نئے مالی سال کا بجٹ پیش ہو گیا ہے جس کا حجم 8487ارب روپے ہے۔حکومتی دعویٰ تھا کہ نئے ٹیکس نہیں لگائے جائیں گے اور نہ ہی آئی ایم ایف کی بات مانی جائے گی‘ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ حقیقت کیا ہے۔ وفاقی حکومت نے تقریباً 383 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگائے ہیں جو کہ اپنی نوعیت میں مہنگائی میں تیزی سے اضافے کا باعث بنیں گے۔ سب سے بڑا عوامی بوجھ تین منٹ کی موبائل کال پر ایک روپیہ ٹیکس ہے‘ ہر میسج پر دس پیسہ اور ایک جی بی انٹرنیٹ کے استعمال پر پانچ روپے ٹیکس لگایا گیا جس سے 100 ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا ہونے کا حساب لگایا گیا۔ آج کے دور میں موبائل فون کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا‘ مالی حیثیت کمزور ہو یا مضبوط موبائل فون ہر کلاس کے استعمال میں ہے شاید یہی وجہ ہے کہ ٹیکس جمع کرنے کا یہ آسان طریقہ استعمال کیا گیا حالانکہ حکومت پہلے ہی تنقید کی زد میں ہے کہ سارا زور انڈائریکٹ ٹیکسز کی جانب ہے۔تاہم وزیر خزانہ شوکت ترین نے ہفتہ کے روز پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں کہا کہ موبائل کالز‘ انٹرنیٹ ڈیٹا اور ایس ایم ایس پر ٹیکس لگانے کی وزیراعظم اورکابینہ نے مخالفت کی ہے جس کے بعد ان سب پر ٹیکس عائد نہیں ہوگا‘مگر سوال یہ ہے کہ حکومت یہ 100 ارب روپے کہاں سے اکٹھے کرے گی؟ خیر چند دنوں میں اس کا اندازہ ہو جائے گا۔ کروڈ آئل کی امپورٹ پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگایا گیا ہے جس سے 38 ارب کا ٹیکس ریونیو اکٹھا ہو سکے گا۔ اس بارے بجٹ سے پہلے ہی میں آپ کو بتا چکا ہوں۔ اشیائے خورونوش کی تقریباً ہر شے پر ٹیکس لگایا گیا ہے۔ چینی پر ریٹیل ٹیکس لگایا جائے گا جس سے چینی کی قیمت سات روپے فی کلو تک بڑھ سکتی ہے۔
ایف بی آر کے ممبر اِن لینڈ ریونیو پالیسی چوہدری محمد طارق نے بجٹ میں ٹیکس معاملات پر میڈیا کو بریفنگ دی کہ حکومت نے 383 ارب کے ٹیکس لگائے ہیں اور 119 ارب کے ریلیف دیے ہیں۔ پہلے 264 ارب کے ٹیکسز لگائے گئے تھے لیکن بعدازاں 116 ارب کے اضافی ٹیکس لگائے گئے۔ اس میں تقریباً 58 ارب روپے کے ٹیکس ریلیف بھی دیے گئے ہیں۔ اس حساب سے اضافہ تقریباً 58 ارب کا ہوا ہے۔ تقریباً 215 ارب کے سیلز ٹیکس اور ایف ای ڈی کا بوجھ ڈالا گیا۔اس میں بھی 19 ارب کا ریلیف دیا گیا۔ اگر کسٹم کی بات کی جائے تو 52 ارب کا اضافہ ہوا ہے لیکن 42 ارب کے ریلیف بھی دیے گئے ہیں یعنی کہ خالص اضافہ 10 ارب ہوا۔ موبائل فون کی درآمد پر امپورٹ ڈیوٹی بڑھا ئی گئی ہے جس سے 16 ارب ٹیکس اکٹھا ہو گا۔ پاکستان میں سالانہ 270 ارب کے موبائل فون درآمد کیے جاتے ہیں۔پٹرول کی درآمد پر ٹیکس پانچ فیصد سے بڑھا کر 10 فیصد کر دیا گیا ہے جبکہ ڈیزل کی درآمد پر ڈیوٹی تین فیصد کم کر دی گئی ہے جس سے مجموعی طور پر تقریباً چار ارب کا ٹیکس اکٹھا ہو سکے گا۔اس کے علاوہ کاروں کی درآمد پر ڈیوٹی میں تبدیلیاں کرنے سے 15 ارب روپے کا اضافی ٹیکس اکٹھا ہو گا۔ ٹائروں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی دو گنا بڑھا کر 10 فیصد کر دی گئی ہے جس سے 15 ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہو گا۔ تقریباً 83 اقسام کی درآمدات پر نئے ٹیکسز لگائے گئے ہیں جس سے گیارہ ارب کے اضافی ٹیکس اکٹھے ہوں گے۔ ان میں کھانے پینے کی اشیا اور کیمیکلز بھی شامل ہیں۔ تقریباً 23 ایسی اشیا پر17 فیصد سیلز ٹیکس بڑھا دیا گیا ہے جن پر سیلز ٹیکس ایک فیصد سے لے کر 12 فیصد کم ہونے کی توقع تھی‘ ان میں چاندی‘ سونا‘ زیورات‘ دودھ‘ ایل این جی اور آر ایل این جی شامل ہیں۔ اس سے تقریبا 35 ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہو سکے گا۔ گوشت‘ کریم اورفل فیٹ دودھ کی درآمد پر 17 فیصد ٹیکس لگنے سے تقریباً 14 ارب روپے اکٹھے کیے جا سکیں گے۔ آن لائن سٹورز پر بھی 17 فیصد سیلز ٹیکس لگا یاگیا ہے جس سے 11 ارب آمدن حاصل ہو سکے گی۔ پوائنٹ آف سیل نظام پر کیے گئے اقدامات سے سات ارب اضافی ٹیکس حاصل ہو سکے گا۔ اگر انکم ٹیکس پر نظر دوڑائیں تو کاروباری حضرات کے لیے تقریباً 65 ارب روپوں کی ٹیکس چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔ انٹر کارپوریٹ ڈیویڈنڈ پر بھی 15 فیصد ٹیکس لگا یا گیا ہے جس سے پانچ ارب روپے ٹیکس اکٹھا ہو گا۔بیس ارب روپے ودہولڈنگ ٹیکس کے نظام کو بہتر کر کے حاصل کیے جائیں گے۔ پچاس لاکھ سے زائد پراپرٹی بیچنے والوں پر ٹیکس لگا کر چار ارب روپے اکٹھے کیے جائیں گے۔ پراپرٹی انکم کو نارمل ٹیکس نظام میں لا کر تقریباً دو ارب ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا۔ ایک طرف رئیل اسٹیٹ کو ایمنسٹی کے تحت ریلیف دیا گیا ہے جبکہ دوسری طرف ٹیکس بڑھائے جا رہے ہیں جس سے انویسٹرز کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ سروس کی برآمدات پر ایک فیصد ٹیکس لگا کر پانچ ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جائے گا۔
اگر نئے ٹیکسز کا حقیقی جائزہ لیاجائے تو یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی تقریباً ہر شرط مان لی ہے۔ صرف تنخواہوں پر ٹیکس کی شرط نہیں مانی لیکن اس کی کمی موبائل کال پر ٹیکس لگا کر پوری کر دی گئی۔ اگر موازنہ کیا جائے تو تنخواہوں پر 27 ارب روپے اضافی ٹیکس لگانے کا دباؤ تھا لیکن حکومت نے موبائل کال اور انٹرنیٹ کے ذریعے تقریباً 100 ارب کا ٹیکس بوجھ ڈال دیا ہے۔اگرچہ بجٹ کے اگلے ہی روز وزیر خزانہ نے 100ارب روپے کے ان ٹیکسوں کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا مگر مستقبل میں کیا صورت بنتی ہے ‘ کیا یہ خاتمہ مستقل ہے یا حکومت کسی وقت یہ ٹیکس دوبارہ لگا سکتی ہے ‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ایک سوال یہ بھی ہے کہ یہ ٹیکس ختم کرنے کی صورت میں اس مد میں 100 ارب روپے کا مجوزہ ریونیو کہاں سے پورا ہو گا؟
نئے مالی سال کا ٹیکس ہدف پانچ اعشاریہ آٹھ ہزار ارب روپے ہے جو کہ پچھلے سال کی ٹیکس کولیکشن کی نسبت تقریباً 24 فیصد زیادہ ہے۔ آئی ایم ایف نے ہدف پانچ اعشاریہ نو ہزار ارب روپے طے کیا تھا جسے بعد میں کم کروا لیا گیا۔ یاد رہے کہ یہ اضافی ٹیکس ہیں جو عوام کی جیبوں سے نکالے جائیں گے۔تاہم فاٹا اور پاٹا سے متعلق اچھی خبریں ہیں کہ ان علاقوں میں پروڈکشن پلانٹ لگانے کی صورت میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی معاف کر دی جائے گی۔ اس فیصلے سے بہت سی فیکٹریاں فاٹا اور پاٹامنتقل ہو سکتی ہیں‘ لیکن اس پر نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ منتقلی صرف کاغذوں کی حد تک نہ ہویعنی فیکٹری کراچی میں کام کر رہی ہو اور اس کا رجسٹرڈ ایڈریس فاٹا کا ڈال دیا جائے۔ یہاں ذہن نشین رکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ حکومت نے 64B‘64D‘64E کے تحت نئی کمپنیوں کو پانچ سال کی ٹیکس چھوٹ دی تھی‘ جب سرمایہ کاروں نے اربوں روپے لگا دیے توحکومت نے ایک ہی جھٹکے میں ٹیکس چھوٹ ختم کر دی‘ آج وہ سب ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔
گاڑیوں کے حوالے سے اچھی خبر ہے‘ خاص طور پر مڈل کلاس طبقے کوکچھ ریلیف ملتا دکھائی دے رہا ہے۔ 850 سی سی تک کی گاڑیوں پر ایف ای ڈی ختم کر دی گئی ہے اور سیلز ٹیکس 17 فیصد سے کم کر کے 12.5 فیصد کر دیا گیا ہے جس سے گاڑیوں کی قیمت میں ایک اندازے کے مطابق ایک لاکھ تیرہ ہزار روپے تک کمی واقع ہو سکے گی‘ لیکن آٹو موبائل کمپنیاں اپنی مرضی سے قیمتوں میں اضافہ کرتی رہتی ہیں تو یہ خدشہ موجود ہے کہ اس ٹیکس ریلیف کا فائدہ عوام کی بجائے کار کمپنیوں کو زیادہ ہو سکتا ہے۔ عوام تو ذہنی طور پر موجودہ قیمت پر گاڑی لینے کو تیار ہیں اس کا ثبوت چھوٹی گاڑیوں سے حاصل ہونے والے حالیہ منافع کی رپورٹ ہے لیکن کمپنیاں قیمتیں بڑھا کر چندہ ماہ بعد آج کی سطح پر لا سکتی ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان سے باز پرس کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ تمام اعدادوشمار کو سامنے رکھتے ہوئے اگر یہ کہا جائے کہ بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ ہم نے آئی ایم ایف کی ہر بات مان لی ہے۔ عوامی بجٹ ہونے کا شور زیادہ ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس دکھائی دیتی ہے۔