کوئی بھی قوم اور ملک اُس وقت تک ترقی نہیں کر سکتے جب تک وہ تعلیم یافتہ نہ ہوں۔ سرسید احمد خاں نے‘ جو ہمارے محسن ہیں‘ یہ محسوس کر لیا تھا کہ مسلمان مرد اور عورتیں جب تک تعلیم یافتہ نہیں ہوں گے‘ ترقی نہیں کر سکیں گے۔ اس لیے اُنہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ قیامِ پاکستان کی تحریک میں قائداعظمؒ نے فرمایا تھا کہ ''پچاس فیصد آبادی کو گھروں میں قید رکھ کر کوئی بھی جنگ آزادی لڑی نہیں جا سکتی‘‘۔ قائداعظمؒ نے عملی مظاہرے کے لیے اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناحؒ کو ہمیشہ ساتھ رکھا تھا۔ آزادی کی تحریک نے خواتین کی توجہ جدید تعلیم پر مرکوز کی۔
خواتین ہماری آبادی کا تقریباً آدھا حصہ ہیں‘ جب تک یہ آدھا حصہ ملکی معاملات میں برابر کا شریک نہ ہو‘ ہم ترقی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتے۔ سیاسی‘ سماجی اور معاشی ترقی میں خواتین کو مساوی سطح پر لانے کے لیے تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہے۔ خاص طور پر معاشرتی بیداری میں اولین چیز تعلیم ہے۔ ایک پرانا مقولہ ہے کہ ''مجھے پڑھی لکھی مائیں دو‘ میں ترقی یافتہ معاشرہ دوں گا‘‘۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ایک پڑھی لکھی باشعور ماں ایک ایسے معاشرے کو جنم دیتی ہے جو قوم کی تقدیر بدل دے۔ ترقی کی بنیاد یہیں سے شروع ہوتی ہے مگر صرف اسی امر سے یکدم تبدیلی نہیں آتی۔
جب تک ہم خواتین کو ایک انسان‘ ایک ذمہ دار شہری کی نظر سے نہیں دیکھیں گے‘ تب تک ملک کی ترقی میں تعلیم یافتہ خواتین کے کردار کو نہیں سمجھا جا سکتا۔ دنیا میں انقلاب کی تاریخ کا جائزہ لیں تو نظر آتا ہے کہ روسی انقلاب کے فوراً بعد سب سے زیادہ سکول لڑکیوں کے کھولے گئے۔ لڑکیوں کے لیے ہر کالج اور یونیورسٹی میں لڑکوں کے برابر جگہ رکھی گئی۔ خواتین کو نہ صرف تعلیم دینے کے لیے مقرر کیا گیا بلکہ طب‘ انجینئرنگ اور سائنس کے اہم شعبوں میں بھی خواتین کو فوقیت دی گئی۔ یہی لائحہ عمل بعد میں انقلاب قبول کرنے والے ممالک نے اختیار کیا۔ یورپ کے انڈسٹریل انقلاب کے بعد وہاں بھی خواتین کی اہمیت کو سمجھا گیا اور انہیں زندگی کے ہر شعبے میں شامل کیا گیا۔
قائداعظمؒ نے قیامِ پاکستان کی تحریک کے دوران اور پھر پاکستان کے بن جانے کے بعد بھی‘ اپنی ہر تقریر میں خواتین کی تعلیم پر زور دیا اور یہ بھی کہا کہ پاکستانی خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ قومی ترقی میں حصہ لینا چاہیے۔ یہ اُسی وقت ممکن ہوگا جب ہم عورت کو کمزور سمجھنا چھوڑ دیں۔
اسلام ایک انقلابی دین ہے جس نے ایک ایسے قبائلی معاشرے میں‘ جہاں لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جاتا تھا‘ اُن کے کوئی حقوق نہیں تھے‘ جو اپنے رشتہ دار مردوں کی ملکیت سمجھی جاتی تھیں‘ خواتین کو برابری کا حق دیا۔ خواتین اور مردوں کو پیدائش کی بنیاد پر نہیں بلکہ اُن کے عمل کی بنیاد پر مقام دینے کی بات کی۔ سزا اور جزا برابر رکھی جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خواتین مردوں سے کم تر نہیں۔ اسلام نے خواتین کو وراثت میں حق دیا، شادی میں اُن کی رضا مندی کو اُن کا حق سمجھا اور اس کے حصول کو لازم قرار دیا۔ جہاں قرآن نے خواتین اور مردوں‘ دونوں کو شرعی تعلیمات حاصل کرنے کا کہا‘ وہیں میرے پیارے نبیﷺ نے فرمایا کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔
اس وقت عالم اسلام کی آبادی لگ بھگ ایک ارب بیس کروڑ ہے جس کا نصف خواتین ہیں۔ مسلم معاشروں کی خواتین کو باقی دنیا بھر کی خواتین سے بالکل علیحدہ حیثیت میں پیش کیا جاتا ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ مذہب کے نام پر اُن کے دائرۂ کار کو مردوں سے الگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی وجہ سے آبادی کا ایک بڑا حصہ تعلیم اور ملک کی ترقی سے الگ ہو جاتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک ترقی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔ یہ بات بھی سوچنے والی ہے کہ تعلیم کا مقصد محض دستخط کرنا یا محض ڈگریاں حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ تعلیم کا مقصد ذہنی تربیت‘ ذہنی بیداری اور شعور کی پرورش ہوتا ہے۔
ہمارے جیسے ملک میں‘ جو ایک ترقی پذیر اور زرعی ملک ہے‘ تعلیم کا انداز نصابی نہیں بلکہ تربیتی اور خود احتسابی ہو تو ہی فروغِ علم اور تحصیلِ علم کے سرچشمے زیادہ وسعت حاصل کر سکتے ہیں۔ تعلیم کا مقصد صرف کتاب پڑھنا نہیں بلکہ موجودہ غربت‘ جہالت‘ گندگی اور بیماریوں کو مٹانا ہے، زمین اور انسان کے رشتے کو مضبوط کرنا ہے‘ زمین سے پیداوار حاصل کرنے کیلئے سائنسی اور فنی طریقے اپنانا ہے‘ ٹیکنالوجی کے ذریعے چھوٹی صنعتیں لگانا ہے۔ ہمیں دیہات اور شہروں کے سکولوں کے نصاب کو الگ الگ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ صرف عام مضامین میں بی اے یا ایم اے کی ڈگری لے کر نوکری کیلئے سرگرداں بے روزگاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے سے کبھی ترقی نہیں ہوتی۔ غربت اور افلاس کا طوق اُتارنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنی آدھی آبادی اور قوم کو ایسی معیاری تعلیم سے آراستہ کریں جس سے وہ سائنس اور ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں خدمات سر انجام دے کر ملک کو تیزی سے خوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچائیں۔ ترقی کے لیے ایسا علم درکار ہے جو مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق ہو‘ جو صنفی مساوات‘ خواتین کو بااختیار بنانے اور ترقی میں حائل رکاوٹوں کو دور کر سکے‘ جو خواتین کو اپنے ملک کے اندر پالیسی سازی میں شریک کرے۔ عورت کو حق دینا دراصل سماج کو حق دینا ہے۔ جوں جوں عورت مردوں کے شانہ بشانہ ملکی ترقی میں حصہ لے گی‘ اُسی رفتار سے ملک ترقی کرے گا۔ اپنے وطن کی ترقی کا خواب دیکھنا اچھا لگتا ہے‘ کیوں نہ ہم آج ایک عہد کریں کہ قائداعظمؒ، علامہ محمد اقبالؒ اور مادرِ ملتؒ کے خواب کو پورا کرنے کیلئے پاکستانی عورت امن‘ علم اور یکجہتی کا عَلم اُٹھا کر ایک نئی دنیا‘ جو آج سے بہتر ہو گی‘ بنا کے دم لے گی۔ دنیا جو میری ہے‘ نہ تیری ہے بلکہ ہم سب کی ہے۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے تمام معاہدوں میں 'سیڈا‘ کو ایک اہم حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ کنونشن دنیا کی آدھی آبادی یعنی عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیاز کے خاتمے کا کنونشن ہے۔ اس کےGender Reform Action Plan کا پاکستان بھی دستخط کنندہ ہے۔ علاوہ ازیں میلینیم ڈویلپمنٹ گول ہیں۔ ان تمام یونیورسل معاہدوں کا مطلب ہے کہ پاکستان میں عورتیں برابر کے حقوق اور عزت کی حق دار ہوں گی۔ اُن کو صحت‘ تعلیم‘ معاشی و معاشرتی تحفظ دینا ریاست کا فرض ہو گا۔ پاکستان کا آئین بھی عورتوں کو اُن کے حقوق‘ جو دراصل انسانی حقوق ہیں‘ دینے کی ضمانت دیتا ہے مگر پھر بھی پدرسری نظام سے پاکستانی معاشرہ جڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے حکومتی افراد‘ افسر شاہی، پولیس‘ سیاست دان اور دیگر طبقات صنفی مسائل کے حوالے سے زیادہ باشعور نہیں ہیں۔
عورتوں کو وٹے سٹے کی شادی، قرآن سے شادی کر‘ جنسی طور پر ہراساں کرنے، کام کی جگہ اور تعلیمی اداروں میں پریشان کرنے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستان میں عورتیں سرکاری اداروں جیسے پولیس‘ جیل اور وہاں کے متعلقہ افراد پر بھی اعتماد نہیں کر سکتیں حالانکہ ملکی اور غیر ملکی سطح پر ایسی دستاویزات موجود ہیں جو عورتوں پر تشدد کے خاتمہ کیلئے مملکت کی ذمہ داری کا تعین کرتی ہیں۔ عورتوں کے خاندان والے ان کے گھروں سے باہر نکلنے سے‘ خصوصاً کسی دوسرے شہر میں تعلیم یا نوکری کیلئے بھیجنے سے‘ گھبراتے ہیں۔ عام طور پر وہ صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتوں تک رسائی سے بھی محروم ہو جاتی ہیں۔ ملازمت اور تربیت کے مواقع بھی اسی پابندی کی وجہ سے کھو بیٹھتی ہیں۔ معاشرے کی سرگرمیوں میں آزادی سے حصہ نہیں لے سکتیں اور بہت سا اہم تجربہ بھی حاصل نہیں کر پاتیں۔ یہ کمی آگے جاکر اُن کی ترقی میں حائل ہوتی ہے‘ مثلاً نوکری کے بہت سے مواقع کھو کر یا نوکری میں ترقی کے مواقع ان کو نہیں ملتے کیونکہ مردوں کے برعکس اُن کا تجربہ زیادہ نہیں ہوتا۔ سامراجی گلوبلائزیشن کے نتیجے میں محنت کش طبقہ بدترین استحصال کا شکار ہے۔ خاص طور پر عورتیں جو پہلے ہی سماجی جبر کے تحت زندگی گزار رہی ہیں‘ اب دہرے استحصال کا شکار اور سوشل سکیورٹی سے محروم ہیں۔ غربت اور بیروزگاری میں اضافے کی وجہ سے غیر رسمی شعبے میں عورتوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجہ سے عورتیں گھروں کے اندر بند ہو کر سیاسی و سماجی دھارے سے الگ تھلک ہوتی جا رہی ہیں۔ پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو قانون کی نظر میں برابری کا حق دیتا ہے اور عورتوں اور بچوں کا تحفظ مملکت کی ذمہ داری قرار دیتا ہے‘ لہٰذا خواتین کو تعلیم اور روزگار کے یکساں مواقع فراہم کرکے ہم وطن عزیز کو ترقی کی شاہراہ پر تیزی کے ساتھ گامزن کرسکتے ہیں۔