کورونا کی پہلی لہر نے دنیا کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے اور دوسری لہر گرتی ہوئی معیشت کے لیے شاید آخری دھکا ثابت ہو۔ اگر صرف امریکا کی بات کی جائے تو ماہرین کے مطابق کورونا کے باعث تقریباً چالیس فیصد امریکی معیشت تباہ ہو سکتی ہے۔ قرضوں اور نقصانات کے یہ اعدادوشمار دوسری جنگ عظیم کے بعد سب سے زیادہ ہیں۔جاپانی معیشت تقریباً 27.8 فیصد سکڑ چکی ہے۔جاپان کے جی ڈی پی میں 7.8 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ 1955ء کے بعد یہ جاپان کا بدترین معاشی بحران قرار دیا جا رہا ہے حالانکہ اس سے پہلے 2008ء میں دنیا میں آنے والے معاشی بحران کے نتیجے میں جاپانی معیشت 17.8 فیصد تک سکڑ گئی تھی۔ آسٹریلیا نے پچھلے تین سالوں میں بہت زیادہ ترقی کی ہے لیکن کورونا کے باعث اس کی معیشت بھی سات فیصد سے زیادہ سکڑ چکی ہے اور دس لاکھ سے زیادہ لوگ بیروزگار ہو گئے ہیں۔ جنوبی کوریا ایشیا کی چوتھی بڑی معاشی طاقت سمجھا جاتا ہے‘ گو کہ اس نے کورونا پر بہتر انداز میں قابو پایا لیکن آئی ایم ایف کے مطابق اس کی معیشت کورونا کی وجہ سے تقریباً ایک اشاریہ سات فیصد سے زائد تک سکڑ سکتی ہے۔ نیوزی لینڈ کی معیشت تقریباً 12 فیصد تک سکڑ گئی ہے۔
دنیا کے ہر ملک میں کورونا نے تباہی مچائی ہوئی ہے۔ عالمی سطح پر اس مشکل وقت میں سے نکلنے کے راستے نکالنا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ چلتی کا نام گاڑی‘ لیکن کورونا کی عالمی وبا نے ہر خاص و عام کو بتا دیا ہے کہ چلتی کا نام خوشحالی بھی ہے۔ فیکٹریاں، گاڑیاں اور جہاز جب تک چل رہے ہیں‘ زندگی کا پہیہ بھی چل رہا ہے۔ رک جانے کا دوسرا نام تباہی و بربادی ہے۔ چند دن کے لیے کاروبارِ حیات کیا تھما‘ بڑی بڑی ایئر لائنز بند ہو گئیں، فیکٹریاں ویران ہو گئیں اور تیل و گیس کی کمپنیاں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئیں بلکہ ان ایمرجنسی حالات میں اشیا کی ترسیل میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر چائنہ امریکا یا یورپ میں میڈیکل سامان بھجوانا چاہ رہا تھا تو کوالٹی چیکس اور ٹیکسز سمیت سینکڑوں رکاوٹیں ایسی تھیں جنہیں عبور کرنے میں ہزاروں زندگیاں ضائع ہو گئیں۔ خصوصی اجازت کے بعد ان رکاوٹوں کو کم کر کے مشکلات میں کمی کی گئی لیکن اس سانحے نے دنیا کی توجہ اس اپروچ کی طرف مبذول کروائی کہ تجارت کو کوئی ایسی شکل دی جائے جس میں بے جا ٹیکسز اور رکاوٹوں سے جان چھڑا لی جائے۔ ویسے تو اس حوالے سے کئی سالوں سے گفت و شنید جاری تھی لیکن کورونا وبا کے اثرات نے اہلِ دانش کو مجبور کیا کہ وہ جلد از جلد حتمی فیصلے کی طرف جائیں۔
چین نے کئی سال پہلے یہ تجویز دی تھی کہ ایشیائی ممالک کے درمیان آزادانہ تجارت کے معاہدے طے کیے جائیں تاکہ ایک ملک میں بننے والی چیز بآسانی اور کم قیمت میں کسی بھی دوسرے ملک میں دستیاب ہو سکے، اس سے کوالٹی آف لائف بھی بہتر ہو اور ہر باصلاحیت انسان کو دنیا میں اپنی پہچان کروانے کا موقع بھی مل سکے۔ 2018ء میں چین نے اس خواب کی تکمیل کے لیے دس ایشیائی ممالک سے معاہدے کیے اور امریکا کو بھی اس میں شامل ہونے کی دعوت دی لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی نفرت انگیز پالیسیوں کی بدولت کامیابی نہ مل سکی۔ اس پر ایشیائی ممالک نے امریکا کے بغیر ہی آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا اور 15نومبر 2020ء کو چین کی قیادت میں پندرہ ایشیا پیسفک ممالک نے آزادانہ تجارت کے معاہدے پر دستخط کر دیے۔ اسے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ڈیل قرار دیا جا رہا ہے جو دنیا کی ایک تہائی آبادی کی معاشیات پر اثر انداز ہو گی۔
یورپی یونین اور شمالی امریکا کے تجارتی اتحاد سے بھی بڑا یہ اتحاد دنیا کی معیشت کو بدل دینے کی صلاحیت رکھتاہے۔ علاقائی معاشی جامع شراکت داری یا آر سی ای پی (Regional Comprehensive Economic Partnership) نے تقریباً آٹھ سال کی گفت و شنید کے بعد اس میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس ڈیل کے ذریعے چین، جاپان اور جنوبی کوریا ایک دوسرے کے قریب آتے دکھائی دے رہے ہیں جو کہ دنیا بھر کی ٹیکنالوجی کا پاور ہائوس سمجھے جاتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 2030ء تک تینوں ممالک تقریباً دو سو ارب ڈالرز سے زائد گلوبل اکانومی میں شامل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ اس ڈیل کے تحت جنوبی ایشیا کے دس ممالک کی جانب سے پہلے سے دستخط شدہ معاہدوں کو استعمال کیا گیا ہے اور ان میں مزیدپانچ نئے ممالک کو شامل کیا گیا ہے۔ دس ممالک میں برونائی، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس،ملائیشیا، میانمار،فلپائن، سنگاپور،تھائی لینڈ اور ویتنام شامل ہیں اور نئے شامل ہونے والے ممالک میں آسٹریلیا، چین،جاپان،نیوزی لینڈ اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔ بظاہر جاپان اور جنوبی کوریا اس ڈیل میں سب سے بڑے فاتح کے طور پر سامنے آ رہے ہیں لیکن سستی اشیا کے فوائد ایشیائی ممالک کے علاوہ امریکا اور یورپ تک بھی پھیل سکیں گے۔ کورونا کی تباہی کے بعد دنیا کی بڑی معیشتیں زبوں حالی کا شکار ہیں۔ ان حالات میں یہ معاہدہ گرتی ہوئی اکانومی کے لیے ایک سہارا بن سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ یہ ماڈل کیا ہے اور کس طرح سے کام کرے گا۔ دراصل یہ آزاد تجارت کا منصوبہ ہے۔ جس میں ٹیکسز اور کسٹم ڈیوٹیز یا تو ختم کر دی گئی ہیں یا انتہائی کم ہو گئی ہیں۔ ایڈمنسٹریشن، جائز اور ناجائز جیسے تمام معاملات طے کیے گئے ہیں لیکن آزادانہ تجارت کا معاہدہ ممبر ممالک میں سے ہر ایک کے ساتھ مختلف ہو سکتا ہے، مثال کے طور پر اگر انڈونیشیا ایک سائیکل بناتا ہے اور اس حوالے سے وہ جاپان کے ساتھ آزادانہ تجارت کا ایک معاہدہ کر لیتا ہے تو وہ معاہدہ ضروری نہیں کہ دیگر ممبر ممالک پر بھی لاگو ہو۔ ممکن ہے کہ انڈونیشیا اس سائیکل کی حوالے سے چین کے ساتھ کوئی نئی ڈیل کرے‘ جس میں ٹیکسز کی چھوٹ سمیت دیگر سہولتوں کی شکل کچھ مختلف ہو لیکن یہ نہیں ہو سکتا کہ اگر ایک ملک کو سہولتیں دی گئی ہیں تو دوسرے کو نہ دی جائیں۔ البتہ صرف ایک معاہدہ سب کے لیے قابل عمل نہیں ہو سکتا بلکہ ہر ملک کو دوسرے ملک سے علیحدہ معاہدہ کرنا ہو گاکیونکہ ہر ملک کے جغرافیے اور ماحول میں فرق ہے۔اس معاہدے کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں بڑے‘ چھوٹے امیر اور غریب‘ تمام ممالک شامل ہیں اور سب کو بہترین انداز میں ڈیل کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں خطے سے امریکا کا اثرو رسوخ کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی بدولت امریکا ایشیا پیسفک معاہدے سے پہلے ہی نکل چکا ہے۔ اس ڈیل کا حجم مزید بڑھ سکتا تھا اگر بھارت بھی اس معاہدے میں شامل ہو جاتا لیکن چین سے تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے وہ اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ 2019ء میں بھارت نے اس میں شامل ہونے سے معذرت بھی کر لی تھی‘ کیونکہ اسے ڈر تھا کہ خطے میں چین کی بالادستی مزید مستحکم ہو جائے گی۔ دوسری طرف اگر چین کی اشیا بھارت میں فری ٹریڈ کے تحت آنے لگیں گی تو بھارت کی مقامی مارکیٹ بری طرح متاثر ہو گی لیکن بھارت یہ اندازہ لگانے میں ناکام رہا ہے کہ آر سی ای پی چند سالوں میں دنیا کی معیشت کے حجم میں 186 ارب ڈالرز اضافہ کرنے جا رہاہے۔ اس معاہدے پر تنقید کی جا رہی ہے کہ یہ سب کچھ چین کی طاقت بڑھانے کے لیے کیا جا رہا ہے اور بھارت کی علیحدگی نے اس رائے کو زیادہ تقویت دی ہے۔ اگر چہ اس سے بیجنگ کی طاقت بڑھے گی اور وہ ان پندرہ ممالک کی معیشت پر اثر انداز ہو سکے گا اور ممکن ہے کہ مستقبل میں تجارت ڈالر کے بجائے چینی کرنسی ین میں کرنے کی تجویز بھی سامنے آ جائے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ عام آدمی اور کمزور معیشتیں اس سے فائدہ اٹھا سکیں گی ، عالمی سطح پر صحت مند مقابلے کا رجحان بڑھے گا اور دنیا حقیقی معنوں میں معاشی گلوبل ویلیج بن سکے گی۔