گزشتہ ڈیڑھ دو برس کے عرصے پر مشتمل ان کالموں میںبمشکل اوسط درجے کی نثر لکھنے کے بعد یہ اطلاع دیتے ہوئے عجیب سا محسوس ہو رہا ہے کہ چین کے متعلق کچے پکے تاثرات کا یہ سلسلہ میری یہاں سے روانگی کے ساتھ اختتام تک پہنچتا ہے۔ اردو کے سفر ناموں یا یاداشتوں کا سحر مجھ پر صاحب طرز نثر نگار مختار مسعود کی تین کتابوں' آواز دوست‘ ' سفر نصیب‘ اور ' لوح ایام ‘ نے طاری کیا۔ جس نو عمری میں یہ کتب نظر سے گزریں اس وقت شاید میں اس قابل بھی نہ تھا کہ اس اعلیٰ پائے کی نثر کو مکمل سمجھ پاتا لیکن ان کی تحریر میں نجانے کیا تاثیر تھی کہ نامانوس ماحول کے لئے اپنائیت بھرا احساس پیدا ہو جاتا اور بھولی بسری شخصیات اپنی پوری شان کے ساتھ آکھڑی ہوتیں۔چین میں آمداور یہاں گزرے ساڑھے تین برس کسی اہم منصوبہ بندی کا حصہ نہ تھے بس یہ سمجھیں کہ سفر کے شوق‘مزاج کی متلون مزاجی اور گھریلو ترجیحات نے مل کر یہ کام کروا لیا۔ میری خوش قسمتی تھی کہ خاندان ‘معاش اور سیاحتی تجربات سب ایک جگہ جمع ہوگئے اور شاید کالموں کا یہ سلسلہ ایک طرح سے اپنے تجربات اور مشا ہدے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو شریک کرنا تھا‘اسی طرح یہ وقت بھی ساز گار ثابت ہوا جب دنیا کے ہر گوشے بشمول پاکستان سے چین کی صدا بلند ہو رہی ہے۔آج اپنے فلیٹ کی بالکنی میں کھڑا ہو کر جب سامنے پھیلے ہوئے سینکڑوں درختوں کے سائے میں شنگھائی کے چڑیا گھر میں آنے والے ہزار ہا لوگوں کو دیکھتا ہوں تو اس منظر میںبڑی اپنائیت محسوس ہوتی ہے۔ اپنے گھر سے چڑیا گھر کی قربت کا ذکر میں نے جان بوجھ کر کسی حد تک مخفی رکھا تھا کہ کچھ یار لوگوں نے میری رہائش کا اس جگہ سے نزدیکی پر بڑا مزا لینا تھا لیکن اب اس اختتامی کالم میں ان کو شرارتی کلمات کی اجازت دے ہی دیتا ہوں ۔ اس بالکنی سے میں نے موسموں کے سارے رنگ بدلتے دیکھے ہیں‘گرمیاں شروع ہونے پر دھوپ کھاتے ہاتھیوں کو بھی دیکھا اور قریب ہی اچھلتے ہوئے کنگروز بھی اکثر درختوں کی اوٹ سے نظر آجاتے اور یوں بغیر ٹکٹ چڑیا گھر کی سیر ہوتی رہی۔ہم نے یہاں ہر تعطیل کی رونق اور لوگوں کا مزاج ‘ایک عدد بچے کے پیچھے دوڑتے ماں باپ اور دادا ‘دادیوں اور نانا ‘نانیوں کا پہلا نظارہ بھی یہیں دیکھا۔
بات ہاتھی کی چھڑی ہے تو چین کے بارے میں میری تحریریں بھی ان نابینائوں کے مشاہدے کی ہی طرح تھیں جو اس کے مختلف حصے ٹٹول کر اپنی تئیں اس کی جسامت اور ہیئت کا اندازہ لگا رہے تھے۔ بس یہ سمجھیں میں نے بھی ہاتھی کے ایک پیر یا سونڈ کو محسوس کر کے اس ملک کی منظر کشی کرنے کی کوشش کی۔اتنے بڑے ملک کے مشرقی‘شمالی اور جنوبی حصوں کے درجن بھر سے زیادہ شہر اور چند قصبے تو دیکھے لیکن وسطی اور مغربی چین دیکھنے کی آرزو پوری نہ ہوسکی۔ایک معقول عرصہ تو زبان کی اجنبیت کی ہی نظر ہوگیا لیکن جیسے جیسے چینی میں کچھ غوں غاں سیکھی معاملات بہتر ہوتے گئے۔یہاں رہنے کے دوران جن حیرت انگیز تبدیلیوں کا مشاہدہ ہوا وہ عمر و عیار کی زنبیل سے کم نہ تھا۔ کوئی قوم غربت‘پسماندگی اور بے تحاشہ آبادی کی اتھاہ گہرائیوں سے اتنی مختصر مدت میں پیچھا چھڑا پائے گی اس کے لئے معجزے سے کم تر کوئی لفظ نہیں کہا جا سکتا۔ آج بھی غربت سے ان کی جنگ مکمل ختم نہیں ہوئی ہے۔ ایک ارب پینتیس کروڑ نفوس کو سنبھالنا اور ان کے لئے آئیڈیل حالات کی منزل ابھی بھی دور سہی لیکن جتنا فاصلہ طے ہو چکا ہے وہ انسانی تاریخ کی ایک انوکھی مثال ہے۔ آج شاید پاکستان کے لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ اتنی ترقی اور معاشی خوشحالی کے باوجود اس قوم کی اکثریت ابھی تک پرتعیش زندگی کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔ ان کی آسودگی آج بھی ان کی روزانہ کی جدوجہدسے بندھی ہوئی ہے ‘مرد وزن ہر نکلتے سورج کے ساتھ اپنی تقدیر کو خود سے بدلنے کے لئے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ کثرت آبادی نے ہر سہولت اور تفریح کو مشقت کے ساتھ جوڑ رکھا ہے‘کھرب پتی امرا ہوں یا ریڑھی چلانے والا محنت کش‘کروڑوں مڈل کلاس پروفیشنلز ہوں یا ہر سال لاکھوں کی تعداد میں یونیورسٹیوں سے فارغ ہوتے طلباء کی نئی نسل سب ایک انتہائی مسابقت والے ماحول میں جیتے ہیں۔ اسی گہما گہمی اور افراتفری میں راحت کا سامان بھی یہ لوگ خود ہی ڈھونڈ لیتے ہے ‘گزشتہ دنوں بچوں کے ایک بڑے ہسپتال کی انتظار گاہ میں جہاں گھنٹوں کے انتظار کے بعد ہمارا نمبر آنا تھا اور کھوے سے کھوا چھلتا تھا ‘ایک چھوٹی سی بچی کے ساتھ آئے اس کے دادا نے اپنی سکیچ بک نکالی اور پاس بیٹھے لوگوں کے پینسل اسکیچز بنانے شروع کر دئیے ‘ایک گھنٹے میں مسٹر 'ہو‘ نامی ان صاحب نے میری اور میرے بیٹے سمیت کئی لوگوں کی سائڈ پروفائل والے اسکیچز بڑی درستگی کے ساتھ بنا ڈالے۔ اتنے رش میں اس نوعیت کی سرگرمی نے تمام پریشانی کے باوجود میرے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی اور میں نے ان اسکیچز کی تصاویراپنے فون پر محفوظ کرلی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہاں رہنے کے باعث مول تول کی عادت نے مجھے اکسایا کہ شاید میں ان کو خرید سکتا ہوں لیکن مسٹر' ہو ‘نے نرمی سے منع کردیا اور اتنے عرصے میں شاید یہ پہلی بار ہوا کہ میں زیادہ قیمت دینے پر راضی ہونے کے باوجودبھی کسی چینی باشندے سے کچھ نہ خرید پایا۔
اگر یہاں رہنے کے تجربات کا کوئی ایک خلاصہ پیش کروں تو شاید یہی ہوگا کہ یہ قوم اپنی بقاء کے طریقوں سے خوب واقف ہے اور ہر طرح کے جھمیلے میں بھی خوشی اور تفریح کا سامان نکال لیتی ہے۔ غیر ملکیوں سے ان کے راہ و رسم کو زیادہ عرصہ نہیں بیتا اس لئے ابھی تک جھجھک کا شکار رہتے ہیں لیکن آپس میں مزا اور ہلا گلا کرنے میں پکے دیسی ہیں۔ بچوں کی دیکھ بھال ہو یا کہیں بھی بیٹھ کر کھانا پینا ہو کسی تکلف میں نہیں پڑتے کہ دوسرے کیا سوچیں گے۔اکثر غیر ملکی حتی کہ بیرون ملک رہنے والے چینی بھی مقامی لوگوں سے ان کی بے تکلفانہ عادتوں سے نالاں نظر آتے ہیں مگر سچ پوچھیں تو مجھے چینیوں کی اس دقتیں پیدا کرتی 'اوریجنیلٹی ‘سے بھی ایک انسیت سی ہو گئی ہے جیسے ایک دیہاتی کھلے ڈلے بے تکلف انداز میں پیش آتا ہو۔نئی خوشحالی میں سب کچھ ہی اچھا نہیں ہے بلکہ پیسے کی ریل پیل نے بعض نودولتیوں میںتھڑدلا پن بھی پیدا کیا ہے لیکن اب بھی یہ ایک اقلیت ہی ہے۔ مغرب کے زیر اثر انٹرنیشنل میڈیا نے مجموعی طور پر یہاں کی جو تصویر کشی کی ہے وہ بالکل ایسی ہی ہے جیسے اپنی بہو سے نالاں کوئی ساس ملنے والوں کو اس کی خامیاں ہی چن چن کر بتاتی ہو اورمثبت باتیں چالاکی سے ایڈٹ کر ڈالتی ہو۔چین بحیثیت ریاست یا معاشرہ خرابیوں سے مبراء نہیں اور یہاں بھی ہر طرح کے جرائم اور مسائل پائے جاتے ہیں ‘ان تمام مسائل کے باوجود جس رفتار سے یہاں چیزیں بہتری کی طرف رواں ہیں اور ریاستی اداروں کی مضبوط رٹ نظر آتی ہے وہ کوئی افسانہ نہیں آنکھوں دیکھی باتیں ہیں ۔
ساڑھے تین برس کے قیام میں صرف چین اور اس کے باشندے ہی نہیں بلکہ یہاں آئی بیرونی دنیا سے بھی ایک نیا تعارف ہوا۔ دنیا کے ہر ملک کا باشندہ خصوصاً طلباء یہاں پر نظر آئے ‘اکثر سے گپ شپ رہی اور ان کے دلچسپ تجربات اور یہاں کے متعلق تجزیے بھی سنے۔اتنے غیرملکیوں کی آمد نے بھی چینی معاشرے پر متنوع اثرات مرتب کئے ہیں۔ رنگ برنگے اور مختلف نقوش کے لوگوں سے متعلق ان کا تجسس کافی لطف دیتا رہا ‘بڑی آنکھوں‘ستواں ناک اور سنہرے بالوں کے لئے مقامی باشندوں میں بڑی کشش ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ اس اجنبیت میں کمی آرہی ہے اور آئندہ دس بارہ برس میں بحیثیت غیر ملکی یہاں رہنے کا وی آئی پی احساس شاید ختم ہو تا نظر آئے ۔ میرا وقت زیادہ تر شنگھائی میں گزرا جہاں کے لوگ تواپنی نظر میں خود بڑی توپ چیز ہوتے ہیںلیکن چھوٹے شہروں اور قصبوں میں ابھی تک آپ کا غیر ملکی ہونا توجہ کھینچ لیتا ہے۔ یاداشتوں اور مشا ہدات کا یہ سلسلہ تو ختم ہوا لیکن عظیم تہذیبی ورثے کی مالک اور اقتصادی معجزے برپا کرنے والی اس قوم کی داستان نے جاری وسا ری رہنا ہے ‘کھلی آنکھیں رکھنے والوں کے لئے اس میںسیکھنے کا بھی بڑا سامان ہے۔