پاکستان فری لانسرز کے لیے ایک نعمت ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ فری لانسرز بھی پاکستان کے لیے کسی رحمت سے کم نہیں۔ فائیور، اَپ ورک، یوٹیوب جیسے آن لائن پلیٹ فارمز سے آپ جتنے چاہیں‘ ڈالرز کمائیں آپ سے ٹیکس نہیں لیا جاتا ،بدلے میں فری لانسرز سالانہ کروڑوں ڈالرز پاکستان لا رہے ہیں۔ اگر ان پر ٹیکس لگنا شروع ہو گیا تو پھر ڈالرز پاکستان لانے کے بجائے بیرونِ ملک ہی رکھ لیے جائیں گے اور پاکستان ایک بڑی آمدن سے محروم ہو سکتا ہے۔ یہ حقیقت لکھنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ ایف بی آر نے نئی رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق پچھلے دو سالوں میں ساٹھ ارب روپے یعنی تین سو پچھتر ملین ڈالرز امریکی کمپنی payoneer کے ذریعے پاکستان آئے ہیں۔ پے اونیر ڈالرز کی ادائیگی کا ایک نظام ہے جو آپریٹ تو امریکا سے ہوتا ہے مگر اس کی شاخیں دنیا کے تمام ممالک میں ہیں۔ جو لوگ پاکستان یا کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر آن لائن کام کر کے ڈالرز کماتے ہیں وہ اسی نظام کے تحت پاکستانی بینکوں میں رقم منگوا سکتے ہیں۔ ویسے تو اس کام کے لیے دنیا کا سب سے بڑا ادائیگی کا نظام ''پے پال‘‘ استعمال ہوتا ہے لیکن پاکستان میں بینکنگ نظام کی بعض وجوہات کے باعث یہاں پے پال کام نہیں کرتا۔ اس لیے پے اونیر کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ ایف بی آر نے اعتراض اٹھایا ہے کہ پچھتر ہزار لوگوں نے یہ رقم پاکستان منگوائی ہے لیکن اس رقم پر کوئی ٹیکس ادا نہیں کیا گیا بلکہ بعض نے تو اسے اس طرح بھی رپورٹ کیا کہ پینتیس ملین ڈالرز کی مشکوک رقم پکڑ لی گئی۔ اس سے ایسا تاثر دیا گیا جیسے منی لانڈرنگ کا بہت بڑا نیٹ ورک ہاتھ لگ گیا ہو۔ سوال یہ ہے کہ یہ منی لانڈرنگ کیسے ہو گئی؟ کیا یہ ڈالر پچھتر ہزار پاکستانی چھپا کر پاکستان لائے ہیں یا سمگلنگ کر ذریعے یہ رقم پاکستان لائی گئی ہے؟ اگر ایسا کچھ سمجھا جا رہا ہے تو یہ غلط ہے۔ یہ رقم قانونی طریقے سے بینکوں کی ذریعے پاکستان منتقل کی گئی ہے۔ حکومت کو بتایا گیا ہے کہ فری لانسنگ سے یہ آمدن حاصل کی گئی ہے، پھر بھی اسے فراڈ یا منی لانڈرنگ کہنا زیادتی ہے۔
تین سو پچھتر ملین ڈالرز پاکستان لانے والے لوگ کوئی منجھے ہوئی کاروباری افراد نہیں ہیں بلکہ زیادہ تعدا ان کی ہے جن کی عمریں اٹھارہ سال سے تیس سال کے درمیان ہیں۔ یہ کامیابی انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت حاصل کی ہے۔ نہ تو کسی حکومت نے انہیں سپورٹ کیا اور نہ ہی آنے والے دنوں میں ایسا کرنے کا حکومت کا کوئی ارادہ ہے۔ جب حکومت اس سارے عمل میں ایک پیسے کا حصہ نہیں ڈال رہی تو اس پر ٹیکس لینے کا کیا جواز ہے؟ ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس نوٹس بھیجنے کی خبر کے بعد فری لانسرز دل گرفتہ ہو چکے ہیں جو پاکستان میں آن لائن بیٹھ کر امریکا سمیت پوری دنیا کے لوگوں کو بہترین کوالٹی کا کام کر کے دیتے ہیں۔ اکثر امریکی اور یورپی کمپنیاں اپنے ملک کے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کے بجائے پاکستان کے لوگوں کا انتخاب کرتی ہے جو انہیں بین الاقوامی معیار کا کام کر کے دیتے ہیں اور کروڑوں ڈالرز پاکستان لاتے ہیں۔ اس کے بدلے اگر ہم دیگر برآمدات کو دیکھیں تو حساب الٹ ہے۔ آپ ٹیکسٹائل سیکٹر کی مثال ہی لے لیجیے۔ جب وزیراعظم نے ٹیکسٹائل مالکان سے کہا کہ برآمدات بڑھائیں اور ڈالرز پاکستان لے کر آئیں تو انہوں نے مطالبات کی ایک لمبی فہرست سرکار کی میز پر دکھ دی جس میں بجلی کے ریٹ میں پچیس روپے کے بجائے نو روپے تک فی یونٹ کی فراہمی، ٹیکس ریفنڈ کی سہولت سمیت کئی باتیں منوا لی گئیں لیکن کارکردگی یہ ہے کہ برآمدات اتنی ہی ہیں جتنی پچھلی حکومتوں کے دور میں تھیں بلکہ کچھ مہینوں میں ان سے بھی کم رہیں۔ اس کے باوجود انہیں ٹیکس ریفنڈ دینا اور فری لانسرز کو ٹیکس نوٹس بھیجنا‘ کیا کھلا تضاد نہیں ہے؟ اس طرز کے فیصلے بظاہر معمولی محسوس ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ لاکھوں لوگوں کی زندگیاں تباہ کر دیتے ہیں اور نظام میں ایسی خرابی پیدا کرتے ہیں جنہیں درست کرنے کے لیے کئی برس درکار ہوتے ہیں۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ جب ایک اٹھارہ بیس سال کے بچے کو ٹیکس نوٹس ملے گا کہ فوری طور پر انکم ٹیکس ادا کریں ورنہ آپ کا بینک اکائونٹ معطل کر دیا جائے گا اور ساری رقم فریز کر دی جائے گی تو اس صورت میں وہ بچہ کیا کرے گا؟ اس کی پہلی کوشش یہی ہو گی کہ جان پہچان کے کسی بندے یا افسر کے ذریعے معاملے کو ''سیٹل‘‘ کرنے کی کوشش کرے۔ اس سے بدعنوانی کا ایک نیا دروازہ کھلے گا اور حکومت کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔
حکومت ایک طرف بیرونِ ملک سے ڈالرز پاکستان لانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف اس طرح کے نوٹسز جاری ہونے کے بعد تاحال خاموشی نہایت حیران کن ہے۔ ایک طرف لاکھوں نوکریاں دینے کی دعوے کیے جا رہے ہیں اور دوسری طرف اپنی مدد آپ کے تحت روزگار کمانے والوں کو بے روزگار کرنے کی تیاریاں ہوتی دکھائی دے رہی ہیں جو افسوس ناک امر ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے اور ایسے فری لانسرز کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو ایک کمرے میں بیٹھ کر آن لائن کام کر رہے ہیں اور ملک کے لیے ملینز آف ڈالر کا زرمبادلہ کما رہے ہیں۔
بالآخر معیشت کے حوالے سے ایک اچھی خبر آ ہی گئی کہ آئی ایم ایف چوبیس مارچ کو نئی قسط کی ادائیگی کی منظوری دے گا جو تقریباً ڈیڑھ سال سے رکی ہوئی تھی۔ پچھلے سال اپریل میں آئی ایم ایف نے نئی قسط کی ادائیگی بجلی کی قیمتیں بڑھانے کے ساتھ مشروط کی تھی جس پر وزیراعظم نے انکار کر دیا تھا لیکن مطلوبہ فائدہ حاصل نہ ہو سکا کیونکہ ایک سال بعد آئی ایم ایف کے مطالبے کو ماننا ہی پڑا۔ اگر اب بھی یہی کام کرنا تھا تو سال پہلے ہی کر لیتے کیونکہ جتنی جلدی اس عالمی ادارے سے جان چھڑا لیں‘ اتنا بہتر ہے۔ آج کل وزراتِ خزانہ میں آئی ایم ایف کے مطلوبہ قوانین کو منظور کروانے کے لیے دن رات کام جاری ہے جس کا الٹا نقصان ہو رہا ہے کیونکہ اس حوالے سے احتیاط سے کام نہیں لیا جا رہا اور جلد بازی میں بہت سے پہلو نظر انداز کیے جا رہے ہیں، مثال کے طور پر آئی ایم ایف کی ایک شرط یہ تھی کہ پاور سیکٹر کو دی گئی سبسڈی کو مناسب سطح پر لایا جائے۔ پاور ڈویژن نے کیبنٹ کی ای سی سی میں سمری پیش کی جس میں مخصوص تفصیلات نہیں دی گئیں‘ صرف اصولوں پر بات کی جو قطعی ناکافی ہے اور کنفیوژن کا باعث بن رہی ہے۔ اب ای سی سی نے کام مکمل کرنے کے لیے پاور ڈویژن کو اکتیس مارچ تک کا وقت دیا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی شرط تھی کہ سٹیٹ بینک ایکٹ 2021ء کو تبدیل کیا جائے۔ وزارتِ خزانہ نے عجلت میں اسے مکمل کیا اور کابینہ میں پیش کر دیا۔ کابینہ میں اسے زیر بحث ہی نہیں لایا گیا جس نے مزید سوالات کو جنم دے دیا ہے کہ اتنی جلدی میں قوانین بنانا اکانومی کے لیے فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
ان حالات میں مسئلہ صرف ترجیحات طے کرنے کا ہے‘ بابوئوں کی ایک فوج دفاتر میں بیٹھی ہے لیکن کام اسی وقت کیا جاتا ہے جب سر پر آن پڑے۔ اگر کچھ کمی رہ جائے تو ان کا کیا بگڑتا ہے‘ بھگتنا تو عوام نے ہے اور پیسہ سرکار کا ضائع ہونا ہے۔ ان کو تنخواہ، الاؤنسز، مراعات اور ترقیاں سب وقت پر مل جاتا ہے‘ لہٰذا کام کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ شاید یہی پاکستانی عوام کا مقدر ہے لیکن ان کوتاہیوں پر عوامی خاموشی مسائل کی اصل جڑ ہے۔ آواز اٹھاتے رہنا چاہیے۔ حکومت بالخصوص وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ فری لانسرز کی آمدن کو منی لانڈرنگ کہنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے، آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے اہم امور پر تفصیلی غور کیا جائے اور سرکاری بابوئوں کی کارکردگی کے معیار کا پیمانہ بھی طے کیا جائے تاکہ عوام نت نئے مسائل کا شکار ہونے سے بچ سکیں۔