پاکستان اور چین کے تعلقات ہمیشہ مثالی رہے ہیں۔ دونوں اطراف سے ہمیشہ یہی کوشش کی گئی کہ ایک دوسرے کے مفادات کا ہر ممکن تحفظ کیا جائے۔ اگر کسی جانب سے کبھی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا بھی گیا تو دوسری جانب سے اسے کھلے دل سے برداشت کیا گیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یہ دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جا رہی ہے۔تحریک انصاف کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں سی پیک کے حوالے سے کچھ وزرا کے چند بیانات سامنے آئے اور عملی طور پر بھی اس پروجیکٹ پر کام سست روی کا شکار رہا۔ اس پر چینی حکومت میں تشویش پیدا ہوئی لیکن دوطرفہ اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنے دیا گیا۔ اس کے بعد پاکستان نے چین سے قرض مانگا‘ وہ بھی مل گیا بلکہ جتنا مانگا اس سے زیادہ ہی ملا۔ یہ بات اس وقت کے وزیر خزانہ اسد عمر نے میڈیا کو بتائی کہ ہم جتنا سوچ کر گئے تھے‘ اس سے زیادہ ڈالر ملے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ عمران خان کی کریڈیبلٹی تھی ۔ یہ بات بھی کسی حد تک درست ہے لیکن چین نے دوستی کا جو حق ادا کیا‘ وہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ جب پاکستان کو چھ بلین ڈالر کے لیے آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو سی پیک کے معاہدے کی تفصیلات طلب کی گئیں۔ پاکستان نے وہ آئی ایم ایف کو دے دیں لیکن چین نے تعلقات خراب نہیں کیے۔ پھر سعودی عرب کو قرض واپسی کے لیے دو ارب ڈالر کی ضرورت پڑی تو وہ بھی چین نے پاکستان کی جھولی میں ڈال دیے۔ سٹریٹیجک تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے اب چین پارکو کوسٹل ریفائنری میں 9 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ آفر پاکستان کی طرف سے کی گئی جس پر چین نے عمل درآمد کا عندیہ دیا ہے۔ پاکستان چین دسویں جے سی سی میٹنگ کے لیے اس پروجیکٹ کو سی پیک پروجیکٹ کے طور پر ایجنڈے پر رکھ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ چین کو پاک افغان بارڈر اور بلوچستان میں ایل این جی سٹوریج، گیس ایکسپلوریشن کے منصوبوں میں بھی سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی۔ پہلے سعودی عرب نے اس میں سرمایہ کاری کے لیے دلچسپی ظاہر کی تھی لیکن ایک سال گزرنے کے باوجود خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ وزیراعظم کے مشیر پٹرولیم ندیم بابر نے پاکستان میں سعودی سفیر کو خط بھی لکھا لیکن مطلوبہ کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ بعد ازاں چین کی دلچسپی پر منصوبہ اسے دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ یاد رکھیے کہ بین الاقوامی تعلقات میں کچھ بھی یکطرفہ نہیں ہوتا۔ کچھ لینے اور کچھ دینے کے اصول پر ہی معاہدے ہوتے ہیں۔ جب تک سب کا مفاد مدنظر نہیں رکھا جاتا‘ آگے بڑھنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ معاہدہ بھی اسی اصول کے تحت ہو گا۔ پاکستان کو ڈالر ملیں گے اور دو ایسے علاقے جہاں پر ایکسپلوریشن کرنا تقریباً ناممکن ہے‘ انہیں استعمال میں لایا جائے گا۔ چین کا مفاد یہ ہے کہ وہ کارکردگی بہتر بنا کر اس سے منافع کما سکے گا اور اس کے لیے بیرونِ ملک ماہرین پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا بلکہ چینی انجینئرز اس میں یدطولیٰ رکھتے ہیں۔
اس طرح کا ایک معاہدہ سعودی عرب کے ساتھ کرنے کی بھی تیاری کر لی گئی ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بلوچستان کے شہر گوادر میں آئل سٹی بنانے کا اعلا ن کیا ہے۔ سعودی عرب کی سب سے بڑی سرکاری آئل کمپنی آرامکو اس منصوبے کو مکمل کرے گی۔ روزانہ ڈھائی لاکھ سے تین لاکھ بیرل تیل کی کپیسٹی قائم کی جائے گی۔ ایک ارب ڈالر سے پیٹرو کیمیکل کمپلیکس بنایا جائے گا جو پولی ایتھیلین اور پولی پروپیلین کے ذریعے پاکستان پیٹرولیم انڈسٹری کی بنیاد رکھے گا۔ تین سو میگا واٹ بجلی کی پیداوار کے لیے کول پاور پلانٹ لگایا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے اٹھاسی ہزار ایکڑ زمین مختص کی جا چکی ہے۔ چین اس وقت دنیا کا سب سے بڑا آئل امپورٹر ملک ہے۔ آئل سٹی کی تعمیر سے گلف سے چین کو تیل کی سپلائی صرف سات دن میں ممکن ہو سکے گی۔ اس وقت یہ دورانیہ چالیس دن تک ہے۔ ابتدائی پروجیکٹس پانچ سے چھ سالوں میں مکمل ہوں گے۔ 2019ء میں وزیراعظم عمران خان کے سعودی عرب دورے پر اکیس ارب ڈالر کے سات منصوبوں پر دستخط ہوئے تھے جس میں معدنیات، انرجی، پیٹرو کیمیکل، فوڈ اینڈ ایگریکلچر کے شعبہ جات شامل تھے۔ آرامکو، ایکوا پاور اور سعودی فنڈ سے ان منصوبوں کو سپورٹ کیا جانا تھا۔ یہ منصوبہ بھی انہی معاہدوں کا حصہ ہے جس کے بعدسعودی عرب عملی طور پر سی پیک کا حصہ بن گیا ہے۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ 2019ء میں سعودی عرب کے یہ معاہدے اِس وقت کیوں قابل عمل ہو رہے ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں ان پر کوئی پیشرفت کیوں نہ ہو سکی؟ یہ سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔ جب یہ معاہدے کیے گئے تھے، اس وقت امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ برسر اقتدار تھے جو ہر قیمت پر سعودی عرب کو سپورٹ کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ معاملہ چاہے یمن کی جنگ کا ہو، جمال خاشقجی کا ہو یا ایران کا‘ ہر معاملے پر صدر ٹرمپ نے سعودی شاہی خاندان کو سپورٹ کیا۔ اربوں ڈالر کی اسلحہ ڈیل بھی کی گئی دبائو ڈلوا کر کئی اسلامی ممالک سے اسرائیل کو تسلیم بھی کروایا گیا جس کا اظہار کئی مواقع پر کیا گیا۔ ایران مخالف پالیسی ہونے کی وجہ سے شاہی خاندان کو یقین تھا کہ ان کی اجارہ داری کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اس لیے پاکستان کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب جوبائیڈن کی جیت کے بعد حالات یکسر بدل چکے ہیں۔ جو بائیڈن نے آتے ہی اعلان کیا تھا کہ وہ ایران پر سے پابندیاں ہٹائیں گے اور نیوکلیئر معاہدہ 2015ء بحال کیا جائے گا، جس پر اس وقت کام تیزی سے جاری ہے۔ اس کے علاوہ جوبائیڈن انتظامیہ نے حوثی باغیوں کو بین الاقوامی دہشت گرد قرار دینے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ اب جمال خاشقجی کیس کے حوالے سے امریکا نے اپنی انٹیلی جنس رپورٹ جاری کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ اسلحہ ڈیل معطل کرنے کا بھی عندیہ دیا گیا ہے۔ ان حالات میں سعودی عرب عالمی تنہائی کا شکار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ سیاسی طور پر مضبوط ہونے کے لیے اسے عالمی طاقتوں کی ضرورت ہے تا کہ وقت پڑنے پر وہ ایک مخصوص گروپ سے مدد حاصل کر سکے۔ ان حالات میں سی پیک میں شامل ہونا سب سے زیادہ آسان اور منافع بخش سودا ہے۔ ایک طرف امریکا کو یہ پیغام جائے گا کہ دنیا کی ابھرتی ہوئی معاشی سپر پاور چین سعودی عرب کے ساتھ کھڑی ہے، دوسری طرف مخالف علاقائی ممالک کو یہ پیغام پہنچے گا کہ پاکستان سعودی کے ساتھ لانگ ٹرم تعلقات قائم کر رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنی بڑی سرمایہ کاری کے بعد پاکستان بھی معاملات کو متوازن رکھ کر چلنے کی کوشش کرے گا۔ یاد رہے کہ ماضی میں وزیراعظم عمران خان ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح کروانے کے حوالے سے بھی کوششیں کرتے رہے ہیں۔ دونوں اطراف سے عمران خان کی ان کاوشوں کو سراہا گیا اور عالمی منظر نامے میں پذیرائی بھی حاصل ہوئی۔ امید کی جا رہی ہے کہ مستقبل میں سعودی عرب اس سرمایہ کاری کو سود سمیت واپس لے گا؛ تاہم یہ بہترین وقت ہے کہ پاکستان اپنی جغرافیائی حیثیت کو صحیح معنوں میں کیش کروائے۔
چین اور سعودی عرب‘ دونوں کے منصوبے پاکستان کی معاشی حالت کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، خصوصاً سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت گوادر بندرگاہ کو مزید فعال رکھنے میں مددگار ثابت ہو گی۔ اس سے گوادر بین الاقوامی تجارت کا مرکز بن سکے گا۔ ان منصوبوں سے بلوچستان کے لوگوں کی زندگیاں بھی بدل سکتی ہیں۔ صنعت کاری فروغ پا سکتی ہے اور روزگار کے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق 2025ء تک پاکستانیوں کی فی کس اوسط آمدن پندرہ ہزار ڈالر تک پہنچ سکتی ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت کو کام کرنے دیا جائے، لانگ مارچ اور دھرنوں سے بیرونی سرمایہ کاری سب سے زیادہ متاثر ہوتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں سرمایہ لانے کے لیے سالوں بلکہ دہائیاں لگ جاتی ہیں لیکن اس سرمائے کے نکلنے کے لیے صرف ایک دھرنا کافی ہوتا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں سے گزارش ہے کہ حکومت کو پانچ سال کا مینڈیٹ ملا ہے‘ اسے اپنا وقت پورا کرنے دیں۔