حکومت پاکستان کا زیادہ فوکس قرضوں کے حصول پر ہے۔ پچھلے کالموں میں آپ کو بتایا تھا کہ کس طرح سخت شرائط پر آئی ایم ایف‘ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک سے قرضے حاصل کیے گئے ہیں اور مزید لینے کے لیے درخواستیں جمع کروا دی گئی ہیں جبکہ قرضوں کا حجم پارلیمنٹ کے طے کر دہ جی ڈی پی کی ساٹھ فیصد حد سے بڑھ چکا ہے۔ انسٹیٹیوٹ آف پالیسی ریفارمز نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اگرکوئی ملک سود کے بغیر بھی قرض دے تو نہیں لینا چاہیے کیونکہ قرضوں میں خطرناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے اور ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے۔ ان تمام حقائق کو جانتے ہوئے تحریکِ انصاف نے مزید ممالک سے قرض لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس مرتبہ سعودی عرب کا انتخاب کیا گیا ہے ‘لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چند ماہ قبل سعودی عرب نے پاکستان کو دیے گئے تین ارب ڈالر میں سے دو ارب ڈالر واپس لے لیے تھے۔ اس کے علاوہ تین اعشاریہ دو ارب ڈالر ادھار تیل کی سہولت بڑھائی نہیں گئی تھی اور چین سے ادھار رقم لے کر سعودی عرب کا قرض اتارا گیا تھا۔ اب ایسا کیا ہوا ہے کہ دوبارہ قرض ملنے کی امید پیدا ہو گئی ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ حکومت کو اس مرتبہ کس مد میں قرض چاہیے؟ کیا ڈویلپمنٹ پراجیکٹس پر کام کرنا ہے یا بیلنس آف پیمنٹ کا پیٹ بھرنا ہے؟
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے سال نومبر 2020ء تک پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات سرد مہری کا شکار رہے ہیں جس کی وجہ شاہ محمود قریشی کی کچھ تقریریں تھیں لیکن نومبر 2020ء میں ڈونلڈ ٹرمپ کی ہار اور جوبائیڈن کی جانب سے ایران کی حمایت کے اعلان کے بعد سعودی عرب نے پرانے دوستوں کے ساتھ تعلقات درست کرنے کا فیصلہ کیا۔ نیا ملنے والا قرض بھی اسی تناظر میں ہے۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے وزیر اعظم عمران خان کو سعودی عرب آنے کی دعوت دی ہے اور مبینہ طور پر سات مئی کو وزیراعظم سعودی عرب کا دورہ کر سکتے ہیں جہاں 500ملین ڈالرز کا قرض لیا جائے گا۔ اس سے پہلے سعودی عرب نے گوادر میں آئل سٹی کے قیام اور آئل ریفائنری میں سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا جس میں تقریباً دس بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری متوقع تھی۔ رزاق داؤد صاحب نے ٹویٹس بھی کیے تھے اور پوری حکومت اسے اپنی کامیابی قرار دے رہی تھی لیکن ابھی تک ان پراجیکٹس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ پانچ سو ملین ڈالرز لینے سے زیادہ بہتر یہ عمل تھا کہ بلین ڈالرز منصوبوں میں سرمایہ کاری کو بحال کیا جاتا جس سے روزگار بھی پیدا ہوتا اور پاکستان پر قرضوں کا بوجھ بھی نہ بڑھتا۔
منسٹری آف اکنامک افیئرز کے ایک عہدیدار نے بتایا ہے کہ وزیراعظم پاکستان میں ڈویلپمنٹ پراجیکٹس پر بھی بات کریں گے لیکن آئل ریفائنری میں سرمایہ کاری والا معاملہ ابھی تاخیر کا شکار رہے گا۔ ڈویلپمنٹ پراجیکٹس کے لیے قرض لیا جائے گا جس کے لیے ایم او یو بھی تیار کر لیا گیا ہے اور کابینہ نے اس کی منظوری بھی دے دی ہے جس کے تحت سعودی فنڈ فار ڈویلپمنٹ پاکستان کو 500 ملین ڈالرز کا طویل مدتی قرض دے گا۔ یہ قرض مہمند ڈیم اور ہائیڈرو پاور پراجیکٹ‘ جاگران ہائیڈرو پاور پراجیکٹ‘ شاونٹر ہائیڈرو پراجیکٹ‘جامشورو پاور جنریشن‘مانسہرہ واٹر سپلائی پراجیکٹ اور ایبٹ آباد مظفرآباد روڈ پراجیکٹ کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ آئل ریفائنری پراجیکٹ پر بھی بات ہو گی اور اس حوالے سے تفصیلی منصوبہ ترتیب دیا جا رہا ہے۔ پٹرولیم ڈویژن نے آئل ریفائنری پالیسی پر ایک ڈرافٹ تیار کیا ہے اور متعلقہ وزارتوں کو بھیج دیا گیا ہے تا کہ ماہرین کی رائے شامل ہو سکے۔ اس پالیسی کو بھی محمد بن سلمان کے سامنے پیش کیا جائے گا جس کے مطابق سعودی عرب کو بیس سال کی ٹیکس چھوٹ حاصل ہو گی۔ سرمایہ کاری پر انٹرنل ریٹ آف ریٹرن کے حوالے سے حکومت پاکستان کوئی گارنٹی نہیں دے گی بلکہ خالص کمرشل بنیادوں پر اسے چلایا جائے گا۔ موجودہ پانچ آئل ریفائنریز کو بھی اس نئی پالیسی کے تحت تحفظ دیا جائے گا۔ آئل ریفائنری اور پیٹروکیمیکل پلانٹ کے منصوبے پر کام تیز کرنے کے لیے کارپوریٹ سیکٹر جیسی ایک ٹیم کی تشکیل ہونی چاہیے جس میں سب سے بڑی رکاوٹ خود بیوروکریسی ہے۔ اس طرح کے منصوبوں پر پروفیشنلز کی ضرورت ہوتی ہے اور بلاوجہ کی تاخیر ٹیم کے کام کرنے کی صلاحیت پر اثر انداز ہوتی ہے۔
سعودی عرب سے حاصل ہونے والے قرض سے پاکستان کو کیا حقیقی فوائد حاصل ہوں گے اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ یورپی ممالک‘ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں سے حاصل کردہ قرض صحیح معنوں میں متعلقہ منصوبوں پر خرچ نہیں ہو پاتے جبکہ ان کے پاس چیک اینڈ بیلنس کا مضبوط نظام موجود ہے۔ ان حالات میں سعودی عرب سے حاصل ہونے والے قرض کا متعلقہ پراجیکٹس پر خرچ ہونا ایک سوالیہ نشان ہے کیونکہ سعودی حکام کبھی یہ نہیں پوچھیں گے کہ جو رقم آپ کو کم شرح سود پر قرض دی گئی تھی اس کے کیا نتائج نکلے‘لہٰذا یہ قرض ایک بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
دوسری طرف ایک اچھی خبر ہے کہ ایف بی آر نے دس ماہ میں تین اعشاریہ سات بلین روپے ٹیکس اکٹھا کیا ہے‘لیکن ایک بری خبر یہ ہے کہ زیادہ انحصار انڈائریکٹ ٹیکسز پر کیا جا رہا ہے۔ تقریبا ً64فیصد ٹیکسز جبری وصول کیے جا رہے ہیں۔ اگر جولائی سے اپریل کے اعدادوشمار دیکھیں تو ایف بی آر نے طے شدہ ٹیکس ہدف سے 143ارب روپے زیادہ اکٹھے کیے ہیں۔ادارے نے تین اعشاریہ سات کھرب روپے جمع کیے ہیں جبکہ ہدف تین اعشاریہ تین کھرب روپے تھا جو کہ تقریباً 14فیصد گروتھ ظاہر کرتا ہے۔ پچھلے سال اسی دورانیے سے اگر موازنہ کیا جائے تو 460ارب روپے زیادہ اکٹھے کیے گئے ہیں۔زیادہ تر آمدن کسٹم ڈیوٹی اور سیلز ٹیکس کی مد میں ہوئی ہے جبکہ انکم ٹیکس اور فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے ہدف حاصل نہیں کیے گئے۔ایف بی آر کی کارکردگی کا درست معیار انکم ٹیکس ٹارگٹ کا حصول ہوتا ہے۔ اگر درآمدات زیادہ ہو رہی ہیں اور اس مد میں ٹیکس اکٹھا ہو رہا ہے تو اس میں ایف بی آر کا کوئی کردار نہیں ہے کیونکہ درآمدکنندگان کی مجبوری ہے کہ اگر امپورٹ کیا ہے تو ٹیکس ادا کیے بغیر مال کلیئر نہیں ہوگا۔ جبکہ دوسری طرف جو مال درآمد کر رہا ہے اس کی سیل میں تو اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس کا انکم ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا‘ جس میں ممکنہ ملی بھگت بھی ہوسکتی ہے اور نااہلی کے عنصر کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔تین اعشاریہ سات ٹریلین میں سے ایک اعشاریہ سات ٹریلین درآمدات سے حاصل کیا گیا ہے۔اگر ٹیکس ریفنڈ پر نظر دوڑائیں تو اس سال اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پچھلے سال 118ارب روپے تھا جو کہ بڑھ کر 195ارب ہو گیا ہے۔ حکومت نے برآمدات سیکٹر کے لیے زیرو ریٹنگ سہولت ختم کی ہے جو کہ انڈائریکٹ ٹیکسز اور ریفنڈ میں اضافے کی ایک وجہ ہے۔ یہ اعدادوشمار ظاہر کرتے ہیں کہ ملک کے تجارتی حجم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستانی پیسہ کما رہے ہیں اسی لیے درآمدات کر رہے ہیں۔گاڑیوں کی فروخت میں بھی ریکارڈ اضافہ ہوا ہے ۔ اس کی ممکنہ وجہ کنسٹرکشن ایمنسٹی سکیم جیسی سہولتیں ہیں۔ لیکن سوال یہ پیداہوتا ہے کہ کب تک اکانومی کو اس طرح جھٹکوں سے چلایا جائے گا۔ ملک کو صحیح معنوں میں ترقی دینے کے لیے ایک نظام بنانے کی ضرورت ہے جس میں ہر شہری اپنی آمدن کے مطابق ٹیکس دے۔ ڈالر کی سمگلنگ کو روکا جائے۔ سرمایہ کاروں کو سہولتیں دی جائیں تا کہ درآمدات بڑھنے کے ساتھ برآمدات بھی بڑھ سکیں۔ ایمنسٹی سکیمیں صرف وقتی حل ہیں مستقل نہیں۔