مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافے کے بعد عوام ذمہ داران کے احتساب کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ وہ فہم رکھتے ہیں کہ طاقتور مافیاز کو سزا دلانا تقریباً ناممکن ہے لیکن ایک امید پھر بھی دل میں جگہ بنائے ہوئے ہے کہ شاید کوئی کرشمہ ہو جائے اور مافیاز جیلوں کی ہواکھائیں۔ اس امید کی وجہ وہ نعرے ہیں‘ جو تبدیلی سرکار نے لگائے تھے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے احتساب کا نعرہ لگا کر عوام کو لبھایا اور بالآخر 2018ء کے الیکشن کے نتیجے میں اپنی حکومت بنائی، آج بھی وزیراعظم ''کسی کرپٹ کو نہیں چھوڑوں گا ‘‘کا نعرہ لگاتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس حوالے سے آج ایک اچھی خبر سامنے آئی ہے۔
اکتوبر 2020ء میں مَیں نے اپنے کالم کے ذریعے قارئین کو بتایا تھا کہ مسابقتی کمیشن نے شوگر مافیا کے خلاف جو تحقیقات کی ہیں‘ ان میں ایک معروف سیاستدان کی کمپنی کے سینئر آفیسر کے خلاف مبینہ طور پر ثبوت سامنے آئے تھے۔ اس کے علاوہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن اور شوگر ملز کے خلاف بھی ناقابلِ تردید شواہد پیش کیے گئے تھے جن کے مطابق ملز نے حکومت کو 1.1 ملین ٹن چینی برآمد کرنے کے لیے مجبور کیا جس سے چینی کی قیمت میں 48 فیصد اضافہ ہوا۔ دس سالوں میں یہ دوسری مرتبہ ہوا کہ مسابقتی کمیشن نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کو ایک کارٹل قرار دیا لیکن دوسری مرتبہ جرم کی نوعیت زیادہ شدید تھی۔ شوگر ملز نے حکومت کو سٹاک کے غلط اعدادوشمار دیے۔ برآمد کرنے سے پہلے حکومت کو بتایا گیا کہ ملک میں ضرورت سے زیادہ چینی کے ذخائر موجود ہیں۔ اگر چینی برآمد کر دی جائے گی تو ملک میں اس کی صورتحال پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ حکومت نے ان اعدادوشمار پر بھروسہ کیا لیکن چینی برآمد کرنے کے بعد جب ملک میں چینی کی قلت پیدا ہونے لگی تو ملز مالکان سے استفسار کیا گیا کہ چینی کا سٹاک کہاں ہے؟ انہوں نے غلط رپورٹ پیش کی کہ سٹاک میں پڑی ساری چینی ایک ماہ میں ہی ملک میں فروخت ہو گئی ہے‘ حالانکہ عملی طور پر یہ ناممکن تھا۔ حماد اظہر صاحب نے مؤقف دیا کہ حکومت سے جھوٹ بولا گیا‘ آئندہ ہم اعدادوشمار کے لیے ملز مالکان پر بھروسہ نہیں کریں گے، حکومت خود گوداموں میں جا کر سٹاک رپورٹ تیار کرے گی اس کے بعد ہی برآمدات کی اجازت دینے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔ مسابقتی کمیشن نے بھی اس پہلو کو اپنی رپورٹ کا حصہ بنایا اور تمام بڑی شوگر ملوں کے خلاف فیصلہ دیا۔ اس کے بعد انہیں اپنی صفائی میں ثبوت پیش کرنے کا موقع فراہم کیا گیا لیکن دس ماہ بعد بھی وہ خود کو بے قصور ثابت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس لیے 13 اگست کو مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے کارٹل بناکر چینی مہنگی کرنے والی ملک بھر کی 81 شوگر ملوں پر 44 ارب روپے کا جرمانہ عائد کیا ہے۔ 2020ء میں مسابقتی کمیشن کی بحالی کے بعد سے لے کر آج تک کا‘ یہ ایک اہم فیصلہ ہے۔ اس سے پہلے کمیشن نے جس ادارے کو سزا دلوانے کی کوشش کی تھی‘ اس کی طاقت میں اضافہ ہو گیا تھا۔
حال ہی میں چکن کی قیمت چار سو روپے فی کلو ہونے پر مسابقتی کمیشن نے تحقیقات کا فیصلہ کیا تو پتا چلا کہ مرغی بیچنے والوں کے بجائے مرغی کی خوراک بنانے والی کمپنیوں نے آپس میں گٹھ جوڑ کر رکھا ہے۔ انہوں نے ایک وٹس ایپ گروپ بنا رکھا ہے جس میں ایک کمپنی کی جانب سے نئی قیمت کا میسج کیا جاتا ہے اور تقریباً 18 کمپنیاں ایک ہی دن‘ بغیر کسی نوٹس اور وجہ کے‘ مرغیوں کی خوراک کی قیمتیں بڑھا دیتی ہیں جو کہ پاکستان کے قانون کی بھی خلاف ورزی ہے۔ ان کمپنیوں کے خوراک بنانے کے فارمولے کے علاوہ خام مال کی خریداری کے طریقۂ کار اور معیار میں بھی فرق ہے اس لیے ایک ہی وقت میں ایک ساتھ قیمت کا بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ کمیشن نے جب تحقیقات کیں تو جلد ہی اصل ملزمان تک پہنچ گیا لیکن آج تک کسی کو سزا نہیں ہوئی۔
اسی طرح گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے حوالے سے بھی تحقیقات کی ذمہ داری کمیشن کو سونپی گئی تھی لیکن تاحال کوئی نتیجہ سامنے نہیں آ سکا۔ سیمنٹ کے خلاف تحقیقات کیں جن کا آج تک نتیجہ سامنے نہیں آ سکا۔ یہی صورتحال فرٹیلائزرکے ساتھ ہے۔ اس لیے عمومی طور پر یہ رائے قائم ہو چکی ہے کہ مسابقتی کمیشن آف پاکستان اپنی ذمہ داریاں نبھانے سے قاصر ہے لیکن اب شوگر مافیا کے خلاف 44 ارب روپے جرمانے کا فیصلہ اس رائے کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ چیئرپرسن مسابقتی کمیشن آف پاکستان راحت کونین کی سربراہی میں چار رکنی کمیشن نے شوگر ملز معاملے کی تحقیقات کی ہیں۔ ان تحقیقات میں چینی کے غیر قانونی طریقے سے حصول، کارٹل بنا کر اسے مہنگا کرنے، غیر قانونی طریقے سے یوٹیلٹی سٹورز کا کوٹہ حاصل کرنے اور بدعنوانی کے واضح ثبوت سامنے آئے۔ شوگر ملز ایسوسی ایشن اور ممبر ملز کو جرمانہ مسابقتی ایکٹ 2010ء کے سیکشن 4 کی خلاف ورزی پر عائد کیا گیا ہے۔ یہ جرمانہ دو ماہ کے اندر واجب الادا ہے۔ فیصلے کی تفصیلات کے مطابق چیئرمین مسابقتی کمیشن نے اس حوالے سے فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا شوگر ملیں یہ جرمانہ ادا کریں گی یا پھر اس کے خلاف بھی سٹے لے لیا جائے گا۔ پاکستان میں ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ طاقتور طبقہ احتساب کی چکی میں پسا ہو۔ دولت، تعلقات اور بلیک میلنگ کے زور پر بچ نکلنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکال ہی لیا جاتا ہے۔ اس کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ کمیشن کا فیصلہ آنے کے بعد شوگر ملز ایسوسی ایشن کے ردعمل سے بھی یہ محسوس ہورہا ہے کہ شاید بچنے کا کوئی راستہ تلاش کر لیا گیا ہے۔ شوگرملز ایسوسی ایشن کے مطابق یہ متفقہ فیصلہ نہیں ہے‘ دو ممبران کی رائے فیصلے کے خلاف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی اتنے ثبوت نہیں مل سکے کہ جرمانہ عائد کیاجاتا۔ کمیشن کی چیئرپرسن نے اپنا ووٹ سزا کے حق میں ڈال کر فیصلے کا رخ موڑا‘ جو غیر قانونی ہے‘ ان کے پاس یہ اختیار انتظامی امور کے لیے ہے‘ قانونی چارہ جوئی میں کمیشن ایکٹ کے سیکشن 30 کا استعمال نہیں کیا جا سکتا، چیئرپرسن کے پاس بینچ کی کارروائی کے دوران کاسٹنگ ووٹ کا اختیار نہیں ہوتا لہٰذا چیئرپرسن نے کاسٹنگ ووٹ کا غیر قانونی استعمال کیا۔ ان تحفظات کے باعث قانونی ماہرین اسے ایک کمزور فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ آنے والے دنوں میں شوگر مافیا سے متعلق معاملہ کیا رخ اختیار کرتا ہے‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہمارے یہاں فیصلے کب تبدیل ہو جائیں ‘ کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔ یہاں ناممکنات کا ممکن ہو جانا بھی عین ممکن ہے۔ نواز شریف کا چودہ دنوں میں جیل سے نکل کر لندن روانہ ہو جانا بھی سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ ایک سزا یافتہ مجرم کو نیب کی جیل سے نکال کر علاج کے لیے بیرونِ ملک بھجوا دیا گیا ہو۔ پاکستانی عوام کے مطابق‘ بظاہر یہ ناممکن تھا لیکن ایسا ہو گیا۔ اس لیے مسابقتی کمیشن کے فیصلے سے زیادہ امیدیں لگانا شاید مایوسی کا سبب بن سکتا ہے۔
یہاں یہ ذکر ضروری ہے کہ اس کیس میں کمیشن کی کارکردگی پر کوئی سوالیہ نشان نہیں ہے۔ وسائل اور حالات کو مدنظر رکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ادارے نے اپنی ذمہ داری نبھائی ہے۔ یہ بھی ذہن نشین رکھیے کہ ماضی میں سخت فیصلے کرنے والے سرکاری افسران عتاب کا شکار رہے ہیں۔ ان کا جلد تبادلہ کر دیا جاتا ہے اور پھر کیس الماریوں کی زینت بنے رہتے ہیں۔ وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ مسابقتی کمیشن کے فیصلے پر عمل درآمد کروائیں اور اسے سازشوں کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔ ایک مافیا کی کمر ٹوٹنے سے دوسروں کو نصیحت ہو گی، ملک میں مہنگائی کا زور ٹوٹے گا اور ملکی معیشت درست سمت میں گامزن ہو سکے گی۔