حکومت پاکستان 11 جون کو 8000 بلین مالیت کا وفاقی بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے۔ بجٹ کاغذات کے مطابق معیشت کا حجم 52 ہزار 57 بلین تک پہنچے گا۔ شرح نمو چار اعشاریہ آٹھ فیصد ہو گی۔ 3060 بلین روپے قرض اور سود کی ادائیگی میں جائیں گے۔ بجٹ خسارہ ممکنہ طور پر 2915 ارب ہو گا۔ 900 بلین سالانہ ڈویلپمنٹ پروگرام کے لیے اور صوبوں کے لیے ممکنہ طور پر 1000 ارب کے ڈویلپمنٹ بجٹ ہوں گے۔ 530 بلین سبسڈی کے لیے مختص ہوں گے۔ 1400 بلین روپے کا ڈیفنس بجٹ ہو گا۔ ٹیکس ہدف 5820 بلین اور بغیر ٹیکس ریونیو 1420 بلین روپے ہو گا۔ لیکن یہ اعداد وشمار عوام کی دلچسپی کے نہیں ہیں۔ عوام جاننا چاہتے ہیں کہ مہنگائی کم ہو گی یا نہیں اور آمدن بڑھے گی یا نہیں۔ آئیے! جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
میں نے پچھلے کالم میں بتایا تھا کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی منظوری کے لیے بجٹ بھجوا دیا ہے‘ جسے ابھی تک منظور نہیں کیا گیا۔ حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین 5.8 ٹریلین کا ٹیکس ہدف طے ہوا تھا لیکن وزارتِ خزانہ کی جانب سے جو حساب کتاب بنا کر بھیجا گیا ہے اس کے مطابق 5.3 ٹریلین کے ٹیکس اہداف حاصل کرنے کا منصوبہ موجود ہے اور بقیہ رقم کیسے حاصل کی جائے گی کچھ بتایا نہیں گیا۔ صرف یہ کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان پر چھوڑ دے کہ وہ کیسے اس فرق کو مکمل کرے گا۔ ممکنہ طور پر انتظامی اصلاحات کر کے ہدف حاصل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے جس پر ادارے نے اعتراض کیا ہے اور پابند کیا ہے کہ مزید ٹیکس لگا کر فرق کو مکمل کیا جائے۔ اس پر حکومت نے چند تجاویز پیش کی ہیں۔ فرٹیلائزر پر سیلز ٹیکس دو فیصد ہے‘ اسے بڑھا کر دس فیصد کر دیا جائے جس سے 32 ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا ہو گا لیکن اس سے عام آدمی کے لیے خوراک مزید مہنگی ہو جائے گی یعنی حکومت جو اگلے سال مہنگائی کی شرح آٹھ فیصد تک لانے کا دعویٰ کر رہی ہے‘ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔ یاد رہے پچھلے ماہ فوڈ انفلیشن سولہ اعشاریہ چونتیس فیصد رہی۔ آنے والے دنوں میں حکومت کون سے ایسے اقدامات کر سکتی ہے جس سے مہنگائی آٹھ فیصد تک آئے گی؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا ابھی تک جواب نہیں دیا گیا۔
اس کے علاوہ کروڈ آئل کی در آمد پر 17 فیصد سیلز ٹیکس لگانے کی تجویز زیر غور ہے۔ جس سے ایک اندازے کے مطابق 85 بلین روپے ٹیکس اکٹھا ہو سکے گا۔ مقامی سطح پر پہلے ہی ٹیکس موجود ہے لیکن ایف بی آر کا خیال ہے کہ ایک بڑی کمپنی اپنی مصنوعات پر ٹیکس چھپاتی ہے۔ ان حکومتی اقدامات سے مہنگائی بڑھنے کے امکانات زیادہ ہو سکتے ہیں کیونکہ جو بھی نیا ٹیکس لاگو ہو گا اس کا بوجھ عوام پر ہی پڑے گا۔ اگلی تجویز بینک منافع پر ٹیکس کے حوالے سے ہے یعنی جو غریب لوگ قومی بچت کے بینکوں سے کچھ منافع کما کر گزر بسر کر رہے ہیں‘ ان کے لیے بھی حالات تنگ کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ حکومت نے تجویز دی ہے کہ بینکوں سے حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح بڑھا دی جائے جس سے تقریباً دو ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا کیا جا سکے گا۔ واضح رہے کہ یہ تمام تجاویز ابھی زیر غور ہیں البتہ حکومت یہ اقدامات کرنے کے لیے تیار ہے‘ یعنی کم از کم یہ اضافے تو یقینی سمجھیں۔ آئی ایم ایف کا مطالبہ اس سے زیادہ اضافے کا ہی ہو گا۔
اختلاف کی ایک بڑی وجہ حکومت کے وعدے اور معاہدے بھی ہیں جنہیں وہ پورا نہیں کر رہی۔ سابق وزیر خزانہ نے 500 ملین ڈالرز کی قسط کی بحالی کے لیے ایک معاہدہ یہ بھی کیا تھا کہ نیپرا آرڈیننس کو پارلیمنٹ سے پاس کرایا جائے گا تا کہ وہ طے شدہ شیڈول کے مطابق خود ہی بجلی کی قیمتیں بڑھاتا رہے۔ جو نیپرا آرڈیننس اس سے قبل صدر مملکت نے پاس کیا تھا‘ وہ اگلے ماہ ختم ہو رہا ہے۔ اس کی مدت چار ماہ تھی‘ ایک بار مدت ختم ہونے کے بعد مزید صرف چاہ ماہ کے لیے صدرِ مملکت دوبارہ منظوری دے سکتے ہیں البتہ اس کے بعد یہ ختم ہو جائے گا۔ اس لیے پارلیمنٹ سے منظوری پر زور دیا جا رہا ہے۔ اس آرڈیننس کے تحت اپریل 2021ء سے جون 2023ء تک چھ مرحلوں میں پانچ اعشاریہ پینسٹھ روپے فی یونٹ ٹیرف میں اضافہ کیا جائے گا جس سے 884 بلین روپے صارفین کی جیبوں سے نکالا جائے گا؛ تاہم وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے پاور تابش گوہر نے کہا ہے کہ یہ اضافہ اس صورت میں کیا جائے گا جب حکومت سستی بجلی پیدا کرنے اور کارکردگی بہتر بنانے میں ناکام ہو جائے گی۔ خدشہ یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ سرکار بہتر کارکردگی نہیں دکھا پائے گی۔ بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ وزارتِ خزانہ نے آئی ایم ایف سے کہا ہے کہ سٹیٹ بینک سے حاصل ہونے والا منافع اور پیٹرولیم مصنوعات سے حاصل ہونے والی آمدن کو ٹیکس ہدف میں شامل کرنے کی اجازت دی جائے لیکن اسے تقسیم کے پُول کا حصہ نہ بنایا جائے۔ نان ٹیکس آمدن کے ٹیکس پول میں شامل ہونے سے ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب بہتر ہو سکتا ہے‘ لیکن نان ٹیکس آمدن اس وقت گزشتہ حکومت سے بھی کم سطح پر کھڑی ہے۔
اس کے علاوہ قرض کی صورتحال بھی تشویش ناک ہے۔ ابتدائی حساب کے تحت مالیاتی ادارے نے تخمینہ لگایا تھا کہ پاکستان کو اگلے مالی سال کے لیے 25 ارب ڈالرز بیرونی قرض کی ضرورت پڑ سکتی ہے لیکن اب اس میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے کیونکہ پاکستان نے جی ڈی پی ہدف تقریباً پانچ فیصد طے کیا ہے جسے حاصل کرنے کے لیے درآمدات میں اضافہ ہو گا جو پہلے ہی برآمدات سے دو گنا بڑھ چکی ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان کو آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے مزید قرض کی ضرورت پڑے گی لہٰذا آئی ایم ایف کے مطالبات مانے بغیر کوئی راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ بجٹ خسارہ زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے ڈومیسٹک فنانسنگ میں بھی اضافہ ہو گا۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی برائے آمدن ڈاکٹر وقار نے پارلیمانی کمیٹی سے کہا ہے کہ صوبوں کی جانب سے 570 بلین روپے کی بچت کے باعث اگلے سال بجٹ خسارے کا ہدف شرح نمو کا چھ اعشاریہ تین فیصد تھا؛ البتہ پارلیمنٹیرین نے ان اعداد و شمار کو غیر حقیقی قرار دیا ہے۔
آج وزارتِ خزانہ اور آئی ایم ایف کی چھٹی رِیویو میٹنگ ہو گی جس میں پاکستان کو مزید ایک بلین ڈالر قسط دینے پر غور کیا جائے گا۔ پہلے 750 ملین ستمبر میں دیا جانا تھا لیکن ماضی میں پروگرام تاخیر کا شکار رہا جس کی کمی اب پوری کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ نیپرا آرڈیننس کی منظوری، قرضوں کے حجم میں کمی اور ٹیکسز میں اضافے کے وعدوں کی تکمیل کے بغیر ایک ارب ڈالر قسط ملنا بظاہر مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف آئی ایم ایف کی منتیں کی جا رہی ہیں اور دوسری طرف عوام کو بتایا جا رہا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا ہے‘ یہ بجٹ ہم اپنی مرضی سے پیش کریں گے۔ دراصل وزیر خزانہ شوکت ترین اور آئی ایم ایف کے نمائندوں کے مابین مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بجٹ تقریباً مسترد کر دیا گیا ہے۔ اب وزیراعظم صاحب اگلے ہفتے آئی ایم ایف کے صدر سے میٹنگ کریں گے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر پیش کر کے عوام کی نظروں میں ہیرو بننے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن یاد رہے کہ آئی ایم ایف سے قرض کی اقساط کے حصول کے لیے پاکستان کو منی بجٹ پیش کرنا پڑسکتا ہے۔ پھر عوام کو بتایا جائے گا کہ ہم تو آپ کی بہتری چاہتے ہیں، سارا قصور بین الاقوامی مالیاتی ادارے کا ہے‘ وہی ملک میں مہنگائی کا ذمہ دار ہے۔