پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ زرخیز زمینیں‘ بہترین آب و ہوا‘ نہری نظام اور زمینی پانی کی سطح مناسب ہونے کے علاوہ ہزاروں ایسی نعمتیں ہیں جو دنیا کے کئی ترقی یافتہ ملکوں کے پاس نہیں‘ مگرباوجود اس کے ان ممالک کی زرعی اجناس کی کوالٹی اور برآمدات پاکستان سے بہتر ہیں۔ آپ پاکستانی چاول کی مثال ہی لے لیجیے‘ ایک وقت تھا کہ پاکستانی باسمتی چاول دنیا بھر میں برآمد ہوتا تھا‘ بین الاقوامی منڈیوں میں ڈیمانڈ اور سپلائی کا ہر وقت گلہ رہتا تھا‘ کسان منہ مانگی قیمت وصول کرتے تھے اور پاکستانیوں کو بھی بہترین چاول کھانے کے لیے میسر آتا تھا‘ لیکن چند سالوں میں حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ 2010ء میں پاکستانی چاول کی سالانہ برآمد تقریباً تین ارب ڈالر سے زیادہ ریکارڈ کی گئی تھی جو کہ وقت کے ساتھ کم ہو کر اب تقریباً دو ارب ڈالر رہ گئی ہے۔ وقت کے ساتھ کود بدلنا ارتقا کے لیے ضروری ہے‘ اس کی مثال موبائل بنانے والی ایک بڑی کمپنی کے عروج و زوال سے دی جاسکتی ۔ جب دنیا میں موبائل فون متعارف کروایا گیا تو اس کمپنی کے بنائے ہوئے موبائل سیٹ کا کوئی ثانی نہ تھا۔ شاید ہی کوئی موبائل استعمال کرنے والا شخص ہو جس نے اس کمپنی کا بنایا ہوا موبائل نہ خریدا ہو یا خریدنے کی خواہش کی ہو۔ افغانستان سے لے کر امریکہ تک ہر جگہ اسی کی دھوم تھی‘لیکن آج اس کمپنی کا مارکیٹ میں نام لینے والا کوئی نہیں ہے۔ آپ نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا کی سب سے زیادہ کامیاب کمپنی کیوں تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی؟ اگر آپ تحقیق کریں تو جلد ہی اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے کہ مذکورہ کمپنی کی ناکامی کی بڑی وجہ ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر توجہ نہ دینا تھا؛چنانچہ آپ کامیاب کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور ہر وقت اپنی اہمیت برقرار رکھنے کے خواہش مند ہیں تو ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر کام جاری رکھیں۔ جیسے ہی نئی ٹیکنالوجی دنیا میں متعارف ہو اسے ہر قیمت پر اپنا لیں۔ پرانے لوگوں کو بدل کر نئے لوگ رکھنا پڑیں تو رکھ لیں۔ جو لوگ نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ چلنے میں رکاوٹیں پیدا کریں انہیں راستے سے ہٹا دیں اور اپنا راستہ صاف کرلیں ورنہ آپ کا حال پاکستانی باسمتی چاول جیسا ہوتے دیر نہیں لگے گی۔
آج دنیا میں ہندوستان کا 'باسمتی‘ چاول بک رہا ہے۔ پاکستانی کسان ایک ایکڑ پر بمشکل ستر من باسمتی حاصل کر پاتا ہے جبکہ ہندوستانی کسان فی ایکڑ ایک سو بیس من پیداوار حاصل کر رہا ہے۔ چند سال پہلے تک یہ اعدادوشمار الٹ تھے۔ ہندوستان کی کامیابی کی وجہ یہ ہے کہ وہاں پچیس سے زائد یونیورسٹیاں چاول کی کاشت کو بہتر بنانے کے لیے تحقیقات کر رہی ہیں جبکہ پاکستان میں شاید پانچ ادارے بھی نہیں ہیں جو صحیح معنوں میں یہ کام کررہے ہوں۔ بیرون ملک جو پاکستانی چاول درآمدکرکے بیچتے تھے ان کا کہنا ہے کہ ہم ہندوستانی باسمتی چاول درآمد کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ کسٹمر ہندوستانی باسمتی کی ڈیمانڈ کرتا ہے۔ اگر تحقیق کی جائے تو یہ بات سامنے آئے گی کہ ہندوستان یورپ میں اپنا چاول برآمد نہیں کر سکتا کیونکہ وہ یورپین کوالٹی سٹینڈرڈز کے مطابق نہیں ہے۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ ہندوستان جو کیمیکلز استعمال کرتا ہے وہ انسانی جان کے لیے نقصان دہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان تقریباً چار ملین ٹن چاول سالانہ برآمد کرتا ہے۔ یورپ کی مارکیٹ میں کل برآمدات کا 9.5 فیصد استعمال ہوتا ہے‘ جہاں بھارت ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتا‘لیکن باقی 90.5 فیصد برآمدات میں بھارت ہمارے راستے کی رکاوٹ بنتا جا رہا ہے۔ ان مسائل کے باوجود گلف میں پاکستانی چاول کو چھوڑ کر ہندوستانی چاول بیچا جا رہا ہے جو کہ اس بات کا واضع ثبوت ہے کہ ہندوستان نے گلف کے کوالٹی معیار کو قائم رکھا ہوا ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ چین اپنے چاول کی ضرورت ہندوستان سے پوری کرتا ہے۔ پہلے پاکستانی چاول چین برآمد کیا جاتا تھا لیکن اب شدید اختلاف کے باوجود چین کے تاجر ہندوستان سے چاول خرید رہے ہیں‘ کیونکہ انہیں انڈین باسمتی چاول پاکستان کی نسبت کم ریٹ پر اور بہترین کوالٹی پر مل رہا ہے۔ پاکستانی کسان ہائبرڈ بیج استعمال کر رہے ہیں جس کی پیداوار ایک سو بیس من فی ایکڑ ہے۔ زیادہ پیداوار کی وجہ سے انہیں پیسے بچ جاتے ہیں جبکہ باسمتی کاشت کر کے جیب سے پیسہ جاتا ہے اور کوئی فائدہ حال نہیں ہو پاتا۔اس حوالے سے جب رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے سینئر وائس چیئر مین فیصل جہانگیر سے بات چیت ہوئی تو انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے رائس ایکسپورٹ کو صنعت کا درجہ دیا جائے۔ اس کی علیحدہ وزارت قائم کی جائے جو ہمارے مسائل سنے اور انہیں حل کرے۔ پاکستان میں کالا شاہ کاکو رائس انسٹیٹیوشن 1926ء میں قائم ہوا تھا‘ جس کا مقصد پاکستان میں چاول کی کاشت کو بہتر بنانا ہے‘ لیکن بدقسمتی سے کوئی ایک بھی قابل ذکر ایسا کام نہیں ہے جو اس ادارے نے چاول کی کاشت اور برآمدات کی بہتری کے لیے کیا ہو‘ بلکہ اس ادارے کی اپنی حالت اتنی خستہ ہے کہ اندر داخل ہونے کی بھی ہمت نہیں ہوتی۔ پچھلے پندرہ سال سے پاکستان ایک بھی نیا سیڈ متعارف نہیں کروا سکا۔ اُن کے مطابق حکومت نے ساری مراعات ٹیکسٹائل سیکٹر کو دے دی جاتی ہیں جو کہ حکومتی امداد کے بعد دو ارب ڈالر کی برآمدات بڑھانے کا دعویدار ہے جبکہ رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان حکومتی امداد کے بغیر سالانہ دو ارب ڈالرز سے زائد کے چاول برآمد کرتا ہے۔ اگر اس میں افغانستان میں بغیر کاغذات کے ہونے والی تجارت بھی شامل کر لی جائے تو یہ رقم ساڑھے تین ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اگر حکومت پاکستان ٹیکسٹائل سیکٹر کی طرح رائس ایکسپورٹرز کو بھی بجلی اور دیگر اخراجات میں سبسڈی دے تو یہ برآمدات دو گنا سے زائد بڑھائی جا سکتی ہیں۔ اس وقت ہندوستان کے چاول کا ریٹ پاکستان سے کم ہے ‘وہ پاکستان کے کلائنٹس کے ساتھ دیر پا معاہدے کر رہا ہے۔ اگر حکومت نے بروقت اس ایشو پر توجہ نہ دی تو اگلے سال دو ارب ڈالر کی یہ برآمدات ڈیڑھ ارب ڈالرز تک رہ سکتی ہیں‘ جس کی ذمہ داری حکومت پر ہو گی۔ فی الحال برآمدات کم ہونے کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چاول سستا ہونے کی خبریں گردش کر رہی ہیں بلکہ اس سال بھی خریداری کا ریٹ پچھلے سال کی نسبت کم ہے۔
قارئین‘ ضروری نہیں کہ بڑے مسائل کے حل بھی بڑے ہوں۔ اکثر اوقات بڑے مسائل چھوٹے وسائل سے بھی حل ہو جاتے ہیں‘ ضرورت صرف نیت کی ہوتی ہے۔ پاکستانی باسمتی چاول کی پیداوار بڑھانے اور ہندوستانی چاول کی مانگ کو کم کرنے کے لیے دو تجاویز پر کام کیا جاسکتا ہے۔ فوری ایکشن کے لیے ایکسپورٹرز کو سبسڈی دی جائے تا کہ مارکیٹ ہاتھ سے نہ نکل جائے ۔ دیرپا حل کے لیے کالا شاہ کاکو رائس انسٹیٹیوشن کو فعال کیا جائے اور خصوصی طور پر پنجاب کے 34 اضلاع میں رائس ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ سنٹرز قائم کیے جائیں۔ بڑے اضلاع میں بیرون ملک سے ماہرین کو بلا کر ان کی سربراہی میں ٹیمیں تشکیل دی جائیں‘ حکومت اس کے لیے فنڈز کا بندوبست کرے اور نجی سیکٹر کو بھی اس میں شامل کرے۔ چاول کی صنعت کا ایک گروپ ہر سال اپنے خرچ پر ٹیموں کو ریسرچ کے لیے چین بھیج رہا ہے جو کہ واپس آکر مقامی کسانوں کی تربیت کرتے ہیں‘ یہ عمل حوصلہ افزا ہے لیکن ملکی سطح کے فائدے حاصل کرنے اور ہندوستان کے مقابلے میں اپنا چاول بیچنے کے لیے سرکاری سطح پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔حکومت سے گزارش ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے تاکہ مستقبل میں چاول کے کسان اور ایکسپورٹرز کا حال کپاس جیسا نہ ہو۔ یاد رہے کہ ایک وقت میں پاکستان کپاس برآمد کر رہا تھا لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ ملکی ضرورت پوری کرنے کے لیے کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ اب مستقبل میں پاکستان کی آمدن برآمدات پر منحصر ہو گی یا نہیں اس کا فیصلہ حکومتی پالیسی کرے گی۔