ملکی معیشت چلانے کے چار طریقے ہیں‘ ان میں سے ایک درست ‘ دو غلط اور ایک تقریبا ًناممکن ہے۔ پہلا طریقہ برآمدات بڑھانا ہے۔ ملک میں ایسی چیزیں بنائی جائیں یا پیدا کی جائیں جنہیں بیرونِ ملک بیچا جا سکے۔ معیار پر سمجھوتہ نہ ہو اور قیمت بھی دوسرے مد مقابل ممالک سے کم رکھی جائے۔ اس طرح زرمبادلہ آ ئے گا‘ ڈالرز کے ذخائر بڑھیں گے‘ روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اورمعیشت کا پہیہ چلتا رہے گا۔ یہ سب سے بہتر طریقہ ہے اور دنیا کے نوے فیصد ترقی یافتہ ممالک اسی پر انحصار کرتے ہیں۔دوسرا طریقہ عوام پر ٹیکس لگا کر پیسہ اکٹھا کرنا ہے۔ جب ملکی ادارے چلانے کے لیے پیسے ختم ہونے لگیں تو نیا ٹیکس لگا دیں‘ عوام مجبور ہو کر ٹیکس دے گی۔ یہ طریقہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گا کیونکہ اس میں دعائیں کم اور بددعائیں زیادہ ہیں۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں یہ مسائل پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں اگر عوام پر نیا ٹیکس لگایا جائے تو اس کے بدلے سرکار سہولیات دے کر عوام کا غصہ کم کر دیتی ہے جبکہ تیسری دنیا کے ملکوں میں ٹیکس بھی لگایا جاتا ہے اور سہولیات بھی چھین لی جاتی ہیں۔ اس لیے یہ طریقہ زیادہ مقبول نہیں ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ یہ طریقہ غلط ہے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ تیسرا طریقہ قرض لے کر ملک چلانا ہے۔ پہلے ایک ملک سے مناسب شرائط پر قرض لیں‘ جب ان کی ادائیگی کا وقت آئے تو دوسرے سے تھوڑی سخت شرائط پر قرض لے لیں اور جب کوئی بھی ملک قرض دینے سے انکار کر دے تو ملکی اثاثے گروی رکھوا کر قرض لینا شروع کر دیں۔ اس طریقہ کار سے ایک عرصہ تک تو ملک چلتا رہے گا لیکن ایک وقت ایسا آئے گا کہ ملک کی نیلامی شروع ہو جائے گی۔ نہ ملک آپ کا رہے گا اور نہ ہی اس کے اثاثوں پر آپ کا کوئی حق ہو گا۔ یہ بدترین طریقہ ہے۔اس کا تباہی کے علاوہ دوسرا کوئی نتیجہ نہیں ہے۔چوتھا طریقہ یہ ہے کہ اپنی ضرورت کی ہر چیز اپنے ملک میں بنائی اور اُگائی جائے‘کسی پر بھی انحصار نہ کیا جائے۔ نہ باہر سے کچھ آئے اور نہ جائے۔ یہ آئیڈیل صورتحال ہے لیکن آج کے دور میں یہ تقریباً ناممکن ہے۔
قرضوں اور برآمدات سے ملک چلانے کے حوالے سے میں اپنے پچھلے کالموں میں تفصیل سے ذکر کرتا آیا ہوں‘ آج کا کالم سرکاری ملازمین کی تنخواہوں خصوصا ًپنشنز اور عام عوام کی تنخواہوں پر ٹیکس کے حوالے سے ہے۔ نیا بجٹ آ رہا ہے اور اس میں خسارہ پورا کرنے کے لیے نت نئی ترکیبیں تیار کی جا رہی ہیں۔ وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف کے ساتھ اگلے ہفتے ٹیکس بجٹ پر میٹنگ طے ہے۔ ان کی شرائط کو بجٹ تیار کرتے وقت مدنظر رکھا جا رہا ہے بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ ان کی خواہشات کے مطابق بجٹ تیار کیا جا رہا ہے تو غلط نہ ہو گا۔ جس بات پر سب سے زیادہ زور دیا جارہا ہے وہ پنشن پر ٹیکس لاگو کرنا ہے۔دو لاکھ اور اس سے زیادہ پنشن لینے والے سرکاری ملازمین کی پنشن پر ٹیکس لگانے کی تجویز ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے آمدن ڈاکٹر وقار مسعود صاحب نے مشورہ دیا ہے کہ جن سرکاری ملازمین کی سالانہ پنشن پچاس لاکھ یا ماہانہ چار لاکھ سولہ ہزار سے زائد ہو ان پر دس فیصد ٹیکس لگایا جائے۔ جب اعدادوشمار دیکھے گئے تو یہ حقائق سامنے آئے کہ بائیسویں گریڈ تک کا کوئی بھی آفیسر اس کی زد میں نہیں آتا۔ جس کے بعد اس آپشن کو مبینہ طور پر مسترد کر دیا گیا۔ اگر 2019-20ء کے ٹیکس اخراجات رپورٹ کی بات کریں تو وفاقی حکومت نے ٹیکس فری پنشن کی مد میں 21 ارب روپے کا نقصان برداشت کیا ہے۔مختلف سکیموں کے تحت سالانہ ٹیکس نقصان کی قیمت تقریباً ایک اعشاریہ چار کھرب روپے بنتی ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستان کو ٹیکس نقصانات سے نکلنے کا منصوبہ تیار کرنے کے لیے کہا ہے۔ ان کے مطابق جن لوگوں کو یہ مراعات دی جارہی ہیں اور نقصان برداشت کیا جا رہا ہے وہ مالی طور پر مضبوط ہیں؛چنانچہ یا تو مراعات ختم کی جائیں یا پھر ان کی پنشن پر ٹیکس لگایا جائے۔ ایف بی آر نے اس حوالے سے عدلیہ کی پنشن پر ایک رپورٹ تیار کی ہے جس کے مطابق ججز کو جو الاؤنس اور گھر کا کرایہ دیا جاتا ہے اس پر ٹیکس لگایا جانا چاہیے۔ ٹیکس حکام نے یہ تجویز دی ہے کہ اس حوالے سے انکم ٹیکس آرڈیننس کے متن کو فنانس بل 2021ء کے ذریعے دوبارہ لکھا جائے۔ ججز کی پنشن اور الاؤنس پر ایک فیصلے کے ذریعے ٹیکس چھوٹ دی جا چکی ہے۔ پچھلے مہینے ایف بی آر کو بتایا گیا کہ چھوٹی یا بڑی عدالتوں کے تمام جج صاحبان کے لیے ایک ہی اصول ہے یعنی جوڈیشل الاؤنس اور خصوصی جوڈیشل الاؤنس پر سب کو ٹیکس چھوٹ حاصل ہے۔یہ فیصلہ ملنے کے بعد ایف بی آر نے نوٹیفکیشن جاری کر دیا۔یہ رعایت پشاور ہائی کورٹ کے 2017ء اور سندھ ہائی کورٹ کے جولائی 2020ء کے فیصلوں کے تحت دی گئی تھی۔ جواز یہ بتایا گیا کہ خصوصی الاؤنس کارکردگی کی بنا پر دیے گئے ہیں جو کہ تنخواہ کے زمرے میں نہیں آتے اس لیے ان پر انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔ میں یہاں یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ عمومی طور پر عدلیہ کے الاؤنس ان کی تنخواہوں سے تقریباً 300 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے جب ایف بی آر کا مؤقف جاننے کی کوشش کی گئی تو علم ہوا کہ انکم ٹیکس آرڈیننس 2001ء کے سیکشن 12 کے تحت تمام الاؤنس اور فوائد جو تنخواہ کے ساتھ ملتے ہیں وہ قابل ٹیکس ہیں۔ اسی اصول کے تحت پورے ملک میں ہر خاص و عام کی تنخواہ اور فوائد کو ملا کر ٹیکس کاٹا جاتا ہے۔ پچھلے سال بھی بجٹ پیش کرنے سے پہلے بڑے درجے کے سرکاری ملازمین کی پنشن اور تنخواہوں پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن اسے عملی جامہ نہ پہنایا جا سکا۔ پچھلے سال آئی ایم ایف کا زور پاکستان کے بجٹ پر نسبتاً کم تھا کیونکہ ایک طرف آئی ایم ایف سے تعلقات خراب تھے اور دوسری طرف کورونا کی وجہ سے بہت سے معاملات نظر انداز کر دیے گئے تھے لیکن اس سال حالات مختلف ہیں۔ یہ بتایا جارہا ہے کہ ترمیم کا فیصلہ کر لیا گیا ہے اگر کسی ایشو پر بات چیت ہو رہی ہے تو وہ ٹیکس کی شرح اور رقم کی حد ہے۔
پنشن پر ٹیکس کا معاملہ ایک طرف لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے پنشن فنڈ کو ملک کے لیے سب سے بڑا معاشی بوجھ بتایا جا رہا ہے۔ بلکہ اپنے دوسرے وفاقی بجٹ سے پہلے پنشن ختم کرنے کا بھی منصوبہ بنایا جا رہا تھا۔ اس حوالے سے پنشنرز کو بہت تنگ بھی کیا گیا کہ انہیں مجبوراً ہڑتال کرنا پڑی اور سڑکوں پر آنا پڑا جس کے بعد معاملات بہتر ہوئے۔ یہاں اس بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ عام آدمی کی تنخواہوں پر ٹیکس کا ریٹ بڑھانے کی بھی تجویز ہے جو کہ شوکت ترین صاحب کے مؤقف اور وعدوں کے الٹ ہے۔ ترین صاحب نے اعلان کیا تھا کہ ٹیکس ریٹ بڑھانے کی بجائے ٹیکس بیس بڑھانے پر توجہ دی جائے گی۔ اگر عام آدمی پر ٹیکس بڑھا کر آمدن بڑھانے کی تجویز پر عمل کیا گیا تو اس کے نتائج زیادہ اچھے نہیں ہوں گے۔ مہنگائی اور بے روزگاری کے اس دور میں عام آدمی کو ٹیکس ریلیف ملنا چاہیے۔ اس سال کے ریٹس پچھلے سالوں کی نسبت کم ہونے چاہئیں۔ جن سرکاری ملازمین کے گھر‘ گاڑی‘ نوکر‘ بچوں سکولز اور صحت کا خیال سرکار رکھتی ہے ان پر ٹیکس بڑھانا کسی حد تک قابلِ قبول ہے لیکن جس عوام نے یہ تمام سہولیات اپنی جیب سے حاصل کرنا ہوں حکومت کو ان پر رحم کرنا چاہیے۔