ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان میں کلین انرجی میں بہتری لانے کے لیے 300 ملین ڈالرز کا قرض مہیا کرنے کی منظوری دے دی ہے جس سے تین سو میگا واٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ حکومت پاکستان 175 ملین ڈالرز اس منصوبے میں انویسٹ کرے گی۔ اس کے علاوہ ایشین انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک سے 280 ملین ڈالرز کی درخواست بھی کی گئی ہے۔ یہ کلین انرجی کے 1143 گیگا واٹ آور ملک کے انرجی مکس میں شامل کرے گاجس سے سے انرجی سیکٹر کی پائیداری میں اضافہ ہو گا اور اور کارکردگی بھی بہتر ہو سکے گی۔یہ منصوبہ خیبرپختونخوا میں بالا کوٹ کے قریب دریائے کنہار پر لگایا جائے گا۔اگر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ پاکستان ہائیڈرو پاور کے امکانات سے مالا مال ملک ہے لیکن تقریباً 16 فیصد ہی آج تک استعمال میں لایا جا سکا ہے۔ اس وقت پاکستان کے بڑے معاشی مسائل میں سرفہرست تیل کی درآمد اور اس سے بجلی پیدا کرنے والے منصوبے ہیں۔ سالانہ اربوں ڈالر صرف اسی مد میں ملک سے نکل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھ رہا ہے۔ تیل پر انحصار کم کرنا وقت کی ضرورت بن چکا ہے اور حکومتی اقدامات سے بھی یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہا ئیڈرو پراجیکٹس کی طرف دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ذرائع سے یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت نے ہائیڈرو‘ سولر اور ہوا سے انرجی پیدا کرنے والے تمام ممکنہ منصوبوں کی تفصیل منگوا لی ہے اور ممکن ہے کہ آنے والے چند دنوں میں مزید منصوبے شروع ہونے کی نوید سنائی دے۔
بالاکوٹ ہائیڈرو پاور پلانٹ علاقے میں ایک بڑی معاشی تبدیلی لانے کا بھی ذریعہ بننے جا رہا ہے۔ تعمیرات کے دوران یہ منصوبہ لگ بھگ بارہ سو سے زیادہ نوکریاں پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا جس سے علاقے میں بے روزگاری میں کمی اور مقامی افراد کے معاشی حالات بہتر ہونے کی امید پیدا ہو ئی ہے۔ منصوبے کے مطابق 40 فیصد ملازمتیں مقامی لوگوں کو حاصل ہوں گی‘ جس میں خواتین کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ اس سے مقامی سطح پر ہائیڈرو پراجیکٹس کے ماہرین کی تعداد میں اضافہ ہو گا۔ اس کے علاوہ سیاحت کے لیے بھی ایک نیا سپاٹ تیار ہو سکے گاجو مقامی لوگوں کے لیے روزگار کا ذریعہ بن سکے گا۔ اگر صوبائی سطح کی بات کریں تو خیبرپختونخوا حکومت کے ماتحت کام کرنے والے ادارے'' پختونخواانرجی ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن ‘‘کی آمدن میں بھی اضافہ ہو گا جو کہ صوبے میں ہائیڈرو پاور پلانٹ لگانے کا ذمہ دار ہے۔یہ نہ صرف صوبے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا بلکہ نیشنل ڈیمانڈ کو پورا کرنے میں بھی اپنا حصہ ڈالے گا۔
اس کے علاوہ ورلڈ بینک نے بھی1.3 بلین ڈالرز قرض پاکستان کو دینے کا فیصلہ کیا ہے جس میں سات قرض شامل ہیں۔ 600 ملین ڈالرز بجٹ سپورٹ کی مد میں دیے جائیں گے ‘جبکہ 200 ملین ڈالرز ٹڈی دَل سے بچاؤکے لیے ملیں گے۔ پہلے پلاننگ منسٹری یہ سوچ کر خوفزدہ تھی کہ ٹڈی دَل خاتمے کی منصوبہ بندی میں تین سو لگژری گاڑیاں اور لیپ ٹاپس بھی شامل ہیں‘ جن پر تنقید کی جا رہی ہے۔ اگر قرض لے کر غیر ضروری چیزوں پر خرچ ہو گیا تو یہ میڈیا کی تنقید کا نشانہ بن سکتا ہے۔ میں نے ایک کالم میں اس منصوبے کا تفصیلی ذکر بھی کر رکھا ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ افسران کی زیادہ دلچسپی گاڑیوں اور لیپ ٹاپس کی خریداری میں محسوس ہورہی ہے۔ بہرحال پلاننگ منسٹری نے دو سو ارب ڈالر ورلڈ بینک سے لینے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ اس رقم کا بڑا حصہ ٹڈی دَل کو ختم کرنے والی ادویات کی خریداری پر خرچ ہو گا۔
مہاجرین کی مدد کرنے اور انہیں سہولیات فراہم کرنے کے لیے پچاس ملین ڈالرز قرض بھی 1.3 بلین ڈالرز میں شامل ہے۔ پہلے حکومت نے مہاجرین کے نام پر قرض لینے سے انکار کر دیا تھا۔ کن وجوہات کی بنا پر ارادہ بدلا یہ ابھی تک نامعلوم ہیں۔ ذرائع کے مطابق کسی اور مد میں یہ رقم دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا لیکن بات نہ بن پائی اس لیے مجبوراً منظور کرنا پڑا۔ ویسے بھی ہماری بیوروکریسی کوئی راستہ نکال کر یہ ڈالرز کسی اور مد میں استعمال کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی‘ لہٰذا جو آ رہا ہے اسے آنے دو کی پالیسی پر عمل ہو رہا ہے۔
بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام‘ احساس کنڈیشنل کیش ٹرانسفر پروگرامز‘ کفالت‘ وسیلہ تعلیم اور نشوونما جیسے پروگرامز کے لیے بھی ورلڈ بینک سپورٹ مہیا کر رہا ہے۔ ورلڈ بینک کے کنٹری ڈائریکٹر کے مطابق پاکستان کوویڈ 19 کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔کروڑوں لوگ ایسے ہیں جو غیر مستحکم اور غیر رسمی شعبوں میں کام کرتے ہیں‘جہاں وہ جو روز کماتے ہیں کھا لیتے ہیں۔ ان کی کوئی بچت نہیں ہوتی اور بدقسمتی سے حکومت پاکستان اس قابل نہیں ہے کہ وہ انہیں سپورٹ کر سکے۔CRISP(Pakistan Crisis-Resilient Social Protection) پروگرام کے تحت ان لوگوں کی سپورٹ جاری رکھی جائے گی ۔
پاکستان اور ورلڈ بینک نے خیبرپختونخوا ہیومین کیپٹل انویسٹمنٹ پراجیکٹ کے تحت دو سو ملین ڈالرز قرض کا منصوبہ سائن کیا ہے۔ اس کا مقصد صوبے کے ان چار اضلاع میں تعلیم اور صحت کی فراہمی اور معیارِ زندگی کو بہتر بنانا ہے جو مہاجرین کو سپورٹ فراہم کرتے ہیں۔ صوبہ سندھ کے لیے بھی 200 ملین ڈالرز کا قرض منظور کیا گیا ہے۔بلوچستان اینٹرپرینیور شپ اور بلوچستان ہیومین کیپٹل انویسٹمنٹ پراجیکٹ کے تحت 86 ملین ڈالرز کے منصوبوں پر دستخط ہوئے ہیں جو کہ بلوچ عوام میں بے روزگاری ختم کرنے اور بہتر معیار زندگی فراہم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
پاکستان میں غریب عوام کی فلاح و بہبود کے لیے قرض لینے کی روایت پرانی ہے لیکن عالمی اداروں کو بھی شکایت رہی ہے کہ رقم مطلوبہ مقاصد کے لیے استعمال نہیں ہوتی۔ عوام کو ان کا فائدہ ہوتا ہے یا نہیں اس کا علم تو آنے والے دنوں میں ہو گا لیکن اس مرتبہ ایک کے بعد دوسرے قرض کی منظوری سے ملکی سطح پر فوری اثرات دیکھنے میں آئے ہیں جن میں سرفہرست ڈالر کی قدر میں کمی ہے۔ ڈالر کی قیمت کم ہونے میں جہاں دیگر عوام شامل ہیں وہاں قرضوں کی منظوری سے طلب کم اور رسد زیادہ ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ خبر پڑھنے اور سننے میں مثبت محسوس ہوتی ہے لیکن ماہرین کے مطابق قرضوں سے ڈالر کا ریٹ کم ہونا وقتی حد تک ہی خوش آئند ہوسکتا ہے‘ لانگ ٹرم میں یہ پالیسی نقصان دہ ثابت ہوتی ہے۔ آئی ایم ایف کے پانچ سو ملین ڈالرز منظور ہونے کے بعد یوں محسوس ہو رہا ہے کہ انٹرنیشنل فنانسنگ کی بنجر زمین اچانک زرخیز ہو گئی ہے اور صرف دس دنوں میں آئی ایم ایف کی قسط کے مقابلے میں کئی گناہ زیادہ ڈالرز کے قرض پاکستان کو حاصل ہوئے ہیں۔
ڈالرز آنا اچھی خبر ہے لیکن ان کی ادائیگی زیادہ اچھی خبر ثابت نہیں ہوتی۔ ابھی تو آئی ایم ایف کے گُن گائے جا رہے ہیں لیکن ادائیگی کے وقت تنقید کے نشتر چلتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ سیاستدان بحوبی جانتے ہیں کہ وہ خود چل کر آئی ایم ایف ‘ ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک کے پاس جاتے ہیں یہ ادارے خود قرض دینے کے لیے رابطہ نہیں کرتے۔ عوام کے سامنے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے ان اداروں پر تنقید کرنا نامناسب ہے۔ اس کے علاوہ ماہرین توقع کر رہے ہیں کہ جو قرض تحریک انصاف کی حکومت لے رہی ہے اس کی بہترین انداز میں مانیٹرنگ کا نظام بھی بنایا گیاہے۔ کچھ اداروں میں نظام پہلے سے موجود ہے لیکن درست انداز میں لاگو نہ کرنے کی وجہ سے ماضی میں خوردبرد کی شکایات آتی رہی ہیں ۔'' صاف چلی شفاف چلی‘ تحریک انصاف چلی‘‘ وزیراعظم صاحب کا نعرہ رہا ہے ‘مجھے امید ہے کہ وہ اس نعرے کی لاج رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے اور جو قرض حاصل کیے جا رہے ہیں ان کا فائدہ حقیقی فائدہ عوام تک پہنچ سکے گا۔