اگر مجھے روزانہ مقررہ وقت پر کسی مطلوبہ مقام پر پہنچنا ہوتا ہے تو میں شنگھائی کے پبلک ٹرانسپورٹ پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ کرسکتا ہوں‘بس ایک بار زیر زمین میٹرو اسٹیشن تک پہنچنے کی دیر ہے اور یہاں دوڑنے والی چودہ میٹرو ٹرین لائنیں خدمت کے لئے حاضر ہیں۔رش کے اوقات یعنی صبح سات سے نو بجے کے درمیان اور شام پانچ سے سات کے دوران لاکھوں لوگ ان میٹرو ٹرینوں پر سوار ہو کر اپنی منزل تک برق رفتاری سے پہنچ جاتے ہیں۔ اپنی چینی بول چال والی کلاس کے لئے میں ٹھیک آٹھ بج کر پچپن منٹ والی ٹرین کو پکڑتا تھا جو محض گیارہ منٹ میں چار اسٹیشنز کے بعد مجھے نوبج کر چھ منٹ پر مطلوبہ اسٹیشن پر ْاتار دیتی اور یہاں سے آٹھ ‘نومنٹ کے پیدل سفر کے بعد میں بر وقت اپنے کلاس روم میں موجود ہوتا۔ طوفانی بارش ہو یا ہلکی پھلکی برف باری یا گرمی کی کوئی لہر سال کے سارے موسموں میں کوئی ایک دن بھی ایسا نہیں تھا جب مجھے میٹرو ٹرین کے اوقات کار نے دھوکا دیا ہو البتہ وہ لوگ جو گاڑیوں میں سفر کرتے ہیں رش کے دوران سڑکوں پر ٹریفک کی وجہ سے لیٹ ہو جاتے تھے ‘ اسی لئے یہاں یہ بات عام ہے کہ میٹرو ٹرین سے کسی بھی جگہ زیادہ جلدی پہنچا جا سکتا ہے۔ اسی طرح جب رش کے اوقات میں ایک جم غفیر سفر کر رہا ہوتا ہے اور مرد و زن ایک دوسرے سے تقریباًجڑے کھڑے ہوتے ہیں ‘ سب اپنے فونوں میں مگن نظر آتے ہیں اور تنگ سی جگہ میں بھی بڑے اطمینان سے اپنے مطلوبہ اسٹیشن کا انتظار کرتے ہیں۔یہاں اس بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ آبادی کے دبائو اور ہر جگہ رش ہونے کے باعث چینی باشندوں میں جلد بازی بہت عام ہے اور جیسے ہی بیٹھنے کی کوئی جگہ خالی ہوتی ہے کئی لوگ اس کی طرف لپکتے بھی ہیں ‘ لیکن اس کے ساتھ ہی ان ٹرینوں کی ہر بنچ کے کنارے پر ایک مخصوص نشست معذور‘ ضعیف‘ حاملہ عورتوں یا چھوٹے بچوں کے ہمراہ لوگوں کے لئے لازمی ہوتی ہیں۔ باقاعدہ اشاروں والی تصاویر کے ذریعے ان مخصوص سیٹوں پر بیٹھ تو کوئی بھی سکتا ہے لیکن اگر معمر ‘ معذور یا حاملہ عورت آجائے تو وہ نشست خالی کر دی جاتی ہے۔
شہر میں دو ائیر پورٹس ہیں ایک مغربی کنارے پر ہونگ چھیائو ائیر پورٹ کے دو ٹر مینلز جو زیادہ تر ڈومیسٹک فلائٹس کے لئے مخصوص ہیں اور مشرقی کنارے پر پودونگ انٹرنیشنل ائیر پورٹ جو مقامی اور بین الا قوامی پروازوں کا مرکز ہے۔ ان دونوں ائیر پورٹس کو ملانے کے لئے دو عدد میٹرو لائنیں صبح سے رات تک پورے شہر سے گزرتی ہوئی بلا تعطل چلتی رہتی ہیں اور ویک اینڈز پر ان میں بہت رش ہوتا ہے۔ عام رفتا ر والی میٹرو ٹرینوں سے ہٹ کر شہر کے مشرقی حصے کے ایک اسٹیشن سے خصوصی مقناطیسی ٹیکنالوجی والی ٹرین جسے شنگھائی میگلیو (Maglev) کا نام دیا گیا ہے ' پو دونگ ‘ کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ کے لئے چلتی ہے ‘ یہ خصوصی سروس تیس کلو میٹر کا فاصلہ سات منٹ میں طے کر لیتی ہے اور اس کی تیز ترین رفتار چا ر سو تیس کلو میٹر فی گھنٹہ تک جاتی ہے۔یہ سروس اس شہر کی ایک امتیازی خصوصیت ہے جس کی دوسری مثال مشکل سے ہی ملے گی۔اسی طرح یہاں کی بسیں بڑی اور کشادہ ہوتی ہیں اور اپنے مخصوص اسٹاپس پر ہی رکتی ہیں‘ روزانہ کا سفر کرنے والے لوگ عام طور پر میٹرو ٹرین اور بسوں کا ایک کارڈ بنوا لیتے ہیں جس سے مقررہ رقم خود کار نظام کے تحت بس میں داخل ہو تے اوراترتے ہوئے ڈرائیور کے ساتھ نصب مشین پر کارڈ پھیرتے ہی ادا ہو جاتی ہے۔
ڈھائی کروڑ سے زیادہ نفوس کے اس شہر میںکسی بھی میگا سٹی کی طرح سڑکوں پر رش رہتا ہے ۔ ہونگ چھیائو کے دونوں ائیر پورٹ ٹرمنلز اور ہائی اسپیڈ ٹرین کے اسٹیشن تک پہنچنے کے لئے قریباً آٹھ کلو میٹر کی ایک نان اسٹاپ ٹنل بھی بنا دی گئی ہے تاکہ رش کے باوجود گاڑیاں اور ٹیکسیاں برق رفتاری سے اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔ اتنے انتظامات اور تعمیرات کے باوجود بھی ٹریفک مسائل سے مبرا نہیں ہے کہ یہاں لاکھوں سیاح یا کاروباری غیر ملکی بھی تو ہر سال آتے ہیں اس لئے آپ کہیں نہ کہیں کچھ نہ کچھ نیا بنتے یا سنورتے دیکھیں گے۔کبھی کسی اسٹیشن کی برقی سیڑھیاں ٹھیک ہو رہی ہوں گی تو کہیں فٹ پاتھوں کی مرمت اور توسیع جاری ہو گی ‘ یہ سب کام ایک خو دکار نظام کے تحت چلتے رہتے ہیں اور میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کسی اسٹیشن کی لفٹ یا برقی سیڑھی کئی روز تک بند پڑی نظر آئے۔ یہاں برسات کا بھی خوب زور رہتا ہے خصوصاً مارچ سے مئی تک تو ہفتے میں اوسطاً دو تین روز بارش ہوتی ہے‘ باقی بھی سارا سال وقفے وقفے سے بارشیں جاری رہتی ہیں ‘ سڑکوں پر ٹریفک جام یا سست روی کا شکار تو ہوتا ہے لیکن بجلی جانے یا سگنل بند ہونے کا کوئی مشاہدہ نہیں ہوا۔ایک تاریخی شہر کی حیثیت سے یہاں بہت قدیم علاقے بھی ہیں جن کی تعمیرات میں خستگی یا پرانا پن نظر آتا ہے اور ساتھ ہی پھیلتے شہر میں کئی جدید بستیاں بھی تا حد نگاہ پھیلی ہوئی ہیں ‘ علاقے نئے ہوں یا پرانے‘ مڈل کلاس کی آبادی ہو یا لوئر مڈل کلاس طبقے کا محلہ میٹرو ٹرینوں کے ذریعے سب جڑے ہوئے ہیں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی جدید سہولتیں سب کو یکساں نرخوں پر دستیاب ہیں۔
چین کے بائیس شہروں میں زیر زمین میٹرو ٹرین نیٹ ورکس چل رہے ہیں اور مزید دس شہروں میں ان کی تعمیر کا کام تیزی سے جاری ہے۔ شہری ٹرانسپورٹ کی اس انقلابی تبدیلی کا کل عرصہ محض گزشتہ پچیس برس پر مشتمل ہے‘ صرف بیجنگ میں سن ستر کی دہائی میں کچھ ابتدائی کام ہوا تھا ۔ شہروں کے اندرونی میٹرو نظام کے علاوہ پورے ملک میں اس عرصے کے دوران لاکھوں کلومیٹر کے نئے ریلوے
ٹریکس اور تیز رفتار ٹرینوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ ایک نسبتاً چھوٹے شہر جہاں میں دو برس قبل بس کے ذریعے پانچ گھنٹے میں پہنچا تھا اب وہاں نئی ٹرین پر پونے دو گھنٹے میں پہنچ جاتا ہوں اور تعمیر کا یہ سلسلہ تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے۔اتنے برق رفتار کام کے باوجود اتنے وسیع و عریض ملک کو ٹرانسپورٹ کی سہولیات فراہم کرتے رہنا ایک مسلسل عمل کا نام ہے۔ دنیا کے جدید ترین ریلوے اور میٹرو نیٹ ورکس سے ہٹ کر یہاں نئے ائیر پورٹس کی تعداد میں بھی حیرت انگیز اضافہ ہوا ہے اور اکثر چھوٹے شہروں سے بھی ا نٹرنیشنل فلائٹس چل رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں چین کے دو مختلف شہروں کے ائیر پورٹس سے گزر ہوا صرف شن چن شہر کے ہوائی اڈے پر شایدپچاس کے لگ بھگ گیٹس دیکھے اور اپنے مطلوبہ دروازے تک پہنچنے کے لئے اچھا خاصا چلنا پڑ گیا ۔ائیر پورٹ کی وسیع و عریض عمارت اور ڈیزائن اتنا شاندار تھا کہ آنکھیں ْابل پڑیں۔ پروازوں کی تعداد کا حال یہ ہے کہ رن وے پر جہازایک قطار میں اڑنے کے لئے اپنی باری کا دس ‘ دس منٹ انتظار کرتے رہتے ہے۔ایک اندازے کے مطابق چین میں اس وقت دو سو کے قریب ائیر پورٹ ٹر مینلز کام کر رہے ہیں اور مزیدکی توسیع و تعمیر بھی جاری ہے ۔ان ائیر پورٹس میں حیرت انگیز اضافہ بھی گذشتہ دو سے تین دہائیوں کے اکنامک بوم کا نتیجہ ہے ۔نجانے کیوں اسلام آباد کا فتح جنگ میں ایک عرصے سے زیر تعمیر ائیر پورٹ ذہن میں آگیا ہے ‘ جتنا عرصہ اس نئے ائیر پورٹ میں لگ رہا ہے چینی اسلام آباد جتنے پانچ شہر مع ائیر پورٹ کھڑے کر دیتے ‘ برائے مہربانی اس بات کو مبالغہ ہرگز نہ سمجھئے گا۔
ٹرانسپورٹ کے اس حیران کن انفرا اسٹرکچر کی داستان یہیں روکتے ہوئے آخر میں یہی عرض کیا جا سکتا ہے کہ ہم بہت خوش قسمت لوگ ہیں کہ ہمارے پڑوس میں انفراسٹرکچر کا بنا بنایا ماڈل کھڑا ہو چکا ہے اور ہمیں بھی جھنجھوڑ رہا ہے کہ کچھ کر لو‘ کچھ بنا لو ۔ چینی کہاوت کا مفہوم ہے کہ جس جگہ سڑک بن جائے وہ خود ہی ترقی کر جاتی ہے ۔کیا ہم چینی رفتا ر کے ساتھ قدم ملا پارہے ہیں؟ کہیں یہ کچھوے اور خرگوش کی ذرا مختلف سی داستان تو نہیں جہاں خرگوش ریس کے درمیان میں سوتا نہیں ہے۔