پاکستانی معیشت آج جس راستے پر گامزن ہے‘ یہ شاید وہی راستہ ہے جس پر اس وقت دنیا کے تمام ترقی یافتہ ممالک چل رہے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ وہ مستقل مزاجی اور حقیقت پسندانہ اپروچ کے باعث منزل تک پہنچ چکے ہیں اور ہم ابھی طفلِ مکتب ہیں۔ رفتار کا سست ہونا یا منزل کا دور ہونا ناکامی کا باعث نہیں بنتا بشرطیکہ راستے کا انتخاب درست ہو۔ فکر اس وقت ہونی چاہیے جب منزل مغرب کی طرف ہو اور سفر مشرق کی جانب۔اگر پاکستانی معیشت کی بات کی جائے تو مورخ اسے دو حصوں میں تقسیم کرے گا۔ ایف اے ٹی ایف سے پہلے کا پاکستان اور ایف اے ٹی ایف کے بعد کا پاکستان۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (فیٹف) کو 1989ء میں جی سیون ممالک نے منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے قائم کیا تھا۔ ابتدائی طور پر یہ ادراہ منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے قائم ہوا تھا لیکن نائن الیون کے بعد دہشت گردوں کی مالی معاونت کی روک تھام بھی اس کی ذمہ داری بن گئی۔ جو ممبر ممالک ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر عمل نہیں کرتے‘ انہیں پہلے گرے لسٹ اور بعدازاں بلیک لسٹ میں شامل کر دیا جاتا ہے۔ جن ممالک کو بلیک لسٹ کیا جاتا ہے‘ وہ دنیا کے ساتھ تجارت نہیں کر پاتے کیونکہ بین الاقوامی ادائیگیوں کے راستے تقریباً بند کر دیے جاتے ہیں۔ قانونی طریقوں سے قرض حاصل نہیں کیا جا سکتا، نہ درآمدات ہو سکتی ہیں اور نہ ہی برآمدات ممکن رہتی ہیں۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ملک معاشی تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اگر کچھ ممالک قرض دینے پر رضامند ہو بھی جائیں تو وہ مارکیٹ سے گئی گنا زیادہ شرح سود پر دیں گے جس کا براہِ راست اثر عوام کی جیبوں پر مہنگائی کی صورت میں پڑے گا۔ جس وقت پاکستان کو گرے لسٹ میں ڈالا گیا تھا‘ وہ آئی ایم ایف سے بیل آوٹ پیکیج لینے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا‘ اگر اس وقت بلیک لسٹ میں ڈال دیا جاتا تو نہ آئی ایم ایف سے قرض ملنا تھا اور نہ ہی دوست ممالک کی مالی امداد مل سکتی تھی۔
ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو کس طرح فائدہ پہنچایا‘ آئیے اس کا ایک جائزہ لیتے ہیں۔ کسی بھی ملک کا بینکنگ نظام منی لانڈرنگ کے حوالے سے رائے قائم کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو جون 2018ء سے پہلے تک بینک اکائونٹ کھلوانے کے لیے صرف ایک شناختی کارڈ نمبر کی ضرورت ہوتی تھی۔ جعلی سائن، جعلی انگوٹھوں کے نشان،جعلی تصویروں اور جعلی گواہیوں کے ذریعے بھی اکائونٹ کھلوایا جا سکتا تھا۔ پاپڑ والے، گولے والے، فالودے والے‘ حتیٰ کہ مر جانے والے افراد کے اکائونٹس سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز اس کا عملی ثبوت ہیں۔ جب متعلقہ افراد سے پوچھا گیا کہ آپ کے اکائونٹ میں اتنی رقم کہاں سے آئی تو ان لوگوں کا جواب یہ تھا کہ ہم نے تو کوئی اکائونٹ کھلوایا ہی نہیں‘ نہ ہی ہمیں اس کا علم ہے۔ افسوس کا مقام یہ تھا کہ جب اس حوالے سے ملک کے ایک بڑے سیاستدان سے پوچھ گچھ کی گئی تو انہوں نے کہا کہ یہ میرا پیسہ ہے‘ میں جس کے چاہے اکائونٹ میں رکھوں‘ کیا فرق پڑتا ہے؟ جب اس طرح کے سینکڑوں اکائونٹس سامنے آئے تو اس نے پاکستان کے بینکنگ نظام کے کمزور ہونے پر مہر لگا دی۔ اس پر ایف اے ٹی ایف نے مانیٹرنگ تیز کر دی۔ سٹیٹ بینک نے اس کمزوری کانوٹس لیا اورفنگر پرنٹس کی تصدیق کے بغیر اکائونٹ کھلوانے پر پابندی عائد کر دی، دیگر تمام اکائونٹس کیلئے بھی فنگر پرنٹس ویریفکیشن لازمی قرار دی۔ جن اکائونٹس کی ڈیجیٹل تصدیق نہیں ہو سکی‘ انہیں ہمیشہ کیلئے بند کر دیا گیا۔ آج پورے پاکستان میں ایک بھی اکائونٹ ایسا نہیں ہے جس کی آن لائن ویریفکیشن نہ ہوئی ہو۔ اس عمل نے جعلی اکائونٹس کھلوانے کے تمام راستے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے ہیں۔ میں عینی شاہد ہوں کہ بینکوں نے لگاتار چوبیس گھنٹے کام کر کے، اکائونٹ ہولڈرز کے گھروں میں جا کر اور کچھ کو بیرونِ ملک سے بلوا کر اکائونٹس کی تصدیق کا کام مکمل کیا‘ یہ اس وقت دردِ سر محسوس ہوتا تھا لیکن آج اس کی وجہ سے پاکستان کی معیشت پر اعتماد بڑھ رہا ہے۔
آپ نے غور کیا کہ پاکستان میں ڈالر کی قدر میں پچھلے دو ماہ سے لگاتار کمی کیوں ہو رہی ہے؟ حقیقت میں اس کی وجہ بھی فیٹف کی شرائط پر عملدرآمد ہے۔ منی لانڈرنگ کی روک تھام کیلئے جیسے ہی بل اسمبلی سے منظور ہوئے‘ غیر رجسٹرڈ منی چینجرز کی حوصلہ شکنی ہوئی۔ انہوں نے بلیک میں بکنے والے ڈالرز رجسٹرڈ منی چینجرز کو فروخت کر دیے، وہ ڈالرز رجسٹرڈ اکانومی میں شامل ہوئے تو علم ہوا کہ پاکستان میں ڈالرز کی رسد اس کی طلب سے زیادہ ہے۔ نتیجتاً ڈالر نیچے آنے لگا۔اس سے قبل حوالہ ہنڈی کا کام عروج پر تھا۔ ڈالر سمگل ہو رہا تھا اور سزا جزا کا کوئی طاقتور نظام موجود نہیں تھا۔ اب قانون منظور ہونے کے بعد ہنڈی کا کام تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ بیرونِ ملک سے اب بینکنگ چینلز کے ذریعے رقوم پاکستان آ رہی ہیں اور پچھلے چار ماہ سے ترسیلاتِ زر 2 بلین ڈالرز سے بھی تجاوز کر چکی ہیں‘ بلکہ اس دوران ملکی تاریخ کی سب سے زیادہ ترسیلاتِ زر موصول ہوئی ہیں۔
فیٹف کے مطابق بعض این جی اوز بھی منی لانڈرنگ کا بہت بڑا سورس ہیں۔ حکومت پاکستان نے ایسے سینکڑوں اداروں کو بند کیا جن پر ایک فیصد بھی شک و شبہ تھا۔ ایک وقت تھا کہ ایک این جی او رجسٹرڈ کرانا نہایت آسان تھا لیکن آج اس پراسیس میں اتنے ادارے شامل ہو گئے ہیں کہ اب اس کی آڑ میں منی لانڈرنگ کا تصور بھی محال ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں بلیک منی کا زیادہ استعمال سونے کی تجارت، گاڑیوں کی خریدوفروخت اور پراپرٹی کے کاروبار میں ہوتا تھا۔ فیٹف نے اسے ٹیکس نیٹ میں لانے کی ہدایت کی تھی۔ گاڑیوں کے حوالے سے تو کافی کام ہو چکا تھا، پچھلے سال شبر زیدی نے ہنگامی بنیادوں پر سونے کا کام بھی ٹیکس ریٹرن میں شامل کروادیا تھا۔ پراپرٹی کے حوالے سے کیے گئے اقدامات تسلی بخش تھے لیکن پراپرٹی کے کاروبار کو ایمنسٹی دینے کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔ اب جن ہدایات پر عمل ہونا باقی ہے‘ ان میں سے ایک پراپرٹی سے متعلق بھی ہے اور حکومت نے اس پر کامیابی سے کام کرنے کی یقین دہانی کرا دی ہے۔
مشتبہ ٹرانزیکشنز کو روکنے کے لیے ان کی مانیٹرنگ ضروری ہے اور مانیٹرنگ کے لیے ریکارڈ تک رسائی چاہیے۔ اس عمل میں قانونی رکاوٹیں موجود تھیں‘ کئی مرتبہ انہیں ختم کرنے کی بات ہوئی لیکن عملدرآمد نہ ہو سکا۔ فیٹف کی بدولت اِنکم ٹیکس آرڈیننس میں تبدیلی اہم پیشرفت ہے۔ مشتبہ ٹرانزیکشنز کی مانیٹرنگ کے لیے ایف بی آر کے ریکارڈ تک رسائی میں رکاوٹیں اِنکم ٹیکس آرڈیننس میں تبدیلی کے ذریعے ختم کر دی گئی ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کا پاکستان میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے چیک اینڈ بیلنس تو بہت سخت ہے جس کا پاکستان کو فائدہ بھی ہوا ہے لیکن دوسری جانب دنیا کے اکثر ممالک میں منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری کے پیسوں سے جائیدادیں خریدنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ پاناما اور لندن اس حوالے سے سرفہرست ہیں۔ ایف اے ٹی ایف نے اس حوالے سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں جس پر باقی دنیا خصوصاً پاکستان میں کافی تشویش پائی جاتی ہے کیونکہ منی لانڈرنگ کیس میں سزا یافتہ پاکستان کے سابق وزیراعظم اس وقت لندن میں ہیں جس پر برطانوی حکومت کی جانب سے کوئی ایکشن نہیں لیا جا رہا۔
پاکستان نے ستائیس میں سے اکیس ایکشن پلان پر عمل کر لیا ہے‘ پچھلے سال صرف پانچ نکات پر عمل ہوا تھا، اب ایک سال میں مزید سولہ ایکشن پلان مکمل کر لیے گئے ہیں۔ جنہیں ہم ایکشن پلان کہہ رہے ہیں یہ دراصل معیشت کو راہِ راست پر لانے کے فارمولے ہیں۔ سچ یہ ہے اگر ایف اے ٹی ایف کا دبائو نہ ہوتا تو اگلے کئی سالوں تک درست سمت اختیار کرنا شاید ممکن نہ ہو پاتا۔ معیشت کو درست ٹریک پر لانے کے لیے ایف اے ٹی ایف کے ستائیس ایکشن پلان اور ایشیا پیسیفک گروپ کی چالیس ہدایات ہیں ‘ معاشی بہتری کے لیے جن پر عملدرآمد ضروری ہے۔