گزشتہ دورِ حکومت میں میاں صاحب کی منظورِ نظر فہرست میں چند بیوروکریٹس، اور انتہائی قریبی لوگ تھے۔ اس چنائو کا خاصا یہ تھا کہ میاں صاحب کا تمام تر انحصار گنتی کے ان چند افراد پر تھا۔ اسحاق ڈار ویسے تو ملک کے وزیر خزانہ تھے‘ مگر پانی و بجلی کی وزارت سے لے کر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سمیت سبھی وزارتوں میں فیصلہ سازی ان کے ہاتھ میں تھی۔ رہے سہے معاملات فواد حسن فواد سنبھالتے تھے۔ باقی تمام وزرا کا حال کچھ یوں تھا کہ جماعت کے جنرل سیکرٹری اقبال ظفر جھگڑا کو ایک سال تک وزیر اعظم نواز شریف سے ملاقات کے لیے جتن کرنا پڑے۔ روایت یہ تھی کہ وزیر اعظم ہاؤس پر قابض ڈسٹرکٹ مینجمنٹ گروپ کے مٹھی بھر بیوروکریٹ وزیر اعظم تک پیغام ہی نہیں پہنچاتے تھے‘ بلکہ بیوروکریٹس کے ذریعے وزرا کو حکم جاری ہوا کہ جب وزیر اعظم اسمبلی اجلاس میں تشریف لائیں تو کوئی رکن اسمبلی بغیر اجازت اپنی کرسی سے اٹھ کر وزیر اعظم کے پاس نہ آئے۔ وزرا افسر شاہی کی ملوکیت، چند وزرا کی بادشاہت اور ظلِ الٰہی کی انانیت سے نالاں تو تھے... مگر نوبت یہاں تک نہیں آئی تھی کہ حکومتی نظام درہم برہم ہو۔ نومنتخب حکومت جن سرخاب کے پروں پر نازاں تھی‘ اب اس کا خاصہ یہ ہے کہ حکومت کے شب و روز کا سکیجوئل یا تو بابو طے کرتے ہیں یا پھر ترین، دائود اور شیخ کی چلتی ہے۔ مگر یہ من و عن سلسلہ اس بھونڈے طریقے سے چلایا گیا ہے کہ چند ماہ میں پنجاب کے وہ آئی جیز تبدیل ہو گئے‘ جن کی قابلیت کے ڈھول دھوم دھڑکے سے پیٹے گئے۔ پھر ان وزرا کو‘ جن کی وفاداری اور قابلیت پر انحصار کر کے انہیں عشروں سے بگڑی ملک کی معیشت سونپی گئی‘ خود ان کے سنبھلنے سے پہلے ہی عہدوں سے ہٹا دیا گیا۔ موجودہ قیادت نے آتے ہی جن افراد کا چنائو کیا تھا، وہ اب تک گھر جا چکے ہیں۔ ملک کی ابتر معاشی حالت کو سدھارنے کے لیے دنیا سے بہترین ماہرین کو جمع کرنے کے اعلان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ماہرِ معاشیات عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کمیٹی کا رکن مقرر کیا گیا۔ اپنی تقرری کے چند دن بعد وہ اپنے عہدے سے گئے۔ آئی جی پنجاب طاہر خان کی تقرری کے کچھ عرصے بعد تبدیلی، وزیر اعظم کی جانب سے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کے تبادلے کے زبانی احکامات، مالیاتی امور، پٹرولیم، صحت، انفارمیشن کے وزرا تبدیل، اور اب ہارون شریف کی بھی چھٹی۔ جہانگیر ترین نے جواز بھی پیش کر دیا کہ ان تبدیلیوں کی وجہ کچھ اور نہیں نا اہلی اور ناقص کارکردگی تھی۔ اب اطلاعات ہیں کہ ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کے معاملے پر دو مشیر آمنے سامنے ہیں۔ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ اور مشیر تجارت عبدالرزاق دائود میں برآمدی شعبوں پر اختلافات ہیں۔ اللہ ملک کی معیشت اور معاشی ٹیم پر اپنا رحم فرمائے۔
کیا یہ محض اتفاق ہے کہ کچھ افراد وزیر اعظم عمران خان کو قائل کرنے میں کامیاب رہے کہ ان وزرا اور چیئرمین، جن کی صلاحیتوں کے پہلے خوب گن گائے گئے تھے، کی کارکردگی مایوس کن ہے؟ پہلے اسد عمر، اور اب ہارون شریف۔ وہی کہانی، وہی انجام۔ استعفیٰ دینے سے ایک ہفتہ قبل بے چین دکھائی دینے والے ہارون شریف نے وزیر اعظم کے سامنے دو آپشنز رکھے تھے۔ وزیر اعظم ہر پندرہ دن بعد ایف ڈی آئی (فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ) کی میٹنگ کی صدارت کیا کریں۔ اس میٹنگ میں متعلقہ سٹیک ہولڈرز شریک ہوں۔ لیکن وہ ایسا نہیں کر سکے تھے۔ وزیر اعظم نے شاید اُنہیں با اختیار ہی نہیں بنایا تھا، اور نہ ہی دوسروں کو اس بابت واضح ہدایات دی گئی تھیں۔ اگرچہ عمران خان براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری پر اہم میٹنگ بلانے پر رضامند دکھائی دیتے تھے، لیکن افسر شاہی کا قواعد و ضوابط کی آڑ میں کام نہ کرنے کا وتیرہ، نظام کی رکاوٹیں اور فیصلہ سازی میں سستی کا نتیجہ اس رضا مندی کے بالکل برعکس نکلا۔
چند ماہ پہلے عبدالرزاق دائود سے ایف ڈی آئی کی نگرانی کرنے کی درخواست کی گئی۔ وہ پہلے ہی صنعت، کامرس اور ٹیکسٹائل کو دیکھ رہے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ گزشتہ پانچ ماہ سے ہارون کے پاس رپورٹنگ کے لیے دو لائنز تھیں:دائود اور وزیر اعظم خود۔ طریق کار کو آسان اور فعال بنانے کی بجائے اس فیصلے کے نتیجے میں نظام مزید خرابیوں کا شکار ہو گیا۔ نواز شریف دور میں اس شعبے میں افراتفری کا عالم پہلے سے ہی موجود تھا۔ ہارون شریف سعودی عرب، قطر، چین اور یو اے ای کی حکومتوں سے رابطے کر رہے تھے۔ اُنہیں ون ونڈو آپریشن، رابطے کے لیے ایک مرکزی دفتر، اور فوری اور شفاف عمل کی توقع تھی۔ لیکن جیسا کہ محاورہ ہے، دو ملائوں میں مرغی حرام، ون ونڈو آپریشن، جس کی غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ضرورت ہوتی ہے، کو غیر فعال کر دیا گیا۔ دوسرے مرحلے پر چیئرمین بورڈ آف انویسٹمنٹ کی بلائی گئی دو اہم میٹنگز کو منسوخ کر دیا گیا۔ گزشتہ تیس ماہ کے دوران پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا کہ چیف ایگزیکٹو نے ایف ڈی آئی کی میٹنگ کی صدارت، اور عالمی بینک کے صدر سے کال میٹنگ کرنا تھی۔ یہ دونوں میٹنگز منسوخ ہو گئیں۔ عالمی بینک کے صدر کے ساتھ کال میٹنگ فنانس منسٹر کا کام تھا؛ چنانچہ یہ میٹنگ غالباً حفیظ شیخ نے منسوخ کی ہو گی۔ بورڈ کی میٹنگ رزاق دائود کی ذمہ داری تھی۔
ان دونوں میٹنگز کے منسوخ ہونے کے ساتھ ہی ہارون شریف کو احساس ہو گیا کہ اُن کے دن گنے جا چکے ہیں۔ چونکہ ذاتی انا اور من مانی سے چلنے والے اس نظام میں تحفظ یا معاونت کی کوئی گنجائش نہیں، اس لیے خود کو تنہا پاتے ہوئے چیئرمین سرمایہ کاری بورڈ نے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے اپنے استعفے میں ان چیدہ چیدہ پانچ اہداف کا ذکر کیا جن کے حصول کے لیے وہ ان تھک محنت ادھوری چھوڑ کہ مستعفی ہوئے ہیں۔ نمبر ایک‘ پاکستان ایز آف ڈوئنگ بزنس میں خاطر خواہ بہتری لائے گا۔ معاشی اعتبار سے پاکستان کی رینکنگ ایک سو چھتیسویں ملک سے‘ پہلے سو ممالک میں آ جائے گی۔ نمبر دو‘ بورڈ آف انویسٹمنٹ نے سعودی عرب‘ قطر‘ ملائیشیا، یو اے ای سے تیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے فائنل کر لیے ہیں۔ نمبر تین‘ سپیشل اکنامک زون قائم کیا جا چکا ہے۔ نمبر چار‘ دنیا کے بہترین سرمایہ دار‘ سیاحت اور ہائوسنگ پروجیکٹس میں انویسٹ کرنے کے لیے پاکستان کے دورے کر چکے ہیں۔ نمبر پانچ‘ بورڈ آف انویسٹمنٹ مکمل طور پر ری سٹرکچرڈ ہو چکا ہے... مگر اس عہد... اور اہداف کا مستقبل کیا ہو گا‘ کوئی نہیں جانتا۔ پاکستان کے نہ حالات قابل بھروسہ ہیں، نہ یہاں سیاسی اور معاشی تحفظ ہے، اور نہ ہی لین دین میں شفافیت ہے۔ صرف چند ایک اشاریے ان کے حق میں ہیں، جیسا کہ سستی افرادی قوت اور وہ مارکیٹ جس سے تا حال استفادہ نہیں کیا جا سکا۔ اس طرح کے مشکل حالات میں عہدے کی مدت کا تحفظ ضروری ہے۔ شریف جا چکے ہیں، اور اسی طرح پاکستان میں کاروبار کرنے کی سہولت کے غیر معمولی وعدے بھی۔
سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا بیس بلین ڈالر سرمایہ کاری کا منصوبہ، قطر کی پاکستان کے ایئرپورٹس میں سرمایہ کاری کی خواہش، سپیشل اکنامک زون کی بحالی کے منصوبے، اور اس کے لیے قانون میں اہم ترامیم۔ ان سب کو عملی شکل دی جانی ہے، قبل اس کے کہ بہت دیر ہو جائے‘ ان سرمایہ کاروں کو فوری طور پر یقین دہانی کرانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت حکومت کے پہلے دس ماہ میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 52 فیصد تک کم ہو چکی ہے۔ نائو کے اندرونی حصے میں اگر چھید ہو جائے تو ناخدا کتنا ہی لہروں سے لڑنے کا فن جانتا ہو‘ اسے ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں۔ کسی گروہ، کسی جماعت‘ کسی تنظیم کے بیچ اندرونی چپقلش، بد اعتمادی‘ انانیت وہ شگاف ہیں... جو ملاح سے ساحل تک پہنچنے کا خواب چھین لیتے ہیں۔ مسٹر پرائم منسٹر... ہمیں یہ نائو پار لگانی ہے۔