بس حادثہ‘ سی پیک اور پاکستانی معیشت

پاکستانی معیشت میں بہتری کے لیے سی پیک پر انحصار کیا جا رہا ہے ۔ 2018ء تک اس پر تیز رفتاری سے کام ہوا‘ بجلی کے نئے منصوبے لگائے گئے ‘ لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی‘ لیکن تحریک انصاف کے وزرا یہ الزام لگاتے دکھائی دیتے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ بجلی پیدا کر دی گئی ہے جو کہ سرمایہ کاری کا ضیاع ہے۔یہی فنڈز کسی اور منصوبے پر خرچ کیے جا سکتے تھے ۔ یاد رہے کہ 2013ء میں جب (ن) لیگ کی حکومت آئی تھی تو سب سے بڑا چیلنج لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تھا۔ سی پیک کے منصوبوں کو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ سب سے پہلے بجلی کے منصوبے مکمل ہو سکیں لیکن جب سے تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے سی پیک منصوبوں میں سست روی دیکھی گئی ہے ۔ حکومت میں آتے ہی رزاق داؤد اور اسد عمر کے بیانات نے چینی حکام کو کافی مایوس کیا۔ بعدازاں وزیراعظم اور دیگر اعلیٰ حکام کے دوروں سے حالات نارمل ہوئے لیکن ابھی بھی جس رفتار سے کام کرنے کی ضرورت ہے وہ ماحول بنتا دکھائی نہیں دے رہا۔ جیسے ہی حالات بہتر ہونے لگتے ہیں بدامنی کا کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے۔ چینی حکومت پاکستان سے سوال کرتی ہے لیکن حکمران جواب دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ سی پیک پر کام کی رفتار کو تیز کرنے اور ادھورے منصوبے مکمل کرنے کے لیے 16 جولائی کو جے سی سی(Joint Cooperation Committee) کی میٹنگ رکھی گئی تھی۔ اسد عمر بھی پر امید تھے کہ نئے منصوبے شروع ہونے سے حکومت کو سیاسی فائدہ حاصل ہو گا اور الیکشن سے پہلے بڑے منصوبوں کو مکمل کر کے عوامی پذیرائی بھی حاصل کی جا سکے گی لیکن عین موقع پر چینی حکومت نے میٹنگ کینسل کر دی۔ بتایا جا رہا ہے کہ 14جولائی کو چینی انجینئرز کی بس کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ۔ اس حادثے میں نو چینی اور پانچ پاکستانی ہلاک ہوئے۔ چینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ دہشت گردی کا واقع تھا اور چینی انجینئرز کی بس پر دانستہ بم حملہ کیا گیا ہے جبکہ حکومت پاکستان کا موقف مختلف رہا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب کا کہنا تھا کہ بس کو حادثہ فنی خرابی کی وجہ سے پیش آ یا ۔ مگر بعد میں پاکستان نے اپنے موقف پر نظر ثانی کر لی اور وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے بیان دیا کہ بم دھماکے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔بقول ان کے ابتدائی تحقیقات میں دھماکے کے شواہد ملے ہیں۔ چیئرمین سی پیک عاصم سلیم باجوہ صاحب کو جے سی سی کے معطل ہونے کی اطلاع میٹنگ کے دوران فون کال پر دی گئی۔ وہ اسد عمر صاحب کے ساتھ اسی ایشو کی چھان بین کے حوالے سے صوبوں کے ساتھ میٹنگ میں بیٹھے تھے ۔
ذرائع کے مطابق چینی حکام نے سکیورٹی کے مناسب اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے کافی ناراضی کا اظہار کیاہے۔ اس کے علاوہ منصوبوں میں بے جا تاخیر پر بھی گاہے بگاہے احتجاج ریکارڈ کروایا جاتا ہے ۔سات سال پہلے27 فاسٹ ٹریک اور دس ترجیحی بنیادوں پر منصوبوں کی تکمیل کا ارادہ کیا گیا تھا۔ منصوبہ بندی کے مطابق فاسٹ ٹریک کو ایک سال اور ترجیحی بنیادوں والے منصوبوں کو دو سے تین سال میں مکمل کرنے کا ارادہ تھا لیکن سات سال بعد صرف چار فاسٹ ٹریک منصوبے مکمل ہو سکے ہیں اور چھ پر کام جاری ہے ۔ حکومت پاکستان اس تاخیر کا ذمہ دار بھی کووڈ 19کو قرار دیتی ہے لیکن معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف نے سی پیک کا منصوبہ سست رکھا ہوا ہے ۔ اس کی وجہ بھی سیاسی بتائی جاتی ہے ۔( ن) لیگ اس منصوبے کی شروعات کا کریڈٹ لیتی ہے اور اس کی تکمیل بھی ایک طرح سے نواز شریف کی سیاسی جیت قرار دی جائے گی اس لیے تحریک انصاف کی دلچسپی کم ہے ۔ اس موقف میں کتنی سچائی ہے اس کا اندازہ حکومت کے پانچ سال مکمل ہونے پر لگایا جا سکے گا۔ فی لحال کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔
Joint Cooperation Committee کا اجلاس بیس ماہ بعد ہو رہا تھا لیکن عاصم سلیم باجوہ صاحب نے ٹویٹ کیا کہ اجلاس ابھی معطل ہوا ہے جو کہ ممکنہ طور پر عید کے فوراً بعد دوبارہ منعقد ہو گا لیکن تاریخ اور جگہ کا فیصلہ ابھی نہیں ہو سکا۔ اطلاعات کے مطابق جے سی سی کی میٹنگ میں سات سو میگا واٹ کے آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کو سی پیک میں شامل کیے جانے کا منصوبہ ہے ۔ اس وقت 5320 میگا واٹ بجلی کی پیداوار والے نو پاور پراجیکٹس آپریشنل ہو چکے ہیں جن کی لاگت تقریباً آٹھ اعشاریہ دو ارب روپے ہے ۔ اس کے علاوہ 1920 میگا واٹ کے تین منصوبے زیر تعمیر ہیں۔ پاکستان اپنی پاور سپلائی کا تیسرا حصہ سی پیک منصوبوں سے حاصل کر رہا ہے لیکن ٹیکس اور ٹیرف پالیسی میں ترامیم پر چائنیز کو تحفظات ہیں۔ چین نے اپریل کے آخر تک سی پیک پاور پلانٹ کو حکومت پاکستان کی جانب سے دو سو آٹھ ارب روپوں کی عدم ادائیگی پر بھی شکایت کی ہے ۔ اطلاعات کے مطابق حکومت نے ان تحفظات کو دور کرنے کی یقین دہانی کروا دی ہے اورمستقبل میں اس کی عملی شکل بھی واضح ہو جائے گی۔ آنے والے دنوں میں کوہالہ ہائیڈرو پراجیکٹ‘ آزاد پتن ہائیڈرو پاور پراجیکٹ‘ ایس ایس آر ایل تھر کول بلاک ون‘ ایس ای سی مائن ماؤتھ پاور پراجیکٹ اور گوادر پاور پلانٹ انرجی کے نئے منصوبے ہیں جو سی پیک کا حصہ بنیں گے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں ٹورازم کو سپورٹ کرنے کے لیے سڑکوں کا جال بچھانے کا منصوبہ بھی جے سی سی کی میٹنگ ایجنڈے کا حصہ ہے ۔ آزاد کشمیر‘ خیبر پختونخوا اور گلگت بلتستان کے کئی نئے علاقے بھی سی پیک میں شامل کیے جائیں گے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے اس بات کی امید زیادہ ہے کہ سیروسیاحت سے متعلقہ پراجیکٹس باقی منصوبوں کی نسبت جلد مکمل ہوں۔ حکومتی کاغذات کے مطابق چائنیز نے ٹیرف سیٹلمنٹ شرح کو بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے تاکہ قرضوں کی ادائیگی بھی وقت پر ہو سکے اور سی پیک منصوبے بھی بروقت مکمل ہو سکیں۔ 2014ء میں ہونے والے معاہدوں کے مطابق حکومت پاکستان نے ایک فنڈ قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا تا کہ ادائیگیاں بروقت ہو سکیں اور پیسہ پھنسنے کا خدشہ نہ ہو لیکن سات سال گزرنے کے بعد بھی وعدے کی پاسداری نہیں کی گئی اور فنڈ قائم نہیں ہو سکا ۔ یہ توقع کی جا رہی ہے کہ دونوں ممالک گوادر کول فائرڈ پاور پلانٹ دسمبر 2021ء تک مکمل کر لیں گے ۔ منصوبے کو مکمل کرنے کا نیا وقت معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد چار ماہ بتایا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ایسٹ بے ایکسپریس وے پر تین نئے پل بنانے کے حوالے سے معاہدوں پر دستخط بھی دسویں جے سی سی اجلاس میں ہوں گے ۔
اس کے علاوہ دیگر ممالک بھی اس منصوبے کا حصہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں جن میں سعودی عرب سر فہرست ہے ۔ سعودی عرب کی جانب سے گوادر میں اسی ہزار ایکڑ پر آئل سٹی بنانے کا منصوبہ پاکستان کی معاشی حیثیت بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ تقریبا آٹھ ارب ڈالرکی سرمایہ کاری ہے ۔ یاد رہے کہ تیل کی سپلائی کے حوالے سے چین سعودی عرب کا سب سے بڑا کسٹمر ہے ۔ گوادر میں آئل سٹی کے قیام سے چین کو تیل سپلائی کی مدت چالیس دن سے کم ہو کر سات دن تک رہ جائے گی۔ بین الاقوامی سیاست میں آنے والی تبدیلیوں کے باعث امریکہ سعودی کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں اس لیے محمد بن سلمان پاکستان‘ چین‘ روس اور ترکی کی بیلٹ میں شامل ہو گئے ہیں ۔ اب امریکہ کی بجائے زیادہ انحصار چین پر کیا جا رہا ہے ۔ ان حالات میں سی پیک منصوبوں کا جلد از جلد مکمل ہونا ضروری ہے تا کہ پاکستان کی جغرافیائی حیثیت سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھایا جا سکے ۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے سب سے اہم سکیورٹی کے معاملات ہیں۔ اگر ان پر توجہ نہ دی گئی تو دشمن کو پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملتا رہے گا۔ جس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں