بھارت میں کسانوں کا احتجاج ابھی تک جاری ہے۔ اگست 2020ء سے فروری 2021ء تک‘ جو نظم اور منصوبہ بندی اس میں نظر آئی ماضی میں اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ یہ توقع نہیں کی جا رہی تھی کہ کسان بالخصوص سکھ کمیونٹی اتنے جمہوری اور منظم انداز میں مہم چلائے گی۔ مقامی ایشو عالمی ایشو بن جائے گا اور مودی سرکار کو ایک مرتبہ پھر پوری دنیا میں ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی طاقت کسانوں کے آگے کھڑی نہیں رہ سکی۔ اگر کسان فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے اپنی زمین پر اناج نہیں اگانا تو حکمران گھٹنوں پر آ جاتے ہیں۔ چاہے سائنس اور ٹیکنالوجی کتنی ہی ترقی کر جائے‘ زمین سے جڑے ہوئے شخص کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتی کیونکہ جان ہے تو جہان ہے۔ اگر آپ زندہ رہیں گے تو ہی سائنس اور ٹیکنالوجی آپ کے کام آئے گی اور زندگی کے لیے خوراک ضروری ہے جو آپ کو کسان ہی پیدا کر کے دیتا ہے۔ مودی سرکار نے اس تحریک میں شدت لانے کی کوشش کی اور اسے کسانوں کے حقوق کی تحریک سے دہشت گرد تحریک میں بدلنے کا منصوبہ بنایا لیکن یہ پلان بری طرح ناکام ہو گیا۔ لال قلعہ پر جس وقت سکھوں نے ''نشان صاحب‘‘ کا جھنڈا لہرایا تو مودی کے گودی میڈیا نے اسے خالصتان کی تحریک سے جوڑ دیا۔ میں بتاتا چلوں کہ ''نشان صاحب‘‘ سکھوں کا مذہبی پرچم ہے۔ یہ خالصتان کا جھنڈا نہیں ہے لیکن مودی نواز شدت پسندوں نے جھنڈا لہرائے جانے کو خالصتان بنانے کا ایجنڈا قرار دے دیا۔ جب تحقیق کی گئی تو یہ علم ہوا کہ جس سکھ گروپ نے لال قلعہ پر جھنڈا لگایا تھا ان کا لیڈر دیپ سدّھو مودی کی پارٹی بی جے پی کا سپورٹر تھا۔ اسے بھارتی اداکار سنی دیول کی پشت پناہی حاصل تھی اور سنی دیول بی جے پی کی ٹکٹ پر پارلیمنٹ کا ممبر ہے۔ جب ساری کڑیاں جوڑی گئیں تو مودی کا مکروہ چہرہ ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے بے نقاب ہوا۔ یوں لگتا ہے کہ بی جے پی سرکار روز ایک نئی سازش رچاتی ہے تاکہ اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے جا سکیں۔
اس وقت بھارت میں گندم کی فصل تیار کھڑی ہے۔ کسانوں نے فیصلہ کیا ہے کہ کچھ لوگ احتجاج میں بیٹھیں گے اور کچھ فصل کی کٹائی کے لیے جائیں گے۔ سرکار نے اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے سٹریٹیجی تیار کی ہے کہ جیسے ہی کسان فصلوں کی کٹائی کے لیے جائیں گے‘ ان کے کیمپ اکھاڑ دیے جائیں گے۔ یہ حکمتِ عملی کسانوں تک بھی پہنچ گی جس پر کسانوں نے اعلان کیا کہ اگر ان کے کیمپ اکھاڑے گئے تو وہ فصلوں کو آگ لگا دیں گے اور نئی فصلیں اگانا بند کر دیں گے۔ اگر ایسا ہو گیا تو بھارت میں جو قحط پڑے گا‘ اس کی دنیا میں پہلے کوئی مثال موجود نہیں ہو گی۔ یہ اعلان بظاہر غیر حقیقی معلوم ہوتا ہے لیکن ہم سب نے دیکھا ہے کہ ابھی تک کسانوں نے جو کہا ہے‘ وہ کر کے دکھایا ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی ٹریکٹر ریلی نکالی گئی، تقریباً دو لاکھ سے زیادہ ٹریکٹر دہلی میں داخل ہوئے اور حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی۔ تین گھنٹوں کے لیے پورے بھارت کی ٹریفک بند کرنے کا اعلان کیا تو تقریباً ڈیڑھ ارب کی آبادی والا بھارت بند ہو کر رہ گیا۔ اس لیے موجودہ اعلان کو جذباتی دعویٰ سمجھ کر جھٹلا نہیں دینا چاہیے بلکہ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ اگر ایسا ہو گیا تو بھارت میں کیا ہو گا۔
اگر بھارت کی معیشت کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ انڈین اکانومی کسانوں کے بل بوتے پر چل رہی ہے۔ بھارت گندم کی برآمدات سے تقریباً سالانہ چالیس ارب ڈالر ریونیو کماتا ہے۔ یہ اضافی گندم ہے جو ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے بعد برآمد کی جاتی ہے۔ اس کی پیداوار کسانوں کی مرہونِ منت ہے۔ دنیا میں کپاس اور اس سے بننے والے کپڑوں میں چونتیس بلین ڈالرز کی سالانہ برآمدات کے ساتھ بھارت تیسرے نمبر پر ہے اور یہ کپاس کسان ہی پیدا کرکے دیتے ہیں۔ اگر چاول کی بات کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بھارت دنیا میں چاول کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ تقریباً سات ارب ڈالر کی سالانہ برآمدات ہیں۔ ویسے تو چین اور بھارت کے تعلقات اکثر خراب رہتے ہیں لیکن چاول چین بھارت سے ہی خریدتا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں باسمتی چاول کا ذکر کریں تو بھارتی باسمتی ہر جگہ نظر آتا ہے۔ تقریباً آدھی دنیا کو چاول بھارت سے برآمد کیا جاتا ہے۔ یہ چاول بھی کسان ہی پیدا کر کے بھارتی سرکار کو دیتا ہے۔ اگر گوشت کی برآمدات کا ذکر کریں تو گائے کا گوشت بیچنے میں بھارت دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے۔ جس گائے کا گوشت کھانے پر بھارت میں مسلمانوں کی گردنیں کاٹ دی جاتی ہیں‘ ہندو تاجر اسی گائو ماتا کو کاٹ کر اس کا گوشت پوری دنیا میں سپلائی کرتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہو گی کہ بھارت میں بیف کے تمام بڑے ایکسپورٹرز ہندو ہیں جو کسانوں سے جانور خریدتے ہیں اور فیکٹریوں میں ان کا گوشت بنا کر باہر بھجوا دیتے ہیں۔ بھارت بیف گوشت کی فروخت سے سالانہ تین ارب ڈالر سے زیادہ کماتا ہے جو کسانوں کے مرہونِ منت ہے کیونکہ جانوروں کو دی جانے والی خوراک کسان ہی پیدا کرتے ہیں اور گائے بھینسوں کی پرورش اور دیکھ بھال بھی کسان ہی کرتے ہیں۔
اگر کسانوں نے اپنے مذکورہ منصوبے پر عمل درآمد شروع کر دیا تو ایک نہایت سنگین معاشی بحران جنم لے سکتا ہے۔ برآمدات بڑھنے کے بجائے درآمدات بڑھ سکتی ہیں اور بھارت میں مہنگائی کا ایک طوفان جنم لے سکتا ہے۔ انڈین روپے کی قدر گر سکتی ہے اور بے یقینی کی صورتحال کے باعث بیرونی سرمایہ کاری رک سکتی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اگر سکھ کسان فصل نہیں اگائیں گے تو بھارت کے دوسرے زرخیز علاقوں سے مطلوبہ ضرورت پوری کی جا سکیں گی لیکن عملی طور پر ایسا شاید ممکن نہیں ہو سکے گا کیونکہ اس تحریک میں صرف پنجاب اور ہریانہ کے سکھ کسان ہی شامل نہیں ہیں بلکہ راجن پور اور شمالی بھارت سمیت تمام کسان تنظیمیں اس احتجاج کا حصہ ہیں۔ پہلے یہ تحریک صرف سکھوں کی تھی اب اس میں مسلمان، عیسائی، پارسی سمیت تمام مذاہب اور ذاتوں کے لوگ شامل ہو چکے ہیں کیونکہ یہ قوانین کسی ایک صوبے سے متعلق نہیں ہیں بلکہ پورے انڈیا کے لیے ہیں اور ان کی مخالفت اس لیے جاری ہے کہ یہ کسانوں کو معاشی طور پر کمزور اور مودی کے دوست مکیش امبانی کو طاقتور کریں گے۔
اپنے دوستوں کو نواز نے کے لیے بھارت کا معاشی قتل کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے رافیل طیارے خریدنے اور ان کی دیکھ بھال کے لیے جس کمپنی کو کنٹریکٹ دیا گیا تھا‘ وہ بھی امبانی کی تھی۔ حالات کے پیش نظر کچھ کسانوں سے زمینیں سستے داموں خریدنے کے لیے رابطے بھی شروع کرنے کی اطلاعات ہیں جو فلسطین اور کشمیر والا ماڈل ہے۔ پہلے حالات ایسے پیدا کرو کہ غربت آ جائے، پھر زمینیں سستے داموں خرید لو، مقامی آبادی پر ظلم کرو، اپنے لوگوں کی تعداد بڑھائو، نئے رہنما کھڑے کرو اور سیاسی فتح حاصل کر لو لیکن مودی سرکار خوب جانتی ہے کہ سکھ کسانوں کو بیرونِ ملک سے سکھ تنظیمیں ڈالرز بھجوا رہی ہیں اور کسان اپنے زندہ رہنے کے لیے اناج تو اگا ہی لیں گے۔ اس ساری صورتحال سے اگر کوئی ممکنہ طور پر فائدہ اٹھا سکتا ہے تو وہ پاکستان اور دوسرے ممالک ہیں۔ بھارتی چاول کی سپلائی کم ہونے سے گلف اور چین کی مارکیٹ پاکستان کے لیے آسان ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ یورپ میں پاکستانی باسمتی چاول کی فروخت بڑھ سکے گی۔ ایک مرتبہ بیرونِ ملک ڈسٹری بیوٹر اگر ہاتھ سے نکل جائے تو واپس لانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے کیونکہ نئے معاہدے کئی سالوں کے لیے ہوتے ہیں‘ چند دنوں کے نہیں۔ بزرگ کہتے ہیں کہ اپنی ترقی کے لیے دشمن کی تباہی کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ بات درست ہے لیکن اگر حالات خود اس طرف مڑ رہے ہوں تو کوئی کیا کر سکتا ہے؟