معاشی ترقی کیلئے ہمسایہ ممالک سے تعلقات بہتر رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان حالات اکثر کشیدہ رہتے ہیں لیکن چین سب سے زیادہ چاول بھارت سے خریدتا ہے۔ اسرائیل اور ترکی میں لفظی گولہ باری جاری رہتی ہے لیکن ترکی اسرائیل کو اربوں ڈالرز کا سٹیل اور ایلومینیم برآمد کرتا ہے۔ پاکستان کے ایک طرف دنیا کا سب سے بڑا تجارتی ملک چین ہے اور دوسری طرف افغانستان کی تباہ حال معیشت ہے۔ صرف مضبوط ملک سے معاملات بہتر رکھنا کامیابی کی علامت نہیں‘ کمزور ممالک کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب کمزور ملک آپ کا ہمسایہ بھی ہو‘ کیونکہ وہاں حالات خراب ہوں گے تو اثرات بارڈر کی دوسری طرف بھی پڑیں گے۔اس وقت افغانستان کے حالات کشیدہ ہیں۔ طالبان افغانستان کے 85 فیصد سے زائد علاقے پر قبضے کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ سرکاری سطح پر آج بھی افغانستان کے صدر اشرف غنی ہیں‘ اگر پاکستان چاہتا ہے کہ وہ افغانستان کے ساتھ تجارت کرے تو افغان حکومت سے معاملات طے کرنا ہوں گے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان افغانستان کو تقریباً دو ارب ڈالرز کی سالانہ برآمدات کرتا ہے جو کہ پاکستانی کسانوں کیلئے خوشحالی کا سبب بنتی ہے۔ اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والے آلوؤں کے ایک بڑے تاجر نے بتایا کہ جب افغان بارڈر بند ہوتا ہے تو پاکستان میں آلو کوڑیوں کے بھاؤ بکتے ہیں۔ بعض اوقات تو فصلوں سے آلو اٹھوانے کے لیے کرایہ بھی جیب سے ادا کرنا پڑتا ہے۔ جو لوگ زمین سے جڑے ہیں وہ افغان تجارت کی اہمیت سے سے بخوبی آگاہ ہیں۔
افغان بارڈر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وسطی ایشیائی ممالک سے تجارت کے لیے پاکستان کے ٹرک پہلے افغانستان پہنچتے ہیں اور وہاں سے سنٹرل ایشین ملکوں کے بارڈر تک سامان پہنچاتے ہیں لیکن 2017 ء میں اشرف غنی نے پاکستان کے ٹرکوں کو افغانستان کے بارڈر پر روک کر آف لوڈ کرنے اور سامان کو افغان ٹرکوں میں لاد کر سنٹرل ایشیائی ممالک تک پہنچانے کا حکم جاری کیا جس سے پاکستان کو کروڑوں روپے کا نقصان ہوا کیونکہ آف لوڈ کر کے دوبارہ ٹرکوں پر سامان لادنے سے کوالٹی خراب ہو جاتی ہے۔ حکومت پاکستان نے اس پر احتجاج ریکارڈ کروایا لیکن افغان صدر نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ افغان ٹرکوں کو پاکستان بارڈر پر روک کر آف لوڈ کیا جاتا ہے اور سامان پاکستانی ٹرکوں میں لاد کر مطلوبہ مقامات پر پہنچایا جاتا ہے جو کہ نہ صرف ہتک آمیز ہے بلکہ کوالٹی میں فرق آنے سے کروڑوں روپوں کا نقصان بھی ہوتا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ پاکستانی ٹرک افغانستان میں آزادانہ گھومیں اور افغان ٹرکوں کو پاکستان میں گھسنے کی اجازت نہ دی جائے۔ جب افغان ٹرکوں کے لیے راستہ کھلے گا تب پاکستانی ٹرکوں کو بھی اجازت دے دی جائے گی۔ اس حوالے سے میں نے دفاعی تجزیہ کار اور افغان امور کے ماہر بریگیڈئیر غضنفر سے بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں غیر یقینی صورتحال کے باعث سکیورٹی کے مسائل ہیں۔ افغان ٹرکوں کو مکمل طور پر سکین نہیں کیا جا سکتا۔ تجارت کے بہانے غیر قانونی اشیا پاکستان بھجوائی جا سکتی ہیں۔ بھارت بھی پاکستان میں دہشت گردی کے لیے افغان بارڈر کو استعمال کرتا ہے۔ اس لیے ٹرک آف لوڈ کرنا پڑتے ہیں۔ فی الحال پاکستان سنٹرل ایشین ممالک سے تجارت کیلئے ہوائی جہاز استعمال کر رہا ہے۔ اب افغانستان کے زمینی راستے سے تجارت بہت کم رہ گئی ہے۔ بریگیڈئیر صاحب کے خدشات درست دکھائی دیتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہوائی راستے سے تجارت زمینی راستے کی نسبت بہت مہنگی پڑتی ہے۔ بہترین حل یہی ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ معاملات طے کر زمینی راستے کو بحال کروایا جائے۔
اس کے علاوہ پچھلے چالیس سالوں سے افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔ کئی خاندانوں کی چوتھی نسل پاکستان میں پروان چڑھ رہی ہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک افغان تاجر کے بیٹے کی شادی کراچی کے میمن خاندان میں ہوئی اور اب پوتے کی شادی لاہور کی شاہ عالم مارکیٹ کے بڑے تاجر کی بیٹی سے ہوئی ہے۔ ان میں سے اکثر کبھی افغانستان واپس بھی نہیں گئے بلکہ پاکستان میں ہی اربوں روپوں کا کاروبار کر رہے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 14 لاکھ 40 ہزار رجسٹرڈ افغان مہاجرین پاکستان میں آباد ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کو بوجھ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ لوگ پاکستان کی تمام بڑی چھوٹی مارکیٹوں میں تجارت کرتے دکھائی دیتے ہیں جس سے نہ صرف مقامی لوگوں کو روزگار ملتا ہے بلکہ حکومت پاکستان کی ٹیکس آمدن میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ان تاجروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے مشکلات میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ مہاجرین کو بوجھ سمجھنے کی بجائے ان سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک مخصوص تجارت اور سرمایہ کاری کے عوض کاروباری لوگوں کو شہریت دیتے ہیں۔ بہت سے افغان برطانیہ اور یورپ میں تجارت کی بنیاد پر شہریت حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستان کو چاہیے کہ پانچ کروڑ روپے کی تجارت یا سرمایہ کاری کرنے والے افغان مہاجرین کو پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ جاری کیے جائیں تا کہ وہ بینک اکاونٹس کھلوا سکیں‘ کمپنیاں رجسٹرڈ کروا سکیں اور نیشنل ٹیکس نمبر حاصل کر سکیں۔ حکومتی عدم توجہی کی وجہ سے افغان تاجر اپنی پہچان چھپاتے ہیں ‘اپنا تعلق پشاور یا کوئٹہ سے بتاتے ہیں‘ رشوت دے کر بارڈر سے مال کلیئر کرواتے ہیں۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ٹیکس دیں یا رشوت دیں‘ رقم ایک جتنی ہی ادا کرنا پڑتی ہے‘ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ رقم ایجنٹ لے یا حکومت پاکستان کے اکاؤنٹ میں جائے۔ پاکستانی سرکار ہمیں شہریت کا درجہ دے کر اپنی آمدن میں اضافہ کر سکتی ہے۔ بریگیڈیئر صاحب نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو ہو گیا سو ہو گیا‘ تجارت کرنے والے افغان مہاجرین کو قومی دھارے میں لایا جانا چاہیے۔ اس میں پاکستان کا ہی فائدہ ہے۔
پاک افغان تجارت کیلئے چیمبر آف کامرس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ ہر مسئلہ قومی سطح کا نہیں ہوتا‘ بہت سے چھوٹے مسائل ایسے ہیں جو صرف ایک میٹنگ میں حل کیے جا سکتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کئی سالوں سے زیرالتوا ہیں۔ کابل اور طورخم میں مشترکہ چیمبر آف کامرس کے قیام سے اس مسئلے پر قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستانی کمپنیوں کے افغان کمپنیوں کے ساتھ مشترکہ منصوبے شروع کیے جانے کی بھی ضرورت بھی ہے خاص طور پر چھوٹی اور درمیانی کاروباری کمپنیوں کے مل کر کام کرنے کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔افغان ٹرانزٹ ٹریڈ بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان سے افغانستان برآمد کیے جانے والے سامان کا بڑا حصہ بارڈر پر ہی بیچ دیے جانے کی شکایات ہیں۔ برآمدات کے نام پر کاغذات پر مہر لگا کر فائلوں کا پیٹ بھر دیا جاتا ہے جس سے ڈالرز پاکستان نہیں آتے اور معیشت کو اربوں روپوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اب کنٹرول میں ہے۔ باڑ لگنے سے سمگلنگ کافی حد تک کم ہو چکی ہے۔ چیزوں پر ڈیوٹی لگے بغیر تجارت نہیں ہوتی۔ ان کے مطابق سمگلنگ کبھی بھی مکمل طور پر بند نہیں ہوتی‘ کچھ نہ کچھ چلتا رہتا ہے لیکن پاک فوج کی کاوشوں سے اب حالات پہلے سے بہت بہتر ہو گئے ہیں۔ باڑ کے مکمل ہونے پر حالات میں یکسر تبدیلی آئے گی۔ بریگیڈئیر صاحب کی رائے اہمیت کی حامل ہے لیکن مستقبل میں کیا ہوتا ہے یہ کہنا قبل ازوقت ہے۔ ان تجاویز پر عمل درآمد کب ہو گا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ فی الحال حکومت پاکستان افغان مہاجرین سے متعلق نئی پالیسی کو منظور کرنے میں دلچسپی نہیں دکھا رہی۔منسٹری آف سٹیٹس اینڈ فرنٹیرز ریجنز(SAFRON) نے کئی میٹنگز کے بعد وفاقی کابینہ کے سامنے افغان مہاجرین سے متعلق کچھ گزارشات رکھی ہیں جس کے مطابق سات لاکھ مہاجرین کو تین سال تک محفوظ گھروں میں رکھنے اور دیکھ بھال کے نظام پر تقریبا 2.2 ارب ڈالرز خرچ ہوں گے۔اس میں رجسٹریشن‘ سفری سہولیات‘ کیمپ مینجمنٹ اور خوراک وغیرہ شامل ہیں۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے بیان کے مطابق پاکستان فی الحال یہ بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ کیبنٹ میں اس ایشو پر تفصیلی بحث ہوئی ہے لیکن حتمی منظوری نہیں دی گئی۔ وزراتوں کے تحت کام کرنے والی کمیٹیوں کے مطابق تقریباً پانچ سے سات لاکھ مہاجرین پاکستان آ سکتے ہیں۔ ڈرافٹ پالیسی کے مطابق پاکستان ان مہاجرین کو قبول نہیں کرے گا اور ان کے پاکستان داخلے کو روکنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات اٹھائے گا۔ افغان حکومت اور بین الاقوامی اداروں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ پاکستان کی بجائے افغانستان کے بارڈر والے محفوظ علاقوں میں انہیں پناہ دینے کا بندوبست کیا جائے۔ یاد رہے کہ پاکستان مہاجرین کو پناہ دینے کے حوالے سے مہاجرین کنونشن 1951ء یا پروٹوکول آف 1967ء کا حصہ نہیں ہے‘ لیکن دوست ممالک اور اقوام متحدہ کے جانب سے ہمیشہ دباو ڈالا جاتا رہا ہے کہ افغان مہاجرین کو پناہ دی جائے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ 2.2 ارب ڈالر اخراجات کا شور مچانے کے ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ یو این ایچ سی آر (یونائٹیڈ نیشن ہائر کمیشن فار رفیوجیز )ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن اور یونیسف جیسے عالمی اداروں سے افغان مہاجرین کے لیے کتنی امداد مل چکی ہے تا کہ مکمل صورتحال عوام کے سامنے آ سکے۔اس وقت اختلافات میں پڑنے کی بجائے افغان مہاجرین اور افغان تجارت کے معاملے پر سنجیدگی سے مثبت اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے۔ معمولی اختلافات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھنے کا ارادہ کیا جائے تاکہ بوجھ سمجھے جانے والے افغان مہاجرین پاکستان کی طاقت بن سکیں۔