ڈاکٹر طاہر القادری انقلاب کے دعویدار ہیں، جسے وہ احتجاجی تحریک کی شکل میں منظم کر کے برپا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنے انقلاب کے تصور کی وضاحت 11مئی 2014ء کو اپنی تقریر میں کی۔ ان کے تصور کے تین نکات خصوصی توجہ کے مستحق ہیں۔ پہلے نکتے میں انہوں نے سماجی انصاف کا پروگرام پیش کیا۔ یہ پروگرام ان کا اپنا نہ تھا۔ بلکہ 1973ء کے آئین میں درج متعدد فلاحی اہداف کا اعادہ تھا۔ مثلاً تعلیم، علاج اور روزگار کا بندوبست وغیرہ۔ اس طرح انہوں نے 1973ء کے آئین میں درج سماجی انصاف کے تصور کو قبول کیا اور حکمران طبقات پر الزام عائد کیا کہ انہوں نے اس پر عملدرآمد نہیں کیا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے خیال میں سماجی انصاف آسان کام تھا۔ سماجی تبدیلی کو آسان سمجھنے والے لوگ عموماً اس معاملے کو قانون کے نفاذ کا معاملہ سمجھتے ہیں۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت قانون بنا کر یا عدلیہ فیصلہ صادر کر کے سماجی انصاف کے آئینی تصور کو رائج کر سکتی ہے؟ ہرگز نہیں!
معاشی انصاف محض قانونی مسئلہ نہیں ہوتا۔ جدید دور میں یہ معاملہ پیچ دار ہے۔ متعدد عناصر تبدیلی کے عمل میں کردار ادا
کرتے ہیں۔ معاشی انصاف کے قیام میں بڑا کردار معاشی نظام کا ہوتا ہے۔ اس نظام کی ساخت کیا ہو، معاشی انصاف کے خطوط کیا ہوں، ان معاملات کے پیچھے گہری علمی اور منظم تحریک ہوتی ہے۔ علامہ صاحب نے اپنی تقریر میں معاشی انصاف کی بات تو کی ہے، مگر معاشی نظام کی ساخت، اس کے علمی اور عملی پہلوئوں کا ذکر نہیں کیا۔ معاشی انصاف کا نظام یورپ اور ترقی یافتہ صنعتی ممالک نے گزشتہ صدی کے وسط میں شروع کیا۔ تب وہاں رائج معاشی نظام ترقی یافتہ صنعتکاری کا تھا۔ معاشی انصاف کی کئی اشکال تھیں۔ پاپولر شکل یہ تھی کہ دولت مند افراد پر ٹیکس عاید کر کے قومی خزانے میں اضافہ کیا گیا اور بجٹ اقدامات کے ذریعے سماجی شعبوں مثلاً تعلیم، علاج اور بے روزگاری الائونس وغیرہ کے بندوبست کے لیے ادارہ سازی کی گئی۔
1980ء کی دہائی میں سرمایہ دارانہ (صنعتی) نظام کی ساخت میں بڑی تبدیلی کا عمل جاری ہوا۔ اوریجنل سرمایہ دارانہ
نظام میں معاشی غلبہ صنعتی شعبے کو حاصل تھا، مگر 1980ء کے بعد وجود میں آنے والے نظام میں معاشی غلبہ صنعتکاری کی بجائے فنانس کیپیٹل کو حاصل ہو گیا۔ صنعتی شعبہ موجود رہا لیکن مجموعی معاشی نظام میں اس کی اہمیت ثانوی ہو گئی۔
صنعتی دور کے بعد رائج ہونے والے سرمایہ دارانہ نظام میں فنانس کیپیٹل کے مالک طبقات کو معاشی، سماجی اور سیاسی بالادستی حاصل ہو گئی۔ ریسرچ اور تعلیمی و سماجی علوم کے اداروں پر بھی غلبہ فنانس کیپیٹل کا قائم ہو گیا۔ اس نئے سرمایہ دارانہ نظام میں دولت کا حصہ جو متوسط اور نچلے طبقے کے پاس موجود تھا وہ فنانس کیپیٹل کے مالک طبقے کے ہاتھ میں منتقل ہونے لگا۔ معاشرے میں عدم مساوات پروان چڑھا اور دولت کا ارتکاز سنگین تر ہو گیا۔ عدم مساوات اور بڑھتے ہوئے ارتکاز نے نئے سرمایہ دارانہ نظام میں بحرانی صورت پیدا کر دی۔ چنانچہ ایسے سرمایہ دار ملک جنہوں نے صنعتی غلبے کے دور میں سماجی انصاف کا نظام رائج کیا تھا، مالی مشکلات سے دوچار ہو گئے۔ چنانچہ آج سماجی انصاف کی حدود سکڑتی جا رہی ہیں اور دولت کی طبقاتی اور علاقائی تقسیم شدید عدم مساوات کا شکار ہوتی جا رہی ہے۔
بحث کا ماحصل یہ ہے کہ جن خوشحال ملکوں میں سماجی انصاف رائج تھا، وہ بھی بحران سے دوچار ہو چکے ہیں۔ علامہ طاہرالقادری صاحب کے پاس وہ کون سا فارمولا ہے کہ وہ پاکستان میں سماجی انصاف کا نظام رائج کرنے کے دعوے دار ہیں۔ یہ فارمولا انہوں نے بیان نہیں کیا۔ اب کوئی معیشت سماجی انصاف کو رائج نہ کر سکے گی۔ جب تک کہ وہ معاشی نظام کا ایسا خاکہ تیار نہ کر لے جو بحران سے نسبتاً پاک ہو۔
خیال رہے سماجی انصاف صرف ترقی یافتہ ملک رائج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ترقی پذیر ملک جو ترقی کی اونچی منزل حاصل نہ کر لیں وہ اس صلاحیت کے مالک نہیں کہ کسی نوع کے موثر سماجی انصاف کا نظام رائج کر سکیں۔ ہمارے معاشرے میں مؤثر کنٹرول فیوڈل، ناجائز دولت کے مالکوں اور اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ یہ طبقات ٹیکس گریزی اور کرپشن کلچر کو رواج دیتے ہیں۔ ہماری قومی معیشت پیداوار اور مالی وسائل کے اعتبار سے پسماندہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ حکمران طبقے اور قومی معیشت کی ساخت میں کس نوع کی تبدیلی پیدا ہو اور کیسے پیدا ہو کہ معیشت میں صلاحیت اُبھرے کہ قومی پیداوار اور قومی خزانے میں بڑھوتری ہو اور ریاست اس قابل ہو کہ سماجی انصاف کے لیے قابلِ ذکر اقدام کرے۔ علامہ صاحب اس معاملے میں اپنا تصور واضح کریں۔
علامہ صاحب نے دوسرے نکتے میں انتظامی اور سیاسی معاملات میں ریڈیکل تجاویز پیش کیں۔ مثلاً یہ کہ وہ چالیس صوبے قائم کریں گے اور ریاست کے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کریں گے۔ مگر یہ ہوگا کیسے؟ اس معاملے کو انہوں نے تیسرے نکتے میں بیان کیا ہے۔ اس کا نسخہ ہے کہ آئینی تبدیلی کا کام وہ ایک حکم جاری کر کے مکمل کر دیں گے۔ کیا وہ پاکستان میں عوامی نمائندگی کی بجائے اپنی شخصی بالادستی کا نظام قائم کرنا چاہتے ہیں؟ علامہ صاحب اس نکتے کی بھی وضاحت فرما دیں۔