محمد علی سدپارہ اور قرض ریلیف

آج عرب ممالک سے ملے ہوئے قرض ریلیف کا ذکر ہو گا مگر اس سے پہلے محمد علی سدپارہ سے متعلق رائے زنی کا ارادہ ہے۔ ''جیون دے لئی مرنا پیندا ‘‘ منو بھائی یاد آگئے۔ کیوں؟ آئیے آپ کو بتاتا ہوں۔
ایک سوال سوشل‘ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر زبان زدِ عام ہے کہ محمد علی سدپارہ مل گئے ہیں یا نہیں؟ عام آدمی اس قدر شش و پنج میں مبتلا ہے کہ جیسے علی سد پارہ کے ساتھ ان کا کوئی ذاتی تعلق ہو۔ لوگ بھی عجیب ہیں‘ جب یہ کوہ پیما کے ٹو کے پہاڑ میں لاپتہ نہیں ہوا تھا اور دنیا کے چودہ بڑے پہاڑوں میں سے آٹھ اس نے سر کر لیے تھے تب یہ محبت کا دعویٰ کرنے والے لوگ کہاں تھے؟ دنیا میں بلند ترین چوٹیاں چودہ ہیں جن کی بلندی آٹھ ہزار میٹر سے زیادہ ہے۔ علی سدپارہ نے ایک سال میں آٹھ ہزار میٹر بلندی والے چار پہاڑ سر کئے تھے۔ تب پاکستانیوں کی چاہت ان کے لیے کہاں تھی؟ قاتل پہاڑ کے نام سے مشہور نانگا پربت کو سخت سردی میں سر کرنے والا وہ دنیا کاپہلاکوہ پیما تھا‘ لیکن پاکستانیوں کو ان کے بارے میں علم ہی نہیں تھا۔ سیاہ چن کے برفیلے پہاڑوں اور منفی پچاس ڈگری درجہ حرارت پر محمد علی سد پارہ پاک فوج کو کھانا اور سامان سپلائی کیا کرتا تھا۔پہاڑوں کا وسیع تجربہ رکھنے کی وجہ سے انہیں رہنمائی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ ملک کے لیے ان کی خدمات ناقابلِ ِفراموش ہیں ‘لیکن کوہ پیمائی سے تعلق رکھنے والے چند لوگوں کے علاوہ انہیں کوئی نہیں جانتا تھا؛چنانچہ آج لوگوں میں ان سے متعلق محبت کے دعوے بھیڑ چال محسوس ہوتے ہیں۔ جیسا ہمارے ملک میں عموماً ہوتا ہے کہ خدمات کا اعتراف اس وقت کیا جاتا ہے جب بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔لاپتہ ہونے کے بعد محمد علی سدپارہ کی شہرت کا عالم یہ ہے کہ اگر آپ محمد علی سد پارہ کا نام لکھ کر یو ٹیوب پر ویڈیو ڈال دیں تو ہزاروں لوگ آپ کی ویڈیوز پر لپک پڑیں گے اور لاکھوں ویوز آسانی سے مل جائیں گے‘ کیونکہ پاکستانی عوام جاننا چاہتے ہیں کہ سدپارہ کس حال میں ہے ۔لوگ ان کے بارے تازہ ترین اطلاعات سے آگاہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق جس جگہ محمد علی سدپارہ لاپتہ ہوا وہ کے ٹو کا ڈیتھ زون کہلاتا ہے‘ جس کی اونچائی آٹھ ہزار دو سو میٹر ہے۔ ایسا علاقہ جہاں سب سے زیادہ اموات ہوتی ہیں۔ وہاں سولہ گھنٹے سے زیادہ رکنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ منفی پچاس ڈگری پر جب سرد ہوائیں چلتی ہیں تو موت سامنے نظر جاتی ہے۔ آکسیجن سلنڈر کے بغیر آپ ایک منٹ زندہ نہیں رہ سکتے۔ اگر سلنڈر ختم ہو جائے تو آپ کی موت یقینی ہے۔ ایک سلنڈر زیادہ سے زیادہ بھی دو سے تین دن نکال سکتا ہے۔ علی سد پارہ کو کے ٹو کے ڈیتھ زون میں لاپتہ ہوئے دس دن گزر چکے ہیں۔ ان کے بیٹے ساجد سدپارہ نے بتایا ہے کہ تین لوگوں کے لیے ایک آکسیجن سلنڈرتھا۔تاہم اس معاملے میں جو لوگ سوشل میڈیا پر سنسنی پھیل رہے ہیں انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
ذہن نشین رکھیں کہ معاشیات دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اگر آپ کسی کی معاشی طور پر مدد نہیں کر سکتے تو پھر چاہے آپ اس کی تعریفوں اور محبت میں زمین آسمان ایک کر دیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ علی سدپارہ جس حادثے کا شکار ہوئے ہیں اس کے پیچھے ایک معاملہ معاشیات کا بھی ہے۔ اس پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ کوہ پیمائی ان کا پیشہ تھا۔ سدپارہ فیملی کے مالی حالات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے خاندان کی مالی معاونت کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم چلائی گئی ہے۔ جہاں ان کی تلاش کے لیے حکومت وسائل استعمال کر رہی ہے وہاں ان کے گھر کی کفالت کے لیے بھی حکومتی توجہ کی ضرورت ہے۔ یہ اصل خدمت ہے جس کی ضرورت ہے۔
آئیے اب ایک نظر قرض ریلیف پر ڈال لیتے ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت نے پاکستان کو دیے گئے قرض کی مدت بڑھا دی ہے۔ سعودی عرب نے 2018ء میں تین ارب ڈالر کیش قرض دیا تھا۔ جس میں سے دو ارب ڈالر واپس کیا جا چکا ہے۔ اس کے بعد بقیہ ایک ارب ڈالر کی واپسی کا مطالبہ کیا جا رہا تھا جس کے باعث پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات سرد مہری کا شکار تھے۔ پہلے دو ارب ڈالر چین سے لے کر واپس کیے گئے تھے‘ اب پھر بندوبست کرنے کی تیاری جاری تھی کہ عین موقع پر سعودی عرب نے غیر سرکاری طور پر پیغام بھیجوادیا کہ قرض کی مدت کو ایک سال کے لیے بڑھا دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے بعد متحدہ عرب امارات نے بھی ایک ارب ڈالر کے قرضوں کی ادائیگی کو فی الحال ایک سال کے لیے مؤخر کیا ہے۔ اس کے علاوہ مارچ 2021ء میں یو اے ای کا مزید ایک ارب ڈالر میچور ہو رہا ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ وہ بھی مزید ایک سال کے لیے مؤخر کر دیا جائے گا۔
عرب ممالک کی مہربانیاں بلاوجہ نہیں ہیں۔ یہاں بھی کچھ دو اور کچھ لو کے اصول کے تحت بات آگے چلتی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پاکستان سعودی عرب کو کیا دے سکتا ہے؟ جواب انتہائی سادہ ہے''سپورٹ‘‘۔ جی ہاں امریکہ میں جو بائیڈن کی حکومت آنے کی بعد سعودی عرب کی مشکلات میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جوبائیڈن نے ایران کے ساتھ 2015ء کے ایٹمی معاہدے کو بحال کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سعودی عرب نے سرکاری بیان جاری کیا ہے کہ ایران معاملے پر امریکہ پہلے سعودی عرب سے مشورہ کرے‘ لیکن امریکہ نے سعودی شاہی بیان کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ پھر سعودی عرب نے اعلان کیا کہ ہماری تمام سرحدوں کی حفاظت کا معاہدہ امریکہ کے ساتھ کریں گے اور منہ مانگی قیمت ادا کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اسلحہ ڈیل بھی بڑھائی جائے گی۔ جوبائیڈن نے خوش آمدید کہا لیکن ساتھ ہی سعودی عرب کو اسلحہ سپلائی کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد امریکہ نے ایران کے حمایت یافتہ یمن کے حوثی باغیوں کو بین الاقوامی دہشت گردوں کی فہرست سے بھی نکال دیا ہے جبکہ جمال خاشگی قتل کیس پھر سے کھولنے کا عندیہ بھی دیا گیا ہے اور نائن الیون واقعہ پر سی آئی سے کی خفیہ رپورٹ کو جاری کرنے کا بھی اشارہ دیا گیا ہے‘ جس میں مبینہ طور پر یہ لکھا گیا ہے کہ نائن الیون واقعے میں سعودی خاندان بھی ملوث تھا۔ ان حالات میں سعودی عرب پر دباؤ بڑھ گیا ہے اور وہ تنہائی کا شکار ہو گیا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں محمد بن سلمان کو کسی اور کی سپورٹ نہیں چاہیے تھی لیکن اب حالات بدل چکے ہیں۔ پاکستان کے بیک وقت امریکہ‘ ایران‘ سعودی عرب اور چین کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ایران اور سعودی میں سے پاکستان جس طرف اپنا ووٹ ڈالے گا وہ پلڑا بھاری ہو گا۔ ممکنہ طور پر سفارتی مدد حاصل کرنے کے لیے عرب ممالک نے قرض مؤخر کیے ہیں۔
پاکستان سعودی عرب کے لیے کتنا مددگار ثابت ہو سکتا ہے اس کاعلم آنے والے دنوں میں ہو جائے گا‘ لیکن یاد رہے کہ قرض مؤخر ہوئے ہیں ختم نہیں۔ آج نہیں تو کل یہ رقم ادا کرنا پڑے گی۔ تین ارب ڈالر یک مشت کیسے ادا ہوں گے‘ اس کے بارے میں آج سے حکمت علمی بنانا ہو گی‘ بصورت دیگر ہم پھر بھیک مانگ رہے ہوں گے اور عرب ممالک ہمیں بلیک میل کر رہے ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں