حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت کے حوالے سے تمام اشاریے اور خبریں اچھی ہیں؛ پاکستان جی ٹونٹی ممالک سے قرضوں میں ریلیف لینے میں کامیاب ہو گیا ہے، سولہ ممالک سے قرضوں پر ریلیف کے چھتیس معاہدوں پر دستخط ہو گئے ہیں، چین سے چونتیس کروڑ ستر لاکھ، امریکا سے بارہ کروڑ تراسی لاکھ،فرانس سے سترہ کروڑ ،جرمنی سے آٹھ کروڑ اکسٹھ لاکھ، سویڈن سے ایک کروڑ چوالیس لاکھ اور کینیڈا سے اسی لاکھ ڈالر کا قرض ریلیف سر فہرست ہے۔روس، جاپان، سعودی عرب،برطانیہ اور متحدہ عرب امارات سے ایک ارب ڈالر سے زائد کے قرض کے ریلیف کے لیے مذاکرات جاری ہیں اور امید کی جارہی ہے کہ کسی حد تک کامیابی بھی حاصل ہو جائے گی؛تاہم سوال یہ ہے کہ اس سے پاکستانی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ کیا مہنگائی کم ہو گی؟ ڈالر کی قدر کم ہو گی؟ عام آدمی کی آمدن بڑھے گی؟ ملک میں خوشحالی آئے گی؟ گاڑیوں کی قیمتیں کم ہوں گی؟ اشیائے خورونوش عام آدمی کی پہنچ میں آ سکیں گی؟ یہ عام آدمی کے سوالات ہیں جن کا جواب شاید ''ناں‘‘میں ہے۔ یاد رہے کہ قرض معاف کروانے اور قرض مؤخر کرنے میں فرق ہوتا ہے۔ مؤخر کیے جانے والے قرض واجب الادا ہوتے ہیں۔ آج نہیں تو کل‘ آپ کو یہ ادا کرنا ہی ہوتا ہے۔ اصل کامیابی اس وقت ہو گی جب قرض معاف کروا لیے جائیں گے۔ کورونا وبا کے باعث کئی ممالک نے قرضوں میں ریلیف لیا ہے۔ مختلف ممالک نے مجموعی طور پر پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کا ریلیف لیا ہے۔ جی ٹونٹی ممالک پہلے سے ہی اس کا عندیہ دے چکے تھے، اس میں کامیابی کہاں ہے؟ عمومی طور پر اس طرح کے ریلیف کے بعد مارکیٹ میں بہتری آتی ہے، سرمایہ کاروں کے مطابق ادائیگیوں میں وقت ملنے سے ڈالر کا اخراج وقتی طور پر کم ہوتا ہے جس سے پاکستانی روپے پر دبائو کم رہتا ہے اور ڈالر کی قیمت کم ہو جاتی ہے لیکن پاکستان میں الٹ ہو رہا ہے۔ جب سے ریلیف ملنے کی خبر آئی ہے‘ ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ ابھی اسی کروڑ ڈالر ادا نہیں کرنا پڑے اس کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ ارب امارات کے چار ارب ڈالر بھی ادا نہیں کیے تو یہ صورتحال ہے، اگر یہ رقوم ادا کرنا پڑ گئیں تو ڈالر قیمت مزید بڑھ جائے گی۔ روشن ڈیجیٹل اکائونٹس میں غیر معمولی اضافہ، ترسیلاتِ زر ماہانہ دو ارب ڈالرز سے زیادہ، ایف اے ٹی ایف سے متعلق قانون سازی اور منی لانڈرنگ روکنے کے سخت قوانین کے باوجود بھی روپے کی قدر میں کمی نے بہت سے سوالیہ نشان کھڑے کر دیے ہیں۔ کوئی حکومتی عہدیدار یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ ڈالر کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے۔ کیا آئی ایم ایف کا دبائو ہے یا جو مثبت خبریں سنائی جا رہی ہیں‘ ان میں کوئی جھول ہے۔ اتنی کامیابیوں کے دعووں کے بعد بھی اگر مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہوں تو کیا فائدہ؟
خبر یہ بھی ہے حکومت پنجاب نے لُوٹے گئے پچیس ارب روپے ریکور کر کے خزانے میں جمع کروا دیے ہیں۔ یہ رقم آڈیٹر جنرل کی جانب سے بے ضابطگیوں کی نشاندہی کے بعد حاصل کی گئی جو نوکر شاہی اور ٹھیکیداروں کی ملی بھگت سے لُوٹی گئی تھی۔ حکومت پنجاب اسے بہت بڑی کامیابی قرار دے رہی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پچیس ارب روپے کی اس ریکوری کا استعمال کیا ہو گا؟ کیا یہ رقم دوبارہ انہی افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دی جائے گی کہ وہ رہی سہی کسر پوری کر لیں؟ سچ تو یہ ہے کہ یہ عوام کے خون پسینے کی کمائی کے پچیس ارب روپے ہیں۔ اگر حکومت کو واپس مل گئے ہیں تو اس کا استعمال غریبوں کی فلاح کے لیے ہونا چاہیے۔ حکومت اعلان کرے کہ جو پیسہ کرپشن کی ریکوری کی مد میں وصول ہو گا‘ اس سے بے روزگار افراد کو چھوٹے کاروبار کرنے کے لیے مدد کی جائے گی۔ اگر فی خاندان پچاس ہزار روپے بھی دیے جائیں تو ان پچیس ارب روپوں سے پانچ لاکھ خاندانوں کے روزگار کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کادعویٰ بھی کرپشن کی رقم واپس لانے اور عوام کی فلاح کے لیے خرچ کر نے کا تھا، کرپٹ نظام میں سے پیسے نکال کر دوبارہ کرپٹ نظام میں ڈال دینا کوئی دانش مندی نہیں۔ اس پیسے مدینہ کی ریاست بنانے میں خرچ کیا جانا چاہیے اور مدینے کی ریاست میں عوام کا پیسہ عوام پر ہی خرچ ہوتا ہے نہ کہ سیاستدانوں اور نوکر شاہی کی شاہ خرچیوں پر۔
اس کے علاوہ حکومت نے سمگلنگ کی رقم سے حاصل کردہ اثاثوں کے خلاف پراپرٹی رولز 2020ء جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق منقولہ اور غیر منقولہ اثاثے جنہیں منی لانڈرنگ یا سمگلنگ کی رقم کے ذریعے اپنے یا اپنے رشتہ داروں کے نام پر خریدا گیا ہو‘ ضبط کر کے وفاقی حکومت کے سپرد کر دیا جائے گا۔ یہ قانون حوصلہ افزا ہے! اس سے ان لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو گی جو آمدن سے زائد اثاثوں کے مالک ہیں یا ان کے رشتہ دار اپنی حیثیت سے زیادہ اثاثے بنانے میں سرگرم ہیں لیکن یہاں کچھ تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف کی حکومت نے اپنے ڈھائی سالہ دورِ حکومت میں تقریباً تین ایمنسٹی سکیمیں جاری کی ہیں جن کے ذریعے عام آدمی کو اثاثے ظاہر کرنے کی ترغیب دی گئی اور اسے یقین دلایا گیا کہ اس سے آمدن کے ذرائع نہیں پوچھے جائیں گے۔ اور گزشتہ سال کی ٹیکس ایمنسٹی سکیم کو سب سے زیادہ کامیاب بھی قرار دیا گیا لیکن ایف بی آر کے اس قانون کے بعد یہ سوال پیدا ہو گیا ہے کہ ماضی میں اثاثے ظاہر کرنے والوں کا کیا بنے گا؟ یہ بات تو طے ہے کہ ٹیکس ایمنسٹی سے فائدہ اٹھانے والوں کی اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جن کے پیسے سرکار کی نظر میں ناجائز ہیں‘ ٹیکس چھپا کر یا حوالہ ہنڈی کے ذریعے پیسے منگوا کر جائیدادیں بنائی گئیں اور پھر اس پر معمولی سا ٹیکس ادا کر کے سب جائز کروا لیا۔ اس قانون سے یہ تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ پہلے حکومت نے لوگوں کو ٹریپ کیا اور اب انہی پر شکنجہ تنگ کر رہی ہے۔ اس تاثر کو زائل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر نیا قانون مستقبل میں ہونے والی ٹرانزیکشنز سے متعلق ہے تو یقینا اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے اور اگر اس میں ماضی کا حساب کتاب بھی شامل ہے تو یہ کاروباری طبقے کے لیے ایک دھچکا ثابت ہو گا۔ حکومت کو چاہیے کہ اس معاملے کو واضح کرے تاکہ عوام کی بہتر رہنمائی ہو سکے۔
بتایا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم نے نئی ٹیکسٹائل پالیسی کی منظوری دے دی ہے جس کے مطابق 2025ء تک ٹیکسٹائل برآمدات بیس ارب ڈالر تک لے جانے کا حدف طے کیا گیا ہے۔ پانچ سال کی پالیسی تو اچھی دکھائی دے رہی ہے لیکن جو آج کے مسائل ہیں ان پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ حکومت نے ٹیکسٹائل سیکٹر کو کچھ سہولتیں دی ہیں‘ اس کے باعث صنعت تو چل پڑی ہے لیکن سامان کی ترسیل کے لیے فیصل آباد میں کنٹینر ہی موجود نہیں ہیں۔ لوگ اپنی من مانی قیمت وصول کر رہے ہیں، بلیک میں ریٹ طے ہو رہے ہیں، مجبوراً دوسرے شہروں سے کنٹینرز منگوانے پڑ رہے ہیں، اس سے سامان کی ترسیل میں تاخیر ہو رہی ہے اور اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ یہاں پلاننگ کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ جیسے ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے کہ سطحی پالیسی بنا دی جاتی ہے اور جب سر پر پڑتی ہے تو بھاگ دوڑ شروع کر دی جاتی ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ جب آرڈر ملنا شروع ہوئے تھے تب ہی کنٹینرز سے متعلق منصوبہ بندی کر لی جاتی تا کہ وقت آنے پر قلت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔حکومت کے اچھے کام کی کوششوں سے انکار نہیں لیکن ایک طرف ان میں مؤثرمنصوبہ بندی کا فقدان دکھائی دیتا ہے اوردوسری طرف عام آدمی تک ان پروجیکٹس کے ثمرات حقیقی معنوںمیں نہیں پہنچ رہے۔ جس سے یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہتا ہے کہ ''کیا پاکستانی معیشت واقعی ترقی کر رہی ہے؟‘‘۔