پاک افغان تجارت کیسے بہتر کی جا سکتی ہے؟

ہمسائیوں سے بہتر تعلق معاشی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ ہمسایہ کمزور ہو یا طاقتور معاشی اعتبار سے آپ کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے ایک طرف دنیا کی سب سے بڑی تجارتی طاقت چین ہے اور دوسری طرف جنگوں سے بے حال افغانستان ہے۔ اگر چین کے ساتھ بہتر تعلقات ضروری ہیں تو افغانستان کے ساتھ بھی بہتر تعلقات امن اور خوشحالی کا سبب ہیں۔ اگر چین ٹیکنالوجی کی مارکیٹ ہے تو افغانستان زرعی اشیا کی بڑی مارکیٹ ہے۔ اگر ہم چین سے ضرورت کی اشیا منگواتے ہیں تو افغانستان میں ضرورت کی اشیا فروخت بھی کرتے ہیں۔ پاکستانی کسان کی خوشحالی کا کسی حد تک دارومدار افغان بارڈر کھلنے یا بند ہونے سے بھی ہوتا ہے۔ پچھلے دنوں جب افغان پاکستان کشیدگی کے باعث افغان بارڈر بند رہا ہے تو کسانوں کے آلو کوڑیوں کے بھاؤ بکے ہیں‘ بعض علاقوں میں مفت آلو بیچے گئے ہیں اور کچھ علاقوں میں مفت آلو اٹھانے کے ساتھ کرایہ بھی ادا کیا گیا۔ ایک زمیندار دوست بتا رہے تھے کہ اگر افغان بارڈر کھلا رہے تو پاکستانی کسان کبھی مفلسی کا شکار نہیں ہو گا۔ جو لوگ زمین کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں وہ اس اہمیت کو بخوبی جانتے ہیں۔ 
آجکل پاک افغان تجارت زیر بحث ہے۔ وفود آ جا رہے ہیں۔ بہتر مستقبل کے لیے پرانے راستوں کو درست کیا جا رہا ہے اور نئے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان کامرس اور انویسٹمنٹ کے مشیر رزاق داؤد نے افغانستان کا دورہ کیا ہے اوروزیراعظم پاکستان باہمی تجارت کے فروغ کے لیے حالیہ دنوں افغانستان کا دورہ کر چکے ہیں۔ عمران خان صاحب کے اس بیان کو بہت سراہا جا رہا ہے کہ پاکستان افغانستان کی توقعات سے زیادہ مدد کرے گا۔اس دورے کے موقع پر بہت سی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ افغانستان پاکستان ٹرانزٹ ٹریڈ ایگریمنٹ پر کام ہو رہا ہے اور امید کی جارہی ہے کہ جنوری 2021ء تک معاملات کافی حد تک طے پا جائیں گے۔ پاک افغان تجارت کس طرح بہتر کی جا سکتی ہے‘ آئیے ایک نظر ڈالتے ہیں۔ 
افغانی پاکستان تجارت کی غرض سے آتے ہیں لیکن انہیں ایسی کوئی سہولت نہیں دی جاتی جو مقامی کاروباری حضرات کو دی جاتی ہے‘ بلکہ وہ تو اپنی شناخت ہی چھپاتے پھرتے ہیں۔ بحالتِ مجبوری وہ غیر قانونی طریقے سے تجارت کرتے ہیں جس کا فائدہ پاکستانی معیشت کو نہیں ہو پاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان ترقی یافتہ ممالک کی پالیسی اختیار کرے۔ جیسا کہ برطانیہ‘ یورپ اور امریکہ میں ہوتا ہے۔ اگر آپ برطانیہ کی شہریت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو تقریباً دو لاکھ پاؤنڈز کی سرمایہ کاری کر کے آسانی سے حاصل کر سکتے ہیں چاہے آپ کا تعلق دہشت گردی کے ہدف ملک افغانستان سے ہو یا دہشت گردوں کی سرپرستی کا بے بنیاد الزام سہنے والے ملک پاکستان سے۔ یہی وجہ ہے کہ آج برطانیہ کی معیشت میں پاکستان اور افغانستان کے شہری ایک بڑا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اسی طرز پر افغانستان سے پاکستان کاروبار کرنے کے خواہشمند حضرات کے لیے سرمایہ کاری پالیسی متعارف کروائی جائے۔ جس کے تحت مخصوص رقم کے ساتھ کاروبار شروع کرنے والے افغانوں کو پاکستانی شہریت دی جائے۔ بینک قرضے سے لے کر سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری تک تمام سہولتیں میسر ہوں۔ وہ بینک اکاونٹس کھلوا سکیں‘ جائیدادیں خرید سکیں اور ڈرائیونگ لائسنس حاصل کر سکیں۔ ان کے لیے نئی کمپنی بنانا اتنا ہی آسان ہو جتنا ایک عام پاکستانی یا کسی اور ملک کے باشندے کے لیے ہوتا ہے۔ ڈبل ٹیکسیشن سے بچنے کے لیے دونوں طرف ٹیکس کے نظام کو بہتر کیا جائے۔
اس کے علاوہ پاکستانی مال بردار ٹرکوں کی آمدورفت پر بھی پیشرفت ضروری ہے۔ پاکستانی ٹرکوں کو تاجکستان‘ ترکمانستان اور ازبکستان جانے کی اجازت ملنی چاہیے۔ یاد رہے کہ 2017ء میں تجارتی معاہدہ ختم ہونے پر افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی ٹرکوں کو افغانستان کے راستے دوسرے ملکوں سے تجارت پر پابندی عائد کر دی تھی۔ پہلے پاکستانی ٹرک براہ راست دوسرے ملکوں میں تجارت کرتے تھے‘ لیکن 2017ء کے بعد پاکستانی ٹرکوں کا مال افغانستان میں ہی اتار لیا جاتا ہے اور افغان ٹرک وہ سامان مطلوبہ مقام پر پہنچاتے ہیں۔ مطالبہ یہ تھا کہ افغانستان کے ٹرک پاکستانی بارڈر پر روک لیے جاتے ہیں اور انہیں پاکستان کے اندر مختلف شہروں میں جانے کی اجازت نہیں ہوتی جبکہ پاکستانی ٹرک پورے افغانستان میں آزادانہ آتے جاتے ہیں‘ اس لیے جب تک افغان ٹرک پاکستان میں آزادانہ حرکت نہیں کریں گے پاکستانی ٹرک بھی افغانستان کا راستہ استعمال نہیں کر سکتے۔ آج پاک افغان تجارتی تعلقات کو بہتر بنانے کی بات ہو رہی ہے۔ یہ شاید بہترین موقع ہے کہ اس کانٹے کو بھی نکال دیا جائے اور ایک ایسا معاہدہ سامنے لایا جائے جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی ٹوٹنے سے بچ جائے۔ کیونکہ ایک بات تو طے ہے کہ جب بارڈرز پر مال اتار کر کھولا جاتا ہے تواس کی کوالٹی پر اثر پڑتا ہے۔ پاکستان کو بھی افغانستان میں انہی مسائل کا سامنا ہے۔ پاکستانی زرعی اجناس افغان بارڈر پر آف لوڈ کی جاتی ہیں‘ کھول کر چیکنگ ہوتی ہے۔ دوبارہ افغان ٹرکوں پر لادی جاتی ہیں جس سے معیار میں کمی کی شکایات زیادہ ہو گئی ہیں۔ آج کل ٹیکنالوجی اس قدر ترقی کر چکی ہے کہ ٹرکوں کو مکمل سکین کیا جا سکتا ہے۔ اگر اس ٹیکنالوجی کو ماہرانہ طریقوں سے استعمال کیا جائے تو اس ایشو پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ پھر بھی اگر پاکستانی سکیورٹی کو افغانستان کے ٹرکوں کی نقل و حرکت پر اعتراض ہے تو اس مسئلے کو احسن انداز میں حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک حل یہ بھی تجویز کیا جا سکتا ہے کہ افغان ٹرکوں کو بارڈر پر آف لوڈ نہ کیا جائے بلکہ افغان ڈرائیور کے ساتھ پاکستانی سکیورٹی اہلکار اور ڈرائیور اس کے ہمراہ بھیجا جائے جو پاکستان کے اندر مال مطلوبہ مقام تک پہنچا دیں اور واپسی تک اس کے ساتھ رہیں۔
کسی بھی ملک کی تجارت میں چیمبرآف کامرس کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔کاروباری حضرات کی نمائندگی اسی فورم کے ذریعے ممکن ہے؛چنانچہ جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے دفاتر طورخم اور چمن بارڈر پر کھول کر تعلقات کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔اس طرح دونوں اطراف کے مسائل ایک مضبوط فورم پر سامنے آ سکیں گے۔ اس کے علاوہ مشترکہ تجاویز بھی سامنے آ سکیں گی جن پر پاک اور افغان تاجر متفق ہوں۔ ایسے چھوٹے مسائل جن کے حل صرف ایک میٹنگ میں ممکن ہوسکتے ہیں وہ مناسب فورم نہ ہونے کی وجہ سے سالہا سال لٹکے رہتے ہیں۔ جوائنٹ دفاتر بننے سے یہ مسائل حکومتی سطح پر جانے کی بجائے مقامی سطح پر ہی حل ہو سکیں گے۔ یاد رہے کہ کامیاب پالیسی کبھی یک طرفہ نہیں ہو سکتی‘ اسے دونوں اطراف کے فوائد اور نقصانات کو متوازن لے کر چلنا پڑتا ہے۔ پاکستان نے افغانستان پر سگریٹ اور گاڑیوں کے سپیئر پارٹس پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس کی وجہ سے پاکستانی مارکیٹ میں مال مہنگا ہو چکا ہے۔ اثرو رسوخ والے افراد سمگلنگ کے ذریعے اپنا مال پاکستان بھیج دیتے ہیں جس کا نقصان پاکستانی معیشت کو ہی ہے۔ اگر ان کی قانونی اجازت دے دی جائے تو پاکستانی ٹیکس آمدن میں اضافہ ہو گا۔ دونوں اطراف نوکریاں بڑھیں گی اور پاکستانی مقامی مارکیٹ میں گاڑیوں کے سستے پارٹس میسر آ سکیں گے جو کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی مارکیٹ کے لیے خوش آئند ہو گا۔یہ خبریں بھی آتی رہتی ہیں کہ پاک افغان بارڈر پر ہونے والی اکثر تجارت صرف کاغذوں کی حد تک ہے‘ مہریں لگا کر اور کاغذات اکٹھے کر کے فائلوں کا پیٹ تو بھر دیا جاتا ہے لیکن زیادہ تر سامان پاک افغان بارڈر پر ہی بیچ دیا جاتا ہے جس سے مطلوبہ ڈالرز پاکستان نہیں آ پاتے۔ برآمدات کا اصل مقصدپورا نہیں ہو پاتا اور تمام لین دین افغانی اور پاکستانی کرنسی میں کیا جاتا ہے۔ ان معاملات کو حل کرنے کی ضرورت ہے ۔امید کی جا سکتی ہے کہ تجارت کے نئے معاہدوں میں اس مسئلے کا احسن حل تلاش کر لیا جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں