اورنج ٹرین منصوبہ کی تکمیل تک سرکار نے مرنے پر پابندی عائد کر دی ہے ‘یہ کسی دل جلے کا فقرہ نہیں‘ اخبار میں خبر ہے کہ حکومت نے شہر خموشاں کے لیے فنڈ جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ شہر خموشاں کا مطلب قبرستان ہے اور قبرستان کے لیے فنڈ روکنے کا مطلب سادہ سی زبان میں یہی سمجھ آتا ہے کہ اگر آپ کو مرنے کے بعد بھی دو گز زمین چاہیے تو وہ اب نہیں ملے گی کیونکہ حکومت کو پتہ چلا ہے کہ شہر خموشاں کی آڑ میں فنڈ ریلیز ہونے جا رہے تھے‘ ان کو فوری طور پر روک دیا گیا ہے کیونکہ ان فنڈز کو اورنج ٹرین منصوبہ میں خرچ ہونا ہے اور عوام کو مرنے کی جلدی ہے ‘اتنی بھی کیا جلدی، اورنج ٹرین منصوبہ مکمل ہو لینے دیں پھرمر جائیے گا۔
حکومت کا موقف ہے کہ عوام مرنے کی آڑ میں حکومت سے خواہ مخواہ روپے کو فضول کاموں میں خرچ کروانا چاہتے ہیں ۔یاد رہے یہ وہ سرمایہ ہے جو حکومت نے آپ سے ٹیکس لگا کر وصول کیا ہے۔ اپوزیشن نے سازش کر کے اس سرمایہ کو شہر خموشاں میں خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ اپوزیشن والے چاہتے ہیں کہ سارے عوام جلد مر جائیں اور اس طرح بغیر ووٹ دیے مر گئے تو 2018ء میں ہماری حکومت کیسے بنے گی۔ یہ سب کچھ حکومت کو بروقت معلوم ہو گیا‘ اس نے شہر خموشاں کے لیے فنڈ جاری کرنے پر پابندی عائد کر دی اورنج ٹرین منصوبہ کی راہ میں رکاوٹ پیدا کرنے کا یہ نیا شوشہ جلد ہی بھانپ لیا اور اس رکاوٹ کو راستے سے ہٹانے کی تیاری بھی کر لی گئی ہے کیونکہ آپ کو معلوم ہے کہ ہماری حکومت بڑی سمارٹ ہے اور ہر سازش کو مکمل ہونے سے پہلے ہی پکڑ لیتی ہے۔ اب جب شہر خموشاں یعنی قبرستان نہیں ہو گا تو آپ مر کر کدھرجائیں گے۔ غالبؔ نے اس حکومت کے بارے میں پہلے ہی شعر کہہ دیا تھا ؎
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
غالبؔ نے مرنے سے پہلے ہی اس حکومت پر تنقید شروع کر دی تھی۔ کہیں غالب اپوزیشن سے تو نہیں مل گیا تھا‘ اگر کہیں زندہ ہوتا تو پیمرا کا نوٹس اب تک مل گیا ہوتا۔ یہ عوام بھی بھیڑ بکریاں ہیں ‘عقل کی بات اب تو ان کے پلے ہی نہیں پڑتی‘ جب بھی سمارٹ حکومت کوئی ترقیاتی منصوبہ شروع کرتی ہے راستے میں رکاوٹیں ڈالنا شروع ہو جاتی ہے۔
اورنج ٹرین منصوبہ کے روٹ پر جن لوگوں کے گھر آ رہے تھے ان کے تمام گھروں کو توڑ دیا گیا ہے۔ آثارِ قدیمہ کے قوانین کے تحت پرانی یادگاروں حتیٰ کہ 200گز کے اندر کوئی نئی تعمیر کرنے سے لاہور ہائی کورٹ نے حکومت کو روک دیا ہے۔ انصاف ہو گیا۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے‘ انصاف ایسے ہو کہ ہوتا ہوا نظر آئے۔ نظر آ گیا۔ نظر اگر نہیں آیا تو اپنی آنکھوں کا علاج کرائیں ورنہ توہین عدالت کا نوٹس وصول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔
اورنج لائن ٹرین منصوبہ کے روٹ پر جن لوگوں کے گھر آئے ان کو توڑنے کے بعد ہر فیملی کو دس لاکھ روپے فی گھر دے دیا گیا ہے۔ ایسا کس قانون میں لکھا ہے کہ آپ کسی کا بھی گھر توڑ دیں اور اس کو اس گھر کے عوض دس لاکھ روپے دے دیں ۔کیا آپ کو یہ سودا منظور ہے یا آپ بھی اپوزیشن کے ساتھ مل گئے ہیں؟ جن کو ایک گھر کے عوض دس لاکھ روپے ملا ہے وہ سوچ رہے ہیں کہ ان کے گھر بھی تو پرانی تعمیرات میں آتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وہ تمام گھر ہیں جو پرانی تعمیرات ہیں یعنی پاکستان بننے سے پہلے کے ہیں جن کو عرف عام میں ہندوئوں کے بنے ہوئے گھر کہا جاتا ہے۔ کیا ان پر وہ قوانین لاگو نہیں ہوتے جن قوانین کی وجہ سے لاہور ہائیکورٹ نے حکومت کو یادگاروںکو نقصان پہنچانے سے روک دیا ہے۔ شاید نہیں ہوتا کیونکہ پرانی یادگاروں میں کوئی زندہ انسان نہیں رہتا اور جو گھر توڑے گئے ان میں عام انسان رہتا ہے‘ اس لیے ان کو توڑ دیا گیا ہے۔ چلو ہندوئوں کے بنے ہوئے گھر تھے، اچھا ہوا مسلمانوں نے توڑدیے، ثواب تو ہو گا۔ جن پرانی تعمیرات ‘یادگاروں کو توڑنے سے روکنے کا حکم آیا ہے‘ وہ بادشاہوں کی رہائش گاہیں ‘بادشاہوں کے گھومنے کے باغات یا ان کی کسی محبوبہ کے عشق میں بنائی گئی یادگار تھی جبکہ توڑے جانے والے مکانات میں پہلے بھی غریب عوام رہائش پذیر تھے اور آج بھی غریب ہی رہائش پذیر ہیں۔ بادشاہوں کے محل تو ان کے مرنے کے بعد بھی نہیں توڑے جا سکتے کیونکہ ایسا قانون ہے جبکہ غریب جہاں پر رہائش پذیر ہے‘ اس کو بآسانی توڑا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں پر غریب زندہ رہتا ہے‘ ایسا بھی قانون کہتا ہے ۔ یہ قانون ایسا کیوں کہتا ہے کہ بادشاہوں کے مرنے کے بعد بھی ان کے محلات نہیں توڑے جا سکتے۔ یہ قانون بنانے والے کون ہیں ۔ یہ قانون پہلے بادشاہ لکھا کرتے تھے اور آج کل بھی یہی لکھ رہے ہیں‘ اسی لیے تو بادشاہوں کے محلوں کو ان کی زندگی کے بعد بھی محفوظ رکھنے کا حکم ہے جبکہ زندہ مگر غریب انسانوں کے گھر توڑنے میں کوئی قانون حائل نہیں۔ ان کے گھروں کو توڑا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں پر وہ اور ان کے ماں باپ اوربچے زندہ رہتے ہیں ۔یہ ان کے رہنے کی جگہ نہیں اورنج لائن کے گزرنے کی جگہ ہے۔ اورنج لائن پر بیٹھ کر سفر کرنے والے اوپر سے جب نیچے دیکھیں تو ان کو پرانے اور بوسیدہ گھروں کے اندر روتے بچے اور کھانستے ہوئے بوڑھے نظر نہ آئیں بلکہ بادشاہوں کے محل نظر آئیں ۔بادشاہوں کی محبوبہ کی یاد میں بنے محل کی بالکونی سے وہ چاند نظر آئے جو یہاں سے اور بھی مسحور کن دکھائی دیتا ہے۔ جن غریب انسانوں کے گھر ٹوٹے ہیں‘ وہ سوچ رہے ہیں کہ اس مہنگائی کے دور میں وہ دس لاکھ کے عوض لاہور میں گھر کیسے خریدیں گے۔ چلو دن تو سارا کٹ جائے گا اورنج لائن ٹرین میں جھولے لیتے‘ رات کو کدھر جائیں گے ع
دن کٹ جائے ہائے رات نہ جائے
ان میں سے کچھ لوگ سوچ رہے تھے کہ اگر دس لاکھ میں نیا گھر نہ ملا تو مر جائیں گے لیکن بھلا ہو حکومت کا کہ اس کو بروقت اس سازش کا علم ہو گیا اور اس نے مرنے کی آڑ میں حکومت سے روپے اینٹھنے کی جو سازش کی جا رہی تھی اس پر حکومت نے بروقت پابندی لگا دی ہے ۔ لیکن کیا حکومت کے پابندی لگانے سے عام انسان مرنا چھوڑ دیں گے؟