ملکی سیاسی حالات میں تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ گزشتہ دنوں خواجہ آصف کو آمدن سے زائد اثاثوں کے کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز صاحبہ نے کہا کہ خواجہ آصف کو چھوڑنا پڑے گا ورنہ بہت سخت ردعمل آئے گا۔ سوال یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ردعمل کیا ہو گا؟ اپوزیشن کے پاس آخری حد میں استعفوں کے علاوہ کیا آپشن ہے؟ اور استعفوں کی صورتحال یہ ہے کہ جن دو ارکان کے استعفے سپیکر کے پاس جمع ہوئے تھے انہوں نے سپیکر کے سامنے پیش ہو کر تحریری درخواست دے دی ہے کہ ہمارے استعفے منظور نہ کیے جائیں۔ یہ تو حال ہے اس منقسم اپوزیشن کا۔ جن استعفوں سے حکومت کو ڈرایا جا رہا تھا‘ اپوزیشن ارکان ان کے لیے ہی تیار نہیں ہیں۔ اب مزید آخری حد کیا ہو گی؟ حقیقت یہ ہے کہ مسلم لیگ کے اپنے لیڈرز نجی محفلوں میں بیٹھ کر کہہ رہے ہیں کہ میاں صاحب خود تو باہر بیٹھے ہیں اور یہاں ہمیں گرفتار ہونے اور مستعفی ہونے کی نصیحتیں کر رہے ہیں۔ اپنی سیاست کو زندہ رکھنے کی حد تک اپوزیشن کی تحریک ٹھیک ہے لیکن دعوے وہ کرنے چاہئیں جنہیں پایہ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔ دوسری بات یہ کہ حکومت نے پروپیگنڈا کر کے عوام کی ایسی ذہن سازی کر دی ہے کہ اگر آپ اپوزیشن لیڈران خود بھی لوگوں کے گھروں میں جا جا کر انہیں یقین دلائیں کہ وہ کرپٹ نہیں تو لوگ نہیں مانیں گے۔ یہ بات تو خود ان سیاسی جماعتوں کے ورکرز بھی تسلیم نہیں کرتے تو عوام سے کیا توقع ہے؟ اپوزیشن کی دوسری بڑی جماعت پیپلز پارٹی میں بھی اکثریت استعفے دینے کو تیار نہیں اور جلسوں میں اپوزیشن لوگ اکٹھے کرنے سے قاصر ہے‘ ایسے میں حکومت پر دبائو کیسے بڑھایا جائے گا؟ ان حالات میں یہی دعا کرنی چاہیے کہ حکومت سے کوئی فاش غلطی سرزد ہو تاکہ اپوزیشن کی لاٹری نکل آئے لیکن اس میں بھی یہ مشکل درپیش ہو گی کہ اگلی حکومت کون بنائے گا کیونکہ بیک وقت کئی امیدوار شیروانی پہننے کو تیار بیٹھے ہیں۔ خیر یہ تو سیاسی معاملات ہیں‘ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے آنے والے دنوں میں اندازہ ہو جائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ اپوزیشن کی اس ہلڑ بازی سے کاروباری معاملات اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اوّل تو موجودہ تناظر میں استعفوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے لیکن اگر کسی طور استعفے آ بھی گئے تو ممکن ہے حکومت کو فرق نہ پڑے اور اپوزیشن میں فارورڈ بلاک بن جائے؛ تاہم ایک بات طے ہے کہ سٹاک ایکسچینج نیچے آ جائے گی اور کاروباری طبقہ سرمایہ کاری روک لے گا۔کسی بھی ملک کی معیشت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ ملک میں امن و استحکام کاروبار کے لیے آکسیجن کا کام کرتا ہے۔ سیاسی معاہدے ہی تجارتی معاہدوں کو جنم دیتے ہیں۔ جس ملک میں اچھی سیاست ہوتی ہے وہی ملک دیر پا پالیسیاں بناتے اور ترقی بھی کرتے ہیں۔
اگر 2020ء کی بات کی جائے تو پاکستان کے کئی ممالک سے تجارتی تعلقات بہتر ہوئے ہیں جن میں افغانستان سرفہرست ہے۔ پاک افغان تجارت سے پاکستانی مڈل کلاس کا روزگار جڑا ہوا ہے۔کسانوں کی آمدن کا بڑا ذریعہ پاک افغان تجارت ہے۔ اس سال متعدد افغان وفد پاکستان آئے اور تجارتی معاہدوں پر پیشرفت ہوئی۔ پھر پاکستانی وفد وفاقی مشیر برائے سرمایہ کاری رزاق داؤد صاحب کی قیادت میں افغانستان پہنچا۔ برف پگھلی اور بعد ازاں وزیراعظم عمران خان نے بھی افغانستان کا دورہ کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم صاحب نے اعلان کیا کہ پاکستان افغانستان کی ہر ممکن مدد کرے گا۔ اس دورے کے دوران کاروباری پہلوئوں پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ افغانستان میں ترکمانستان، تاجکستان اور ازبکستان کی سرحدوں تک پاکستانی ٹرکوں کی رسائی نہ ہونا ہے۔ 2017ء سے پہلے پاکستانی ٹرک ان ممالک کے بارڈرز تک چلے جاتے تھے جس سے تجارتی سامان خصوصاً زرعی اجناس کی کوالٹی بھی خراب نہیں ہوتی تھی لیکن 2017ء میں افغانستان نے پاکستانی ٹرکوں کے افغانستان میں داخلے پر پابندی لگا دی‘ اب ٹرکوں کو افغان بارڈر پر روک کر آف لوڈ کیاجاتا ہے اور تمام سامان افغان ٹرکوں پر لادا جاتا ہے۔ افغان ڈرائیور یہاں سے سامان مطلوبہ بارڈرز تک لے کر جاتے ہیں۔ اس پراسیس سے ایک طرف پاکستان کافی مشکلات کا شکار ہو رہا تھا تو دوسری جانب زرعی اجناس بھی بڑی مقدار میں تلف ہو رہی تھیں۔ اس لیے حکومت نے افغان حکومت سے درخواست کی کہ یہ پابندی ہٹائی جائے۔ اس کے بدلے افغانستان نے افغان ٹرکوں کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں تک رسائی دینے کا مطالبہ پیش کیا۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ پاکستان میں دہشت گردی کے پیش نظر افغان ٹرکوں کی آمدورفت بند ہے اور حکومت افغانستان سے آنے والے ہر ٹرک کو بارڈر پر آف لوڈ کر کے پاکستانی ٹرکوں پر سامان لاد کر مطلوبہ مقامات تک پہنچاتی ہے؛ تاہم اب دونوں اطراف سے برف پگھلی ہے اور پابندیوں میں نرمی لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو پاکستانی زرعی اجناس کی برآمدات بڑھ سکتی ہیں اور مقامی کسان خوشحال ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ افغان گاڑیوں کے سپیئر پارٹس اور سگریٹ وغیرہ سمگلنگ کے اعتبار سے پاکستان کی منفی لسٹ میں شامل ہیں جنہیں ختم کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا گیا ہے۔ اس وقت پاکستان میں پہلے ہی گاڑیوں کی قیمتیں بہت بڑھ چکی ہیں اور عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہو گئی ہیں ان حالات میں سپیئر پارٹس پر پابندی سے پاکستان میں گاڑیوں کے پارٹس مزید مہنگے ہو گئے ہیں اور دونوں اطراف کے تاجر بھی پریشان ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اس سارے عمل کو ضابطے میں لا کر جلد پابندی ختم کر دی جائے گی جس سے دونوں اطراف روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور حکومت کو بھی ٹیکس آمدن حاصل ہو سکے گی۔ اب یہ لین دین رجسٹرڈ ہو گا اور کسٹم ڈیوٹی کی ادائیگی کے بعد ہی سامان پاکستان میں داخل ہو سکے گا۔ پاک افغان تجارت میں سب سے بڑا مسئلہ سمگلنگ ہے۔ جو سامان افغانستان برآمد کیا جاتا ہے اس کی بڑی مقدار بارڈر پر ہی مقامی کرنسی میں بیچ دی جاتی ہے۔ فائلوں کا پیٹ کاغذوں اور مہروں سے بھر دیا جاتا ہے۔ اس عمل کا نقصان حکومت کو ہوتا ہے کیونکہ برآمدات کا مقصد ملک میں غیر ملکی سرمایہ لے کر آنا ہوتا ہے جبکہ اس پراسیس سے غیر ملکی سرمایہ ملک میں نہیں آ رہا۔ بارڈر سمگلنگ کو روکنے کیلئے پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ اس کے علاوہ دونوں اطراف کی حکومتوں نے سرحدی تجارت کو مضبوط بنانے کیلئے جدید کمپیوٹرائزڈ نظام نصب کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی افغانستان کو سالانہ رجسٹرڈ برآمدات دو بلین ڈالر ہیں‘ اگر غیر رجسٹرڈ برآمدات کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ حجم ساڑھے تین بلین ڈالر سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ کم و بیش ڈیڑھ بلین ڈالر کی تجارت کا کاغذات اور اکانومی میں ظاہر نہ ہونا یقینا نااہلی اور نالائقی ہے جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔
غیر رجسٹرڈ تجارت میں حکومت کو دھوکا دینے کے لیے باقاعدہ ایک نظام وضع کیا گیا ہے جس کے ذریعے پاکستانی اور افغان تاجر مل کر پاکستان میں کمپنی کھولتے ہیں جس کے ذریعے افغانستان سامان بھیجا جاتا ہے لیکن رقم کی ادائیگی کے لیے ڈالر کے بجائے افغان کرنسی استعمال کی جاتی ہے۔ بارڈر پار کر کے افغان کرنسی پاکستان بھجوائی جاتی ہے اور ادائیگی بھی افغان کرنسی میں کی جاتی ہے، یا افغان تاجر پاکستانی بینکوں میں پاکستانی کرنسی میں اکائونٹ کھلواتے ہیں اور ٹریڈ کی ادائیگی پاکستانی روپوں میں کی جاتی ہے۔ اس اپروچ کے ساتھ ڈالر کی پاکستان آمد مشکل دکھائی دے رہی تھی لیکن اب چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو مضبوط کر کے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم صاحب کے افغان دورے سے اس مسئلے کے حل کی جانب خاصی پیش رفت ہوئی ہے‘ جس کے اثرات اگلے سال مارچ تک سامنے آ سکتے ہیں۔