حکومت کا دعویٰ ہے کہ معاشی ترقی کے اعتبار سے ملک صحیح راستے پر چل نکلا ہے اور آنے والے دو سالوں میں عوام پر خوشحالی کے دروازے کھل جائیں گے بلکہ وزیر دفاع پرویز خٹک صاحب تو یہ اعلان بھی کرتے دکھائی دیے کہ پورے ملک‘ خصوصاً کے پی میں غربت ہے ہی نہیں، اگر کوئی غریب ہے تو میرے سامنے لے کر آئیں۔ حکومت کی معاشی پالیسیاں بہترین ہیں اور اپوزیشن پروپیگنڈا کر رہی ہے۔ دوسری جانب ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق‘ صرف خیبر پختونخوا میں کورونا کے باعث 38 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں اور غربت کی شرح 33 فیصد سے بڑھ کر 41 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ ایک طرف احساس پروگرام کے تحت غربا کے مالی حالات بہتر کرنے کے لیے 270 ارب تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے‘ وزیراعظم غربا کو مفت کھانا کھلانے کے لیے لنگر خانے کھول رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وزیر دفاع صاحب فرما رہے ہیں کہ مجھے کوئی غریب لا کر دکھائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی زیادہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ترقی ہو رہی ہے۔ اس حساب سے پاکستان کو جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے زیادہ ترقی یافتہ ہونا چاہیے تھا کیونکہ پاکستان میں مہنگائی کی شرح دس اعشاریہ آٹھ فیصد ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ اس معاملے میں یا تو احساس پروگرام، لنگر خانوں اور پناہ گاہوں کے نام پر قوم کا پیسہ ضائع کیا جا رہا ہے یا شاید پرویز خٹک صاحب کو زمینی حقائق کا علم نہیں ہے۔ اصل حقیقت کیا ہے‘ سب کے علم میں ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے‘ باغ تو سارا جانے ہے۔
حکومتی وزرا شاید مہنگائی بڑھنے اور قرض لینے کو ہی ترقی سمجھتے ہیں۔ جس بجٹ کو پاکستان کی تاریخ کا بہترین بجٹ قرار دیا جا رہا ہے‘ وزارتِ خزانہ نے اسی بجٹ کی سپورٹ کے لیے تقریباً ایک اعشاریہ آٹھ ٹریلین روپے سکوک بانڈز کے ذریعے حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے موٹرویز اور ایئر پورٹس کو گروی رکھا جائے گا۔ اس کے لیے وزارتِ خزانہ نے اسلام آباد پشاور موٹر وے ایم ون، پنڈی بھٹیاں فیصل آباد ایم تھری، اسلام آباد ایکسپریس جیسے ملکی اثاثوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ لاہور کا علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ، اسلام آباد ایئرپورٹ اور ملتان ایئرپورٹ کو گروی رکھنے کی آپشنز بھی زیر غور ہیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ لاہور اسلام آباد موٹروے کو‘ چکوال اسلام آباد سیکشن کے علاوہ‘ پہلے ہی گروی رکھ کر قرض حاصل کیا جا چکا ہے۔ اس کے علاوہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو بھی بطورِ ضمانت رکھوایا جا چکا ہے۔ وزارتِ خزانہ نے نیشنل ہائی وے اتھارٹی اور سول ایوی ایشن اتھارٹی سے درخواست کی ہے کہ ان اثاثوں کے حوالے سے این او سی جاری کیا جائے تا کہ قرض لینے کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔ سی اے اے نے ابھی تک جواب نہیں دیا ہے لیکن این ایچ اے نے این او سی دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ پہلے یہ بتائیں کہ اثاثوں کو استعمال کرنے کے عوض ادارے کو کیا دیا جائے گا۔ جس پر وزارتِ خزانہ نے تاحال کوئی جواب نہیں دیا ہے بلکہ وفاقی کابینہ سے دوبارہ درخواست کی ہے کہ ہم کسی طرح بھی ادارے کو آمدن بڑھانے میں مددگار ثابت نہیں ہو سکتے لہٰذا این ایچ اے کو خصوصی حکم جاری کریں کہ وہ رکاوٹ پیدا نہ کرے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ان اثاثوں کی نئی قیمت ابھی تک جاری نہیں کی گئی۔ وزارتِ خزانہ نے پرانے اعداد و شمار اور ایئر پورٹس کے معاملے پر کچھ نئی رپورٹس کو بنیاد بنا کر تقریباً دو اعشاریہ دو ٹریلین روپوں کا تخمینہ لگایا ہے لیکن ابھی تک فائنل رپورٹ جاری نہیں ہو سکی؛ البتہ ایک اعشاریہ چھہتر ٹریلین کے قرض کے لیے تقریباً دو اعشاریہ دو ٹریلین کے اثاثے گروی رکھوائے جانے کا منصوبہ ہے۔ ان میں مقامی اور بین الاقوامی اسلامک بانڈز شامل ہیں۔ تین اعشاریہ پانچ بلین ڈالر یا پانچ سو ساٹھ بلین روپوں کے بین الاقوامی سکوک بانڈ ہیں۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق لاہور ایئر پورٹ کی قیمت 980 ارب یا چھ اعشاریہ ایک بلین ڈالر ہے۔ اسلام آباد انٹرنیشنل ایئر پورٹ 230 ارب یا ایک اعشاریہ چار بلین ڈالر اور ملتان ایئر پورٹ کی قیمت تقریبا 320 ارب روپے یا دو بلین ڈالر ہے۔ اسی طرح اسلام آباد ایکسپریس 470 ارب روپے یا تین بلین ڈالر کے قریب ہے۔ یاد رہے کہ کراچی کے جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کو 700 ارب روپوں کے عوض گروی رکھوایا گیا تھا۔
یہ سب کچھ اس وقت کرنا پڑ رہا ہے جب روشن ڈیجیٹل اکائونٹس میں ایک ارب ڈالر سے زائد کے فنڈز آ چکے ہیں۔ حکومت برآمدات میں پانچ ارب ڈالر اضافے کی دعویدار ہے اور شرح نمو تین اعشاریہ چورانوے فیصد بتائی جا رہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بیرونِ ملک سے آنے والے ڈالرز کی مقدار میں اضافہ نہ ہوتا تو قرض لینے کی رقم میں کتنا اضافہ ہوتا؟ ڈالر ریٹ کیا ہوتا اور مہنگائی کی شرح کیا ہوتی؟ اگر حکومتی وزرا حقائق کی درست ترجمانی کر رہے ہیں تو ملکی اثاثوں کو گروی رکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہو رہی ہے؟
حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ قرض چونکہ سستے پڑتے ہیں اس لیے ان پر زیادہ فوکس کیا جاتا ہے۔ ملک کے اثاثے ملک میں ہی رہتے ہیں اور کم شرح پر قرض بھی مل جاتا ہے۔ پی ٹی آئی حکومت اسے اپنی کامیابی قرار دیتی ہے لیکن ماضی میں جب (ن) لیگ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے قرض کے عوض اثاثے گروی رکھوائے جاتے تھے تو تحریک انصاف ان پر ملک بیچنے کا الزام عائد کرتی تھی۔ اگر اس وقت کی وزیراعظم عمران خان کی تقریریں سامنے رکھی جائیں تو وہ یہ کہتے دکھائی دیتے تھے کہ اگر ملک میں اوپر چور بیٹھے ہوں گے تو ملک قرضوں پر ہی چلے گا۔ اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ آج خرابی کہاں پر ہے؟اگر ماضی کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی نے سال 2008ء سے 2013ء تک 14 سکوک ٹرانزیکشنز کیں جن کے ذریعے مختلف اثاثوں کو گروی رکھوا کر سکوک بانڈز کے ذریعے پانچ سو ایک اعشاریہ پانچ ارب روپے قرض حاصل کیا گیا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) نے 2013ء سے 2018ء تک پانچ سکوک ٹرانزیکشنز کے ذریعے 435 ارب روپے قرض حاصل کیا۔ جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے تقریباً بارہ سکوک ٹرانزیکشن کی جا چکی ہیں جن کے ذریعے 762 ارب روپے قرض لیا جا چکا ہے جو کہ پچھلی دونوں حکومتوں کی نسبت زیادہ ہے۔ آج تک مجموعی طور پر 32 مقامی سکوک ٹرانزیکشنز ہوئی ہیں جن سے ایک اعشاریہ چھ ٹریلین روپے قرض حاصل کیا گیا، اس کے علاوہ چار بین الاقوامی اجارہ سکوک ٹرانزیکشن سے تین اعشاریہ چھ ارب ڈالر حاصل کیے جا چکے ہیں۔ اب نئی ٹرانزیکشن سے 1.76 ٹریلین کا قرض حاصل کیے جانے کی تیاری ہے جو اب تک کا سب سے زیادہ قرض ہے۔
حکومت اس امر پر شادیانے بجا رہی ہے کہ اس نے تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ پیش کیا ہے جس کا حجم آٹھ ہزار ارب روپے ہے۔ میں نے پچھلے کالموں میں بتایا تھا کہ اس کے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اب نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ تاریخ کا سب سے بڑا سکوک قرض بھی حاصل کیا جا رہا ہے‘ یعنی نو سو ارب روپے کا وفاقی ترقیاتی بجٹ اسی طرح پورا کیا جائے گا۔ اسے کسی طور کامیابی نہیں کہا جا سکتا۔ حقیقی کامیابی یہ ہوتی اگر یہ رقم ملکی آمدن سے پوری کی جاتی۔ قرضوں پر معیشت چلانا ترقی یافتہ ممالک کے لیے کامیابی ہو سکتی ہے کیونکہ برآمدات اور دیگر آمدن اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ اس کے منافع کی شرح‘ سود کی شرح سے بہتر ہوتی ہے لہذا بچت میں سے سود دینا تکلیف دہ نہیں ہوتا لیکن پاکستان جیسے ملک میں پرانے قرض اتارنے سے لے کر نئے پروجیکٹس لگانے تک‘ ہر کام قرضوں پر کیا جا رہا ہے۔ اس کا بوجھ عام آدمی پر پڑے گا۔ مہنگائی میں اضافہ ہوگا اور لوگوں کی قوتِ خرید کم ہونے کا خدشہ بڑھ جائے گا۔