وفاقی بجٹ منظور ہو گیا ہے۔ اس کے خدوخال بارے پچھلے کالموں میں ذکر کر چکا ہوں۔ جو نئی بات دیکھنے میں آئی وہ یہ کہ اپوزیشن اور حکومت تقریباً تمام نکات پر مختلف رائے کی حامل دکھائی دیں لیکن ایک معاملے پر دونوں کا اتفاق ہو گیا جو ممکنہ طور پر تمام اراکین اسمبلی کے مفاد میں تھا۔ حکومتی ممبر اسمبلی قاسم نون نے تجویز دی کہ ممبران کو ملنے والے سالانہ پچیس ایئر ٹکٹس کو وائوچرز میں تبدیل کر دیا جائے تاکہ نان ممبر اسمبلی بھی یہ وائوچر استعمال کر سکے۔ اس حکومتی تجویز کی اپوزیشن نے کوئی مخالفت نہیں کی اور یہ ترمیم کثرتِ رائے سے منظور ہو گئی۔ یوں محسوس ہوا جیسے بجٹ عوام کی بہتری کے لیے نہیں بلکہ اسمبلی ممبران کو نوازنے کے لیے پیش کیا گیا۔ سیاستدانوں کو تو اچھی خبر مل گئی لیکن عوام کے مسائل کب حل ہوں گے‘ اس بارے میں نہ تو سرکار کو کچھ علم ہے اور نہ ہی اپوزیشن کو پتا ہے۔ فی الحال جو خبریں آ رہی ہیں وہ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہیں کیونکہ حکومت نے ایک نیا قرض معاہدہ کر لیا ہے۔
ملک چلانے کے لیے ڈالرز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا لیکن اس کے حصول کا فائدہ اس وقت ہوتا ہے جب یہ آمدن کی شکل میں حاصل ہوں اور آمدن بڑھانے کے لیے ایک طرف ہمیں ٹیکس نیٹ بڑھانے پر فوکس کرنا ہو گا تو دوسری جانب درآمدات کو کم اور برآمدات کو بڑھانا ہو گا۔ بصورت دیگر قرض کی صورت میں حاصل ہونے والے ڈالرز پاکستان جیسی کمزور معیشتوں پر بوجھ بن جاتے ہیں کیونکہ قرض کی ادائیگی ڈالرز میں ہی کرنا ہوتی ہے اور پاکستان میں ڈالر کس وقت اونچی پرواز پکڑ لے‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ آج ڈالر تقریباً 158 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ جس سے واجب الادا سود اور قرض‘ دونوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ان حالات میں حکومت پاکستان نے چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر مزید قرض لینے کا معاہدہ کر لیا ہے۔ منسٹری آف اکنامک افیئرز کے مطابق‘ پاکستان نے انٹرنیشنل اسلامک ٹریڈ فنانس کارپوریشن کے ساتھ تین سالہ معاہدہ کیا ہے جس کے تحت کروڈ آئل، ریفائن پیٹرولیم مصنوعات، ایل این جی اور یوریا درآمد کیے جائیں گے جو سال 2021ء سے 2023ء تک‘ یعنی آئندہ دو سالوں کے لیے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے استعمال ہوں گے۔ کورونا کے باعث یہ معاہدہ ورچوئل کیا گیا ہے۔ پاکستان سے منسٹر آف اکنامک افیئرز کے سیکرٹری اور آئی ٹی ایف سی کے سی ای او نے معاہدے پر دستخط کیے۔ اکنامک افیئرز کے وزیر عمر ایوب بھی اس موقع پر موجود تھے۔ یہ قرض لندن انٹربینک آفرڈ ریٹ میں اڑھائی فیصد اضافے پر حاصل کیا گیا ہے۔ پچھلی مرتبہ جو آئل قرض سہولت لی گئی تھی وہ لائبور پلس 2.5 سے 2.75فیصد پر لی گئی تھی لیکن یاد رہے کہ 2018ء سے 2020ء کے لیے جب یہی سہولت لی گئی تھی تو حکومت اس سے مکمل فائدہ نہیں اٹھا سکی تھی۔ چار اعشاریہ پانچ ارب ڈالر کی قرض سہولت میں سے صرف دو اعشاریہ پانچ ارب ڈالر ہی استعمال کیا جا سکا تھا جو تقریباً 55 فیصد بنتا ہے۔ سالانہ بنیادوں پر صرف 833 ملین ڈالر استعمال ہوئے جبکہ ڈیڑھ ارب ڈالر موجود تھے۔ جب اس ناکامی کی وجہ پوچھی گئی تو متعلقہ وزارت نے سارا ملبہ کورونا اور تیل کی کم قیمتوں پر ڈال دیا جبکہ سٹیٹ بینک کے مطابق‘ جولائی 2020ء سے مئی 2021ء تک پاکستان میں آٹھ اعشاریہ پانچ بلین ڈالر کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کی گئی ہیں لہٰذا وزارت کی یہ دلیل کمزور دکھائی دیتی ہے۔ حکومت اس معاہدے کو کامیابی قرار دے رہی ہے‘ بالکل اسی طرح جیسے ماضی میں اسے کامیابی سے تشبیہ دی گئی تھی لیکن نتائج اس سے برعکس نکلے اور دو طرفہ نقصان اٹھانا پڑا۔ ایک طرف عوام پر قرض کا بوجھ پڑا اور دوسری طرف مکمل فائدہ بھی نہیں اٹھایا گیا۔ نئے معاہدے سے سرکار پوری طرح فائدہ اٹھا پاتی ہے یا نہیں‘ اس کا اندازہ آئندہ چند ماہ میں ہو جائے گا لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر حکومت اس سہولت کو مکمل طور پر استعمال کر لیتی ہے تب بھی یہ معیشت پر ایک بوجھ ہے جس کی ادائیگی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کی جائے گی۔
قرض بڑھنے کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ مہنگائی بھی ہے جو پچھلے ماہ دس اعشاریہ نو فیصد ریکارڈ کی گئی۔ حکومت نے اشیائے خور ونوش کی قیمتیں کم کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن حالات کسی اور طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ سرکار نے پانچ سو چھبیس اعشاریہ آٹھ ڈالر فی میڑک ٹن کے حساب سے ایک لاکھ میٹرک ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے مطابق بندرگاہ پر پہنچ نواسی اعشاریہ چھبیس روپے فی کلوگرام ہو گی۔ ٹرانسپورٹیشن، پیکنگ اور آپریشنل اخراجات کے بعد چینی کی قیمت 104 روپے فی کلو گرام تک پہنچ جائے گی۔ وزیراعظم ممکنہ طور پر اس پر سبسڈی دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ پچھلے سال کورونا ریلیف کے نام پر یوٹیلیٹی سٹورز پر پانچ بنیادی استعمال کی چیزیں سستی دینے کے لیے وزیراعظم پاکستان کی جانب سے 50 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا لیکن صرف 7.7 ارب روپے کا فنڈ جاری ہو سکا تھا۔ وزارتِ خزانہ کے مطابق‘ اس سال بھی پانچ بنیادی استعمال کی اشیا‘ آٹا، چینی، گھی، چاول اور دالوں کی قیمت میں یکم جولائی سے دسمبر 2021ء تک سبسڈی دی جانا تھی جسے ای سی سی نے معطل کر کے صرف پندرہ دن تک کے لیے‘ یکم جولائی سے پندرہ جولائی تک‘ کر دیا ہے۔ اب ایک کمیٹی بنا دی گئی ہے جو یہ فیصلہ کرے گی کہ 15 جولائی کے بعد سبسڈی دی جانی چاہیے یا نہیں۔ وزیراعظم نے پچھلے سال جون تک کے لیے یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن ریلیف پیکیج کا اعلان کیا تھا جس سے وزارتِ خزانہ کی سست روی کے باعث فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا اور اسے جون 2021ء تک مزید ایک سال کے لیے بڑھا دیا گیا تھا۔ تیسرا اضافہ صرف پندرہ دن کا ہوا ہے۔ یو سی سی نے وزارتِ خزانہ سے بارہ ارب روپے وزیراعظم فنڈ میں سے مانگ لیے ہیں جنہیں ای سی سی نے منظور کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایک سال کے ریلیف فنڈز دو سالوں میں بھی خرچ نہیں کیے جانے تو عوام کے سامنے بڑے بڑے اعلانات کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ حکومت بڑے پیکیج پیش کر کے میڈیا کوریج اور عوامی پذیرائی تو حاصل کر لیتی ہے لیکن عوام تک اس کے حقیقی فوائد کو پہنچانے میں زیادہ سنجیدگی نہیں دکھا رہی جس سے عام آدمی کے مسائل بڑھ رہے ہیں۔ حکومتی دعووں اور کاموں میں فرق واضح ہے۔
وزیر خزانہ کی سربراہی میں اکنامک کوآرڈی نیشن کمیٹی نے بہت سے عوامی مفاد کے فیصلوں کو پس پشت ڈال دیا ہے جن میں کپاس کی کم سے کم قیمت مقرر کرنا اور تمباکو کی قیمت کم کرنے جیسے کئی وعدے شامل تھے جن پر عمل نہیں کیا گیا۔ بدقسمتی یہ ہے کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود چینی درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ اس سال گنے کی بہترین فصل تیار ہوئی تھی لیکن وزارتِ صنعت کے مطابق‘ نومبر 2021ء تک صرف دو لاکھ میٹرک ٹن چینی باقی رہ جائے گی۔ نیشنل پرائس مانیٹرنگ کمیٹی نے وزارتِ صنعت سے کہا ہے کہ وہ اڑھائی سے تین لاکھ میٹرک ٹن چینی کی درآمد کی اجازت لے تاکہ ملک میں چینی کے ذخائر میں کمی واقع نہ ہو اور قیمتوں میں متوقع اضافے کو روکا جا سکے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کو ریلیف پہنچانے کے نام پر چینی درآمد کر کے اصل فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟ حکومت چینی مافیا کو انجام تک پہنچانے کے دعوے تو مسلسل کرتی رہی ہے لیکن ابھی تک کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی جا سکی۔ وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ اس ایشو کو بھی ایڈریس کریں اور عوام کو اصل حقائق سے آگاہ کریں۔