ورلڈ بینک نے سالانہ فلیگ شپ ساؤتھ ایشیا اکنامک فوکس رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق موجودہ مالی سال کے اختتام پر پاکستان میں شرحِ نمو ایک اعشاریہ تین فیصد رہے گی اور قرضوں کی شرح معیشت کے حجم کا چورانوے فیصد ہو گی۔ دوسری طرف سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق‘ موجودہ مالی سال میں شرحِ نمو تین فیصد رہنے کی توقع ہے۔ یہ دعویٰ ادارۂ شماریا ت کے لارج مینوفیکچرنگ یونٹس کی پیداوار میں سات اعشاریہ نو فیصد اضافے کے دعوے کے بعد کیا گیا ہے۔ کس کی بات درست ہے‘ اس کا صحیح اندازہ آنے والے دنوں میں ہو جائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ بین الاقوامی سرمایہ کار اور ماہر معیشت ورلڈ بینک کی رپورٹ کو غیر جانبدار اور مستند مانتے ہیں۔ جہاں تک قرضوں کی بات ہے تو سٹیٹ بینک ایک حد تک ورلڈ بینک سے متفق دکھائی دیتا ہے کیونکہ ٹیکس آمدن میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ برآمدات میں اضافہ برائے نام ہے اور حکومت مستقبل میں مزید قرض لینے کی منصوبہ بندی بھی کر رہی ہے۔ آپ موجودہ صورتحال کا جائزہ لیجیے تو ورلڈ بینک کی رپورٹ حقیقت کے زیادہ قریب دکھائی دیتی ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف سے پانچ سو ملین ڈالرز قرض کی بحالی کے فوراً بعد اڑھائی ارب ڈالر مزید قرض لینے کے لیے یورو بانڈ جاری کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے تین سو ملین ڈالرز اور ورلڈ بینک سے ایک اعشاریہ تین بلین ڈالرز قرض بھی منظور ہو گیاہے۔
اس وقت سوال یہ ہے کہ حکومت کس طرح قرضوں میں اضافے کو بہتر کارکردگی قرار دے سکتی ہے؟ وفاقی وزرا یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ حکومت کے معاشی نظام پر بین الاقوامی اداروں کا اعتماد بڑھنے کی وجہ سے قرض مل رہا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست تسلیم کی جا سکتی ہے لیکن یہ کیسا اعتماد ہے جو عوام کے خون پسینے کی کمائی نچوڑ نے کے بعد حاصل ہو رہا ہے؟ یہ عنایتیں بظاہر بجلی کی قیمتوں کے بڑھانے کے عوض حاصل ہو رہی ہیں۔ اس طرح کی ادائیگیاں معاشی اعتماد کے زمرے میں نہیں آتی ہیں۔ اگر برآمدات بڑھ رہی ہوں‘ عوام پر بوجھ کم ہورہا ہو، ڈالرز کے ذخائر میں اضافہ برآمدات کے بڑھنے سے ہو رہا ہو( نہ کہ قرضوں سے) اور بین الاقومی ادارے آپ کو اس بنیاد پر قرض دیں تو یہ حقیقی اعتماد ہوتا ہے۔ جس میں یہ نظریہ کارفرما ہوتا ہے کہ دی گئی رقم ملک کو مزید بہتر بنانے کے لیے استعمال ہو گی۔
وزیراعظم عمران خان کا وعدہ رہا ہے کہ عوامی قرضوں کو کم اور ٹیکس کی آمدن کو دگنا کرکے معیشت کو مضبوط کیا جائے گا لیکن ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی صورتحال بھی باقی محکموں سے زیادہ مختلف نہیں ہے۔ پونے تین سالوں میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پانچ چیئرمین اور وزرات خزانہ میں تین وزیروں کی تعیناتی اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ محکمے کسی ایک مستقل پالیسی کے تحت نہیں چل رہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مطلوبہ نتائج بھی نہیں مل رہے۔ورلڈ بینک کے مطابق آنے والے دنوں میں غربت مزید بڑھے گی اور بہت سے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے چلے جائیں گے۔ جو لوگ زراعت کے شعبے سے وابستہ ہیں وہ زیادہ مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔موجودہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح نو فیصد رہنے کی توقع ہے جبکہ اگلے مالی سال یہ شرح سات فیصد تک رہ سکتی ہے۔ اگلے سال شرحِ نمو دو فیصد رہے گی جبکہ سٹیٹ بینک کے مطابق تقریباً چار فیصد کی پیش گوئی کی گئی ہے۔ بجٹ خسارہ شرحِ نمو کے آٹھ اعشاریہ تین فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ پاور سیکٹر کے بقایا جات کی ادائیگی ہے جو پاکستانی معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے جبکہ سٹیٹ بینک کے مطابق‘ بجٹ خسارہ شرحِ نمو کا سات اعشاریہ ایک فیصد رہے گا۔ مالی سال 2022ء میں بجٹ خسارہ شرحِ نمو کا سات اعشاریہ سات فیصد رہنے کی توقع ہے۔ مہنگائی اور بجٹ خسارے میں اگلے سال بہتری کی خبر ہے جو اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ مالی سال 2022ء میں حکومتی پالیسیوں میں استحکام رہ سکتا ہے۔ وہ سال الیکشن کے سال کے طور پر مانا جائے گا کیونکہ اگلے بجٹ تک حکومت رخصت ہو جائے گی‘ لہٰذا اسی بجٹ میں حکومت نے ہر صورت میں عوام کو کارکردگی دکھانا ہو گی تا کہ دوبارہ عوام میں جا کر ووٹ مانگ سکے۔ ممکنہ طور پر عوام کو اس بجٹ میں ریلیف دیا جا سکتا ہے او یہ ریلیف سبسڈی کی شکل میں ہو سکتا ہے۔ چینی اور آٹے کی بہتر مینجمنٹ کی صورت میں بھی حکومت کو یہ کامیابی حاصل ہو سکتی ہے جیسا کہ امسال وفاق نے فیصلہ کیا ہے کہ آٹے‘ چینی کی قیمتیں وفاقی کا بینہ طے کرے گی۔ اگر ایسا ممکن ہو گیا تو اس کا اثر آنے والے سالوں میں واضح طور پر دکھائی دے سکتا ہے۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق اس سال قرض شرح نمو کا ترانوے اعشاریہ نو فیصد اور اگلے سال چورانوے اعشاریہ چار فیصد رہ سکتا ہے۔ عوامی قرض 2018ء میں 72اعشاریہ پانچ فیصد تھا جو 2019ء میں جی ڈی پی کا اٹھاسی فیصد تھا۔ کرنٹ اکائونٹ خسارے کے حوالے سے ایک اچھی خبر ہے‘ ورلڈ بینک کے مطابق‘ یہ شرحِ نمو کا صفر اعشاریہ آٹھ فیصد رہے گا۔ اگر اس کی وجوہات کی طرف نظر دوڑائیں تو سب سے بڑی وجہ ترسیلاتِ زر میں نمایاں اضافہ ہے جو روشن ڈیجیٹل اکائونٹ سکیم کی کامیابی کے باعث ممکن ہواہے۔گو کہ اور بھی وجوہات ہیں لیکن یہ سب سے نمایاں ہے۔ اگر برآمدات کی بات کی جائے تو ورلڈ بینک اس سال زیادہ پُرامید دکھائی نہیں دیتا۔ اس کی وجہ کورونا بھی ہو سکتی ہے۔ ممکنہ طور عالمی معیشتوں کے کھلنے اور بند ہونے میں بے قاعدگی اور غیر یقینی صورتحال کے باعث اس سال برآمدات میں اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اگلے مالی سال میں پاکستان کی برآمدات زیادہ بہتر ہو سکتی ہیں۔ اگر حقائق دیکھے جائیں تو پچھلے دو سالوں سے حکومت نے برآمدات بڑھانے کے لیے ہر ممکن اقدامات کیے ہیں اور ابھی تک مستقل مزاجی سے اس پر قائم بھی ہے۔ تین سالوں کی مستقل مزاجی کا پھل ممکنہ طور پر چوتھے سال میں مل سکتا ہے۔ مالی سال 2020ء کورونا کے باعث پاکستان کے لیے تکلیف دہ رہا ہے؛ تاہم آنے والا وقت بہتر ہو سکتا ہے۔
اگر کورونا ویکسین کی بات کی جائے توپاکستان کی صورتحال اس حوالے سے تسلی بخش قرار نہیں دی جا سکتی۔دستیاب اعداد و شمار کے مطابق صرف تین لاکھ چار ہزار لوگوں کو ویکسین لگائی گئی ہے جو کل آبادی کا صرف صفر اعشاریہ ایک فیصد بنتا ہے۔ ملک بھر میں 60سال سے زائد سوا کروڑ افراد موجود ہیں تاہم ابھی تک صرف 8لاکھ افراد نے رجسٹریشن کروائی ہے اور محض ڈھائی لاکھ لوگوں کو ویکسین کی پہلی ڈوز لگائی گئی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان اور افغانستان کی صورتحال ایک جیسی ہے۔ یہی اعدادوشمار افغانستان میں بھی رپورٹ کیے گئے ہیں جو جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے پیچھے ہے۔
دوسری طرف بعض حلقوں میں یہ بات بھی کی جارہی ہے کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ انتہائی اہم وقت میں جاری کی گئی ہے۔ سابق وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی معطلی اور حماد اظہر کی بطورِ وزیر خزانہ تعیناتی کے فورا ً بعد ورلڈ بینک کی یہ رپورٹ معنی خیز ہے۔ شاید ورلڈ بینک حفیظ شیخ کو وزیر خزانہ دیکھنا چاہتا ہے جس کی وجہ سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ آنے والا وقت معاشی اعتبار سے کٹھن ہے‘ اس لیے حفیظ شیخ جیسے تجربہ کار معیشت دان کا وزیر یا مشیر ہونا ضروری ہے۔ بظاہر اس تاثر کو ردّ نہیں کیا جا سکتا لیکن سوال یہ ہے کہ پچھلے دو سالوں میں حفیظ شیخ کی پالیسیوں کی بدولت ہی ملک کو معاشی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہے۔دوسری طرف اگر ورلڈ بینک کی رپورٹ کو غیر جانبدار ہو کر دیکھیں تو اس میں سے اصلاح کے کئی پہلو برآمد ہو سکتے ہیں۔مستقبل میں سامنے آنے والی ممکنہ تبدیلیوں کے منفی اثرات کو کم کیا جا سکتا ہے ۔ سٹیٹ بینک اور ورلڈ بینک کے تخمینوں میں واضح فرق کی وجوہات تلاش کی جا سکتی ہیں تا کہ یہ اندازہ ہو سکے کہ کس سیکٹر میں کتنی بہتری کی گنجائش موجود ہے۔