پی ڈی ایم نے لاہور میں جلسہ کر کے اپنی ضد پوری کر ہی لی۔میری نظر میں ''آر یا پار‘‘ کے نام سے مشہور ہونے والا یہ مجمع تالاب کے پانی کی طرح ساکت تھا۔ یاد رکھیے کہ جلسے اور مجمعے میں فرق ہوتا ہے۔جلسے پُرجوش ہوتے ہیں، ان میں روح ہوتی ہے۔عوام آگے اور لیڈر پیچھے ہوتے ہیں۔ عوام لیڈران کو ساتھ لے کر چلتے ہیں۔ عوام ہی تعین کرتے ہیں کہ اس کی سمت کیا ہونی چاہیے جبکہ مجمع بے حس و ساکت ہوتا ہے جس کی کوئی سمت نہیں ہوتی بے جان اوربے حرکت ۔اپوزیشن کا دعویٰ تھا کہ اس میں سمندری طوفان جیسی جھلک دکھائی دے گی لیکن نہ ہی سمندر کا احساس ہوا اور اور نہ ہی طوفان کا 'ط‘ دکھائی دیا۔ حکومت کی حکمت عملی بھی اس بار بہتر تھی۔ اس سے قبل جلسوں میں کیا ضرورت تھی اپوزیشن کو روکنے کی؟ آنے دو اور آزمانے دو۔ دیر سے ہی سہی لیکن سرکار کو یہ سمجھ آ گیا کہ پنجاب کی سیاست مزاحمت کے گرد گھومتی ہے۔ جتنی زیادہ مزاحمت اتنا ہی زیادہ مجمع۔ ویسے بھی انسانی فطرت ہے کہ وہ کام زیادہ کیا جاتا ہے جس سے منع کیا جائے۔ ملتان جلسے میں غلط انتظامی حکمت عملی نے روح پھونکی تھی البتہ لاہور میں حالات بہتر رہے بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے جلسہ شروع ہونے سے پہلے مینارِ پاکستان کی گرائونڈ میں سے موجود بارشی پانی خشک کروانے کاخصوصی اہتمام کیا۔ اپوزیشن کے جو دوست حکومت میں بیٹھے ہیں انہوں نے مشورے بھی دیے کہ اپوزیشن کی قیادت کو تین ماہ کے لیے نظر بند کر دیا جائے، حالانکہ یہ اقدام ایک مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کے مترادف تھا۔ وہ تو بھلا ہو شاہ محمود قریشی کا جنہوں نے خان صاحب کو مشورہ دیا کہ انہیں کھل کر جلسہ کر لینے دیں۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ ن لیگ کی سینئر قیادت مریم نواز کے ساتھ نہیں چل سکتی، دوسرا یہ کہ نواز شریف جس طرح ملک سے فرار ہو کر اور اپنے بیانات سے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچا چکے ہیں‘ اب پارٹی ورکرز ان کے پیچھے کھڑے ہونے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔ حکومت نے جلسے کے لیے اپوزیشن کو فری ہینڈ دیا، کسی ورکر کو گرفتار نہیں کیا، راستے بند نہیں کیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جب نواز شریف کی تقریر شروع ہوئی تو آدھے لوگ گھروں کو جا چکے تھے اور جلسہ گاہ تقریباً خالی ہو چکی تھی۔ اس جلسے میں سیاسی ورکرز تو موجود تھے لیکن عام عوام نہیں تھے۔ جلسہ گاہ میں کوئی لکڑیوں کو آگ لگا کر بیٹھا تھا تو کوئی تقاریر سننے کے بجائے آپس کی گپ شپ میں مشغول تھا۔ کوئی سگریٹ سلگا رہا تھا اور کوئی کرسیاں چوری کرنے کا منتظر تھا۔ قیادت سٹیج پر کھڑی کیا کہہ رہی تھی‘ کسی کو کوئی پروا نہیں تھی۔ خیر‘ جو ہوا بہتر ہوا۔ حکومت بظاہر مضبوط ہوئی ہے جس سے سرمایہ کاروں میں تھوڑا اطمینان آیا ہے کہ پالیسی میں مستقل مزاجی رہے گی۔ سٹاک ایکسچینج ساڑھے تین سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔ خیر‘یہ معاملات تو چلتے رہیں گے فی الحال بات کرتے ہیں 2020ء میں ہونے والی برآمدات اور ان کے پاکستانی معیشت پر پڑنے والے اثرات کی۔
برآمدات کسی بھی معیشت کی جان ہوتی ہے۔ ہم جس دور میں زندہ ہیں وہاں اپنی اشیا دوسرے ملکوں کو بیچے بغیر خوشحالی ناممکن ہے۔ کوئی ایک ملک اپنی ضرورت کی تمام اشیا پیدا نہیں کر سکتا۔ کسی بھی ملک میں یہ سکت نہیں ہے کہ وہ اپنی ضرورت کی تمام چیزیں اپنے ہی ملک میں تیار کر سکے۔ اگر کہیں گوشت کی پیداوار بہتر ہے تو دوسرے ملک میں گندم کی پیداوار بہتر ہے۔ اگر کوئی ملک اسلحہ بنانے میں ماہر ہے تو دوسرا ملک گاڑیاں بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ کسی کے پاس فیکٹریاں زیادہ ہیں تو کسی کے پاس سستی لیبر موجود ہے۔ کسی کے پاس پہاڑ ہیں تو کسی کے پاس خوبصورت ساحل ہیں۔ کسی کے پاس خوبصورت جھیلیں ہیں تو کسی کے پاس لاکھوں میل تک پھیلے باغات ہیں۔ کسی کے پاس تاریخی مقامات ہیں تو کسی کے پاس چاند پر جانے والی شٹل ہیں۔ فارمولا یہ ہے کہ جس ملک کے پاس جو چیز دوسرے ممالک سے بہتر ہے‘ وہ اسے اپنی مرضی کے ریٹ پر فروخت کرتا ہے اور حاصل ہونے والے زرمبادلہ سے عوام کی ضرورتیں پوری کرتا ہے کیونکہ اپنے ہی ملک کے لوگوں کو سب کچھ بیچ کر حکومتی نظام نہیں چلایا جا سکتا۔ عوام کا پیسہ عوام میں ہی رکھ کرآگے بڑھنا کافی مشکل عمل ہے۔ جب تک دوسرے ملکوں کی عوام کا پیسہ اُن کی جیبوں سے نکال کر اپنے ملک میں نہیں لایا جائے گا‘ آمدن نہیں بڑھے گی اور ملکی حالات بہتر نہیں ہوں گے۔ اگر پاکستان کی بات کی جائے تو نومبر 2019ء میں پاکستان کی برآمدات تقریباً دو راب ڈالر تھیں۔ جو اس سال یعنی نومبر 2020ء میں 7.2 فیصد بڑھی ہیں۔ پورے سال میں یہ اعدادوشمار حوصلہ افزا نہیں رہے۔ ایک ماہ میں تو ملکی برآمدات 1.3 بلین ڈالر سے بھی نیچے آ گئی تھیں گو کہ اس کی وجہ کورونا تھی لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ کورونا نے پاکستانی معیشت کو باقی ممالک کی نسبت کم نقصان پہنچایا ہے۔ ایک مہینے کے لاک ڈاؤن کے بعد حکومت کو یہ احساس ہو گیا کہ اس سے غلطی ہوئی ہے، معیشت کو بند کر کے ملک نہیں چلایا جا سکتا۔ حکومت نے کورونا کے دنوں میں ایمنسٹی سکیمیں متعارف کروائیں، کنسٹرکشن سیکٹر کو مراعات دیں، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کیں۔ بھارت اور چین میں کورونا کیسز زیادہ ہونے کی وجہ سے ان کی برآمدات بند ہوئیں تو ان کے کینسل کردہ آرڈرز بھی پاکستان کو ملنے لگے۔
پاکستانی برآمدات میں ٹیکسٹائل سیکٹر پہلے نمبر پر آتا ہے۔ جب دنیا کورونا کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھی تب پاکستانی ٹیکسٹائل سیکٹر اپنی مکمل کیپسٹی پر کام کر رہا تھا۔ حکومت نے ٹیکسٹائل شعبے کو مراعات دیں۔بجلی کے نرخ کم کر کے بین الاقوامی ریٹ کے مطابق کیا گیا۔ ٹیکس ریفنڈ میں تیز عمل متعارف کرایا گیا لیکن اس کے باوجود بھی ٹیکسٹائل برآمدات میں وہ بہتری دکھائی نہیں دی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ اگرتمام پہلوئوں پر نظر ڈالی جائے تو ہم یہ جان سکیں گے کہ جس ٹیکسٹائل شعبے کو بہتر بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں‘ اس انڈسٹری میں خام مال کے طور پر استعمال ہونے والی پروڈکٹ یعنی کپاس کی پیداوار 2020ء میں کم ہوئی ہے۔ کبھی کپاس پاکستان کی بہترین فصلوں میں شمار ہوتی تھی، فی ایکڑ پیداوار چین اور بھارت سے بہتر تھی اور کپاس کا کسان خوشحال تصور کیا جاتا تھالیکن اب کسان نے کپاس کی فصل چھوڑ کر دوسری اجناس اگانا شروع کر دی ہیں کیونکہ فی ایکڑ پیداوار اتنی کم ہے کہ پیسے آنے کے بجائے جیب سے نکلتے ہیں اور آخر میں فائدے کے بجائے نقصان ہوتاہے۔
حکومت یہ دعویٰ کرتی ہے کہ انٹرنیشنل مارکیٹ میں کپاس کا جو ریٹ بھارت اور چین کو مل رہا ہے‘ وہی ریٹ پاکستان کو بھی مل رہا ہے لیکن اس حقیقت پر بات کرنے کو تیار نہیں کہ بھارت کی فی ایکٹر کپاس کی پیداوار پاکستان کی نسبت پچاس فیصد زیادہ ہے۔لہٰذا اب آسان حل یہ تلاش کیا گیا ہے کہ کپاس کی درآمدات کرو اور اپنی ضرورت پوری کرو۔کوئی اہلِ منصب سے یہ پوچھنے والا نہیں کہ کپاس کی پیداوار بہتر کرنے کے لیے حکومت نے کیا اقدامات کیے؟ کتنے ریسرچ سنٹرز قائم کیے گئے؟ پیداوار بڑھانے کے کتنے تجربات کیے گئے؟ کتنے بیج متعارف کروائے گئے؟ کتنے ماہرین کو بیرونِ ملک سے مدعو کیا گیا؟ بھارت اور پاکستان ہمسایہ ممالک ہیں‘ ایک جیسی زمین،ایک جیسی آب وہوا ۔ پھر بھارت کی پیداوار پاکستان سے بہتر کیسے ہو گئی؟ درآمد کر کے پھر برآمد کرنا بالکل بھی سود مند ثابت نہیں ہو سکتا۔ یہ عمل خود کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔اگر سب سے زیادہ زرمبادلہ دینے والے شعبے پر حکومت کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے تو باقی سیکٹرز سے کیا امید کی جاسکتی ہے؟ اس سال نجی شعبے نے اپنی مدد آپ کے تحت کپاس کی فصل پر ریسرچ کی ذمہ داری لی ہے‘ وہ کیا اقدامات ہیں اس کا ذکر اگلے کالم میں۔ (جاری)