مرکزی گزرگاہ سے دور اس امید پر جا کھڑے ہوتے ہیں کہ شاید پیدل آتے جاتے لوگ ان سے کچھ نہ کچھ خرید لیں۔ راستہ صاف رکھنے والی پولیس کے اہلکاروں اور ان چھاپہ مار خوانچہ فروشوں کا ایک خاموش اور دلچسپ میچ اسی طرح چلتا رہتا ہے۔ رش کے دنوں میں ان کو فٹ پاتھوں پر جگہ ملنے میں تو دقت ہوتی ہے لیکن تفریح کے لئے آئے عوام ہلکے پھلکے سنیکس وغیرہ ان ٹھیلے والوں سے لینے میں سہولت محسوس کرتے ہیں۔ مقامی پولیس اہلکاروں کو بھی اس صورت حال کی سمجھ ہوتی ہے‘ اس لئے وہ راستوں کو رواں رکھنے کے لئے ان کو ہٹاتے ہیں‘ تو ان کے نسبتاً فاصلے پر کھڑے ہونے کو وقتی طور پر نظر انداز بھی کر دیتے ہیں تاکہ گلشن کا کاروبار چلتا رہے؛ البتہ کبھی کبھی جب ٹریفک کا دبائو یا رش زیادہ ہو تو پھر یہ خاموش معاہدہ ختم ہو جاتا ہے اور یہ ٹرائی سائیکل ٹھیلے والے اپنی قسمت کی دیہاڑی لے کر اپنی اپنی راہ لیتے ہیں۔
اس شہر میں فٹ پاتھوں پر مستقل ڈیروں یا ٹھیلوں کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اخبارات‘ رسائل یا لاٹری کے ٹکٹ فروخت کرنے والے کیبن ہی کسی منظور شدہ مقام پر نظر آتے ہیں‘ جبکہ باقی سارا نظام ہی عارضی ہوتا ہے‘ مثلاً میری رہائش سے قریباً تین کلومیٹر دور غیر ملکیوں میں معروف ایک سڑک پر کافی گہماگہمی رہتی ہے۔ اسی سڑک سے متصل یہاں ایک فوڈ سٹریٹ ہے‘ جس میں قائم ریسٹورنٹس اور بارز وغیرہ پر شام کے اوقات میں خاصی رونق رہتی ہے۔ غیر ملکیوں کے قرب و جوار میں رہائش اور ان کی اس جگہ مٹر گشت کے باعث یہاں کئی ایک عمدہ اور مہنگی مارکیٹس اور دکانیں بھی پائی جاتی ہیں۔ اس پُررونق جگہ پر رات جیسے جیسے جوان ہوتی ہے اس کے ارد گرد کی فٹ پاتھوں پر عارضی خوانچہ فروش بھی نمودار ہو جاتے ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں چند بار بی کیو تیار کرنے والے ہوتے ہیں‘ اور رات گئے بارز سے نکلنے والے من موجی ٹولوں کو اپنی اشیا فروخت کرتے ہیں۔ اسی مقام کے ایک کونے پر نان فروخت کرنے والے سنکیانگ کے ایک مسلمان نوجوان سے میری خاصی علیک سلیک ہے۔ میں اکثر ہفتے یا اتوار کی دوپہر اس کے بنائے ہوئے تازہ اور خستہ نان لینے چلا جاتا ہوں۔ اس بے چارے کی بڑی سخت ڈیوٹی رہتی ہے کہ ایک چھوٹے سے پہیوں والا عارضی تنور لئے تقریباً بارہ‘ چودہ گھنٹے ایک ہی جگہ پر ٹکا رہتا ہے‘ لیکن پھر بھی سلام کا مسکرا کا جواب دیتا ہے۔ عارضی خوانچہ فروشوں سے ہٹ کر کبھی کبھی ایک اور دلچسپ کیٹیگری سے بھی واسطہ پڑ جاتا ہے‘ جس کو آپ پھلوں کا چھاپہ مار ٹرک کہہ سکتے ہیں۔ پیچھے سے کھلے ہوئے چھوٹے سائز کے یہ ٹرک موسم کے تازہ پھلوں مثلاً آج کل تربوزوں اور خربوزوں سے بھرے ہوتے ہیں‘ اور کسی عارضی مقام پر کھڑے ہو کر فٹافٹ سستے داموں ان کو فروخت کرتے ہیں۔ آس پاس گزرنے والے بھی ان سے جلد از جلد خریداری کر لیتے ہیں کیونکہ ان کو دو باتیں اچھی طرح پتہ ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ پھل تازہ اور مارکیٹ سے سستے ہوں گے‘ اور دوسری یہ کہ ٹرک نے کچھ دیر ہی میں چلے جانا ہے۔ عارضی ٹھیلوں میں میری سب سے زیادہ دلچسپی فلموں یا ٹی وی سیریز کی ڈی وی ڈیز فروخت کرنے والوں میں ہوتی ہے۔ جہاں کہیں یہ نظر آ جائیں میں فوراً ان کو چھان مارتا ہوں کہ اس سائیکل ٹھیلے پر موجود چینی ڈراموں یا فلموں کے درمیان شاید کوئی ایسی انگریزی فلم یا ڈرامہ سیریز ہاتھ لگ جائے‘ جو میں انٹر نیٹ سے ڈائون لوڈ نہیں کر پایا ہوں۔ بدقسمتی سے اب ان ٹھیلوں کی تعداد بہت تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ مقامی ماحول کا کسی حد تک عادی ہو جانے کے باعث میری نظریں اکثر کسی کونے کھدرے میں چادر بچھائے ان لوگوں پر بھی رہتی ہیں جو کوئی پرانا سامان لئے بیٹھے ہوں۔ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے لیکن کبھی وہاں سے کوئی کلیکشن آئٹم ہاتھ لگنے کی موہوم سی امید ہوتی ہے۔ وہ قارئین جو کبھی یہاں کی سیاحت کریں انھیں میرا مشورہ یہی ہو گا کہ فٹ پاتھ پر بکنے والی نوادرات ٹائپ سے گریز کریں کیونکہ اگر آپ چینی زبان اور مقامی ماحول سے ناآشنا ہوں تو یہ ایڈونچر مہنگا پڑ سکتا ہے۔ یہاں کے فٹ پاتھوں پر ایک اور نمایاں چیز سٹیل کی وہ ریلنگز ہوتی ہیں جن کے ساتھ آپ اپنی سائیکل یا الیکٹرک بائک کو لاک کر سکتے ہیں۔ انہی جگہوں کے کونوں پر ریڑھی نما ٹھیلا لئے چند خاموش کردار شکرقندی اور ابلے ہوئے ْبھٹے (چھلی) بیچنے والوں کی صورت میں بھی اکثر مل جاتے ہیں‘ جو فوری بھوک مٹانے کا سستا ترین ذریعہ ہوتے ہیں۔
شہر کی ترقی اور نت نئی تعمیرات کے باعث فٹ پاتھوں پر آزادانہ فروخت کرنے والے خوانچہ فروشوں کے آپشنز محدود ہوتے جا رہے ہیں‘ اور کسی مخصوص جگہ کے متعین نہ ہونے کی وجہ سے اکثر محنت کشوں کے لئے یہ اب ایک پارٹ ٹائم جاب بن کر رہ گئی ہے۔ شہر کے چند ایک علاقے اور بازار ہی ہیں جہاں یہ لوگ اپنا عارضی دھندا چلاتے ہیں اور وہاں بھی پولیس یا انتظامیہ کی طرف سے ہٹائے جانے کے سگنل کے باعث چوکنا رہتے ہیں۔ اہم شاپنگ والی سڑکوں اور سیاحتی جگہوں میں گھڑیاں‘ ہینڈ بیگز یا موبائل فون بیچنے والے کارندے بھی خاموشی سے گاہکوں کی طرف لپکتے ہیں۔ ان حضرات سے بچنے کا آسان نسخہ یہ ہے کہ آپ چینی زبان میں 'پو یائو‘ یعنی نہیں چاہیے کا ورد کرتے ہوئے آگے بڑھ جائیں؛ البتہ موبائل فون سے تصاویر بنانے والی سیلفی سٹکس یا چھتریاں فروخت کرنے والوں سے چیزیں لینے میں کوئی مضائقہ نہیں‘ بس الیکٹرونکس کی اشیاء‘ موبائل فونز اورگھڑیوں وغیرہ کے لئے فٹ پاتھ کے کارندوں سے گپ شپ کوئی اچھا آئیڈیا نہیں۔ شنگھائی میں غیر مقامی چینی محنت کشوں کو کام کرنے کے لئے پرمٹ درکار ہوتا ہے اور دوسری جگہوں سے آئے ہوئے لوگ جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں اس اجازت نامے کے ساتھ محنت مزدوری کرتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ ایک معقول تعداد ان اجازت ناموں کے بغیر بھی دیہاڑی لگا لیتی ہو جو اتنے بڑے شہر کے لئے کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ بہرحال چین میں بڑے شہروں‘ اہم صنعتی اور معاشی مراکز پر آبادی کے دبائو پر کنٹرول رکھنے کے لئے مقامی ورک پرمٹ ایک مروج طریقہ ہے تاکہ شہری انتظامیہ بہتر منصوبہ بندی کر سکے۔ وقت کے ساتھ بڑھتے ہوئے پوش علاقوں‘ ڈیزائنر دکانوں اور شاپنگ مالز کے باعث فٹ پاتھوں کی رونق ماند تو پڑ رہی ہے لیکن کسی بھی سیاحتی مقام پر اس طرح کی غیر رسمی ہلچل باہر سے آنے والوں کو تنگ کرنے کے ساتھ اچھی بھی لگتی ہے‘ اور شاید اسی لئے یہاں چیزیں فروخت کرنے والے اپنا دھندا کسی نہ کسی صورت جاری رکھے ہوئے ہیں۔