حکومت پاکستان نے کپاس کی درآمدات کی اجازت دے دی ہے ۔ اس حوالے سے افغانستان اور سنٹرل ایشیا کے ممالک سے رابطہ کیا جارہا ہے ۔ بھارت بھی کپاس دینے کے لیے تیار ہے لیکن پاکستان فی الحال لینے سے انکاری ہے ۔ گو کہ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے بعد تعلقات بہتر ہونے کی نوید ہے ‘ بیک ڈور ڈپلومیسی کے ذریعے راہ ہموار کرنے کی کوششیں جاری ہیں اور سارک کانفرنس پاکستان میں کروانے کی حمایت بھی حاصل کی جا رہی ہے لیکن تجارت کے حوالے سے اچھی خبر نہیں ہے ۔ اس کی وجہ شاید عوامی جذبات ہیں جو کشمیر ایشو کی وجہ سے کافی شدت اختیار کر جاتے ہیں۔ ممکن ہے کہ مناسب وقت پر اعلان کر دیا جائے لیکن میرے خیال میں کپ کو ہونٹوں تک آنے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ تب تک تجارت کے لیے بھارت سے معذرت۔ بدقسمتی ملاحظہ کیجیے کہ جب ملک میں کپاس تھی تب ٹیکسٹائل انڈسٹری بند تھی اور جب ٹیکسٹائل اندسٹری مکمل کپیسٹی پر کام کر رہی ہے تو کپاس نہیں ہے ۔ وجہ یہ نہیں کہ بیچ دی گئی ہے بلکہ کسان نے کپاس کی فصل لگائی ہی نہیں۔ فی ایکڑ پیداوار ہی اتنی کم ہے کہ اچھے ریٹ پر بیچ کر بھی خرچے پورے نہیں ہوتے ۔ حالانکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی کپاس کا بھی وہی ریٹ مل رہا ہے جو چین یا بنگلہ دیش کو ملتا ہے ۔ پہلے ایسا نہیں ہوتا تھا۔ لیکن تحریک انصاف کی حکومت آنے کے بعد ٹیکسٹائل کو جو رعایت دی گئی ہے اس نے بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستان کی کپاس کی قیمت کو دنیا کے مقابلے پر کر دیا ہے لیکن پیداوار بڑھانے کے جو طریقے ہیں ان پر کام نہیں ہو رہا۔ اب ایسی برآمدات کا کیا فائدہ جن کا انحصار درآمدات پر ہو۔ کراچی کاٹن بروکرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین کے مطابق تقریباً چار بلین ڈالر کی کپاس برآمد کرنا پڑے گی جبکہ پاکستان ٹیکسٹائل کی سالانہ برآمدات تقریباً بارہ بلین ڈالر ہے ۔ اگر درآمدات کو نکال دیا جائے تو یہ آٹھ بلین ڈالر کی برمدآت بنتی ہیں۔ پاکستان کو اس وقت چونتیس اعشاریہ اٹھارہ فیصد کپاس کی کمی کا سامنا ہے ۔ اس سال کا ہدف تقریباً دس اعشاریہ نوے ملین بیلز تھا لیکن سات اعشاریہ سات ملین بیلز کی پیداوار حاصل ہوئی۔ یہ صرف تحریک انصاف کے دور کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ پچھلی حکومتیں بھی کپاس کی پیداوار پر توجہ نہیں دے سکیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پچھلے پانچ سالہ دور حکومت میں پاکستان کو نو اعشاریہ نو ملین بیلز کی کمی کا سامنا رہا۔اس کے علاوہ زرعی ملک ہونے کے باوجود زراعت کو صحیح معنوں میں صنعت کا درجہ ہی نہیں دیا گیا۔ جب تک ترجیحات کی سمت درست نہیں ہو گی مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کیے جا سکیں گے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت بڑے ٹیکسٹائل گروپس کو پابند کرے کہ کپاس کی پیدوار بڑھانے کے لیے ماہرین کی ٹیم کو پاکستان لایا جائے ۔ بیج کی کوالٹی کو بہتر بنایا جائے یا اگلے سیزن کے لیے ایسا بیج حاصل کیا جائے جس کی پیداوار بہترین ہو۔ اس حوالے سے چین پاکستان کی مدد کر سکتا ہے ۔ چائنا کپاس اور ٹیکسٹائل کی برآمدات میں دنیا میں پہلے نمبر پر ہے ۔ دوست ملک سے فائدہ اٹھانے کا یہ بہترین موقع ہے ۔ اگر توجہ نہ دی گئی تو اگلے سال کپاس کی درآمد چار بلین ڈالر سے بڑھ کر آٹھ بلین ڈالر تک جا سکتی ہے جس سے ڈالر کی قیمت میں عدم توازن بڑھ سکتا ہے ۔
اگر آج کی بات کی جائے تو ڈالر کے حوالے سے خبریں اچھی ہیں۔ تقریباً پچھلے دو ہفتوں سے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قیمت مسلسل کم ہو رہی ہے ۔ اگر ایک سال پہلے کے اعدادوشمار سے موازنہ کیا جائے تو پچھلے سال مارچ میں ڈالر کی قیمت تقریباً 157 روپے تھی جو کہ اس سال مارچ میں تقریبا 156 روپے ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں بھی روپے نے اچھی پرفارمنس دکھائی ہے ۔ اس کی وجہ قرضوں میں ملنے والا ریلیف‘ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ کی کامیابی‘ برآمدات میں اضافہ‘ کنسٹرکشن سیکٹر کھلنے سے ڈالر میں سرمایہ کرنے کے رجحان میں کمی اور منی لانڈرنگ روکنے کے لیے اینٹی منی لانڈرنگ قوانین کے نفاذ کی کوششیں شامل ہیں۔ پاکستان میں بلیک اور وائٹ اکانومی مدمقابل چلتی ہیں۔ آپ صرف کسی ایک پر تکیہ نہیں کر سکتے ۔ چاہیں یا نہ چاہیں بلیک منی رکھنے والوں کو بھی سہولتیں دینا پڑتی ہیں۔ ڈالر کی منی لانڈرنگ روکنا ہمیشہ حکومتوں کے لیے ایک چیلنج رہا ہے ۔ پاکستان میں بھی اس ایشو کو بہترین انداز میں حل کیا گیا ہے ۔ کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم اس کا بہترین حل تھا جس کا کئی سالوں سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ ماضی میں لگائے گئے ٹیکسز کی بدولت رئیل اسٹیٹ کا کاروبار تقریباً ختم ہو چکا تھا۔ بہت سی پراپرٹیز اپنی اصل قیمت سے بھی نیچے آگئی تھیں۔ انویسٹرز نے پیسہ نکال لیا تھا۔ یا تو وہ پیسہ سمگل ہو کر دبئی جا رہا تھا اور جو لوگ کاروبار کرنا چاہتے تھے انہوں نے بنگلہ دیش کے ٹیکسٹائل سیکٹر میں سرمایہ کاری شروع کر دی تھی۔ بنگلہ دیش دنیا کا دوسرا بڑا ٹیکسٹائل ایکسپورٹر ہے ۔اس کی سالانہ چونتیس بلین ڈالر سے زائد کی ٹیکسٹائل برآمدات ہیں۔ تقریباً ہر دوسرا بنگالی اس کاروبار سے جڑا ہوا ہے ۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بھی اس کاروبار کو کرنے والوں کو وہ سہولتیں نہیں دی جاتیں جو بنگلہ دیش میں ملتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ سرمایہ کار کا کسی ملک یا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ اسے جہاں منافع نظر آئے گا وہ پیسہ لگا دے گا۔ حکومت پاکستان نے اس حقیقت کو دیر سے تسلیم کیا لیکن صبح کا بھولا اگر شام کو گھر آ جائے تو اسے بھولا نہیں کہتے ۔
لیکن حکومت کے اچھے فیصلوں میں سب سے بڑی رکاوٹ آئی ایم ایف ہے ۔ تقریباً ڈیڑھ سال سے اس کے چنگل میں ایسا پھنس چکے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی ناپسندیدہ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ اگلی قسط کی ادائیگی سے پہلے شرائط منوائی جا رہی ہیں۔ جس کے نتیجے میں حکومت انکم ٹیکس چھوٹ ختم کرنے جارہی ہے ۔ اس میں پٹرولیم کمپنیاں سر فہرست ہیں۔ اس کے علاوہ سی پیک کے ٹیکس فری زون بھی زد میں آ رہے ہیں۔ نئی رجسٹرڈ ہونے والی سٹاک ایکسچینج کمپنیوں کے لیے بھی ٹیکس رعایت کم کرنے کا ارادہ ہے ۔ نان پرافٹ آرگنائزیشنز بھی اسی نرغے میں ہیں۔ آئل کمپنیوں میں ایکسپلوریشن کے لیے ڈپریسی ایشن پر ٹیکس رعایت قائم رہے گی۔ آئی ایم ایف نے 140بلین روپے کی ٹیکس رعایات ختم کرنے کی شرط رکھی ہے ۔ حکومت پاکستان جب تک اسمبلی میں بل پیش نہیں کر دیتی یہ پتہ نہیں لگایا جا سکتا کہ اصل میں کتنے ارب کی چھوٹ ختم ہوئی ہے ۔ اگلے ہفتے اسمبلی کے اجلاس میں بل پیش کیا جائے گا۔ کچھ آئل کمپنیوں اور اکنامک زونز کے لیے رعایت اس سال کے آخر تک قائم رہے گی اس کی وجہ سعودی عرب کے ساتھ دس بلین ڈالر میں ہونے والی ممکنہ ڈیل ہے ۔ سعودی عرب نے سی پیک کے تحت گوادر میں آئل سٹی کے قیام کا اعلان کر رکھا ہے ۔ اس کے علاوہ رئیل اسٹیٹ انویسٹمنٹ ٹرسٹ کو دی گئی ٹیکس رعایات ختم کی جا رہی ہیں۔ پچھلے سال اس مد میں حکومت کو پانچ اعشاریہ تین بلین روپوں کا نقصان ہوا ہے ۔ سکوک بانڈز پر ملنے والی ٹیکس رعایت بھی ختم کی جا رہی ہے ۔ ان رعایات کے ختم ہونے سے ٹیکس آمدن میں تو اضافہ ہو گا لیکن حکومت کو سیاسی سطح پر نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ عام آدمی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ حکومت پر کتنا دباؤ ہے۔ اسے اپنے معاملات اور سہولتوں میں دلچسپی ہے۔ ایسے موقعوں پر حکومت کو ایسی ماں کا کردار ادا کرنا چاہیے جو سب کو ساتھ لے کر چلتی ہے ۔ یک طرفہ اپروچ نقصان کا باعث بن سکتی ہے ۔