آٹو سیکٹر کے پاکستانی معیشت پر اثرات

پاکستان میں معاشی خوشحالی کا ایک معیار آٹو مینوفیکچرنگ صنعت کی ترقی کو بھی مانا جاتا ہے۔ عمومی رائے ہے کہ جب عوام خوشحال ہوتے ہیں تو نئی گاڑیاں خریدی جاتی ہیں۔ یہ بات کسی حد تک درست معلوم ہوتی ہے۔ گاڑیوں کی فروخت میں اضافے کو مخصوص طبقے کے لوگوں سے منسلک کر دینا مناسب نہیں ہے۔ اگر جائزہ لیا جائے تو چھوٹی اور بڑی تمام گاڑیوں کی فروخت میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے۔ جولائی کے مہینے میں دو بڑی کار کمپنیوں نے ایک ماہ میں تاریخ کی سب سے زیادہ گاڑیاں بیچی ہیں۔ فواد چوہدری صاحب نے بھی اس حوالے سے ایک کمپنی کی فروخت کا ریکارڈ ٹوئٹر پر شیئر کیا تھا جس پر طنزیہ لائن لکھی گئی تھی کہ ''مہنگائی بہت ہے‘‘۔ یہ ٹویٹ متنازع رہا لیکن حقیت یہ ہے کہ عوام ایک طرف مہنگائی کا گلہ کرتے دکھائی دیتے ہیں اور دوسری طرف گاڑیوں کی فروخت میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مبینہ طور پر برے معاشی حالات میں عوام کے آمدن کے ذرائع کیسے بڑھ رہے ہیں؟ اگر پاکستانی معیشت پر نظر دوڑائی جائے تو پچھلے آٹھ ماہ میں گاڑیاں خریدنے کا رجحان بڑھا ہے۔ اسی دوران پراپرٹی کی قیمتوں میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ رئیل اسٹیٹ کی جو قیمتیں پچھلے پانچ سال سے نہیں بڑھی تھیں وہ پچھلے چھ ماہ میں بڑھ گئی ہیں۔ حکومت کی جانب سے جاری کی گئی ایمنسٹی سکیم ایک بڑی وجہ ہے۔ یہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ عوام نے رئیل اسٹیٹ سے پیسہ کمایا جس کی وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے ‘لیکن مستقبل کے حالات مختلف دکھائی دیتے ہیں کیونکہ کار کمپنیوں نے ایک مرتبہ پھر قیمتیں بڑھانے کے لیے پر تولنا شروع کر دیے ہیں۔دوسری آٹو پالیسی میں حکومت نے نہ صرف عوام کے لیے ٹیکس کم کیا بلکہ گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں کو بھی پارٹس منگوانے پر رعایت دی گئی۔ میں نے اُس وقت کالم میں ذکر کیا تھا کہ گاڑیوں کی قیمتیں کم ہونا عارضی ہیں۔یہ چند ماہ میں دوبارہ بڑھ جائیں گی۔ اس کی وجہ عوامی رویہ اور کار کمپنیوں کی مارکیٹ ریسرچ ہے۔وہ جانتی ہیں کہ گاڑیاں اس وقت بھی اچھی فروخت ہو رہی تھیں جب ٹیکس کم نہیں کیا گیا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ ان کا کسٹمر ذہنی طور پر مہنگی گاڑی خریدنے کے لیے بھی تیار ہے۔یعنی بڑھی ہوئی قیمت کے حوالے سے ذہن سازی ہو چکی ہے۔ میں نے لکھا تھا کہ اسی اپروچ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کار کمپنیاں گاڑیوں کی قیمتیں پرانی بڑھی ہوئی سطح پر لا سکتی ہیں۔ دس دن قبل چین کی مشہور کار کمپنی نے اپنی تمام گاڑیوں کی قیمتیں ایک لاکھ بیس ہزار روپے بڑھا دیں۔ دلیل یہ دی کہ کورونا کی وجہ سے سٹیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے اور فریٹ چارجز بھی بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان میں بننے والی گاڑیاں 70 سے 80 فیصد مخصوص قسم کے سٹیل سے بنتی ہیں جو کہ درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اندازے کے مطابق ایک کنٹینر کی شپنگ کاسٹ 400 ڈالر سے بڑھ کر 800 ڈالر ہو گئی ہے۔ کنٹینرز میسر نہیں ہیں۔ چین نے اپنی بندرگاہوں پر ملازمین کی تعداد کو بھی کم کر دیا ہے جس کے بعد توقع یہ کی جارہی تھی کہ دیگر کمپنیاں بھی قیمتیں بڑھا دیں گی لیکن سرکار نے ایکشن لیا اور کار کمپنی کو قیمتیں بڑھانے سے روک دیا۔ ایسا پاکستانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی کار کمپنی کو سرکار نے مداخلت کر کے قیمتیں نہ بڑھانے پر پابند کیا ہو۔ وزرات صنعت و پیداوار کے مطابق گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کی دلیل نا قابل قبول ہے۔ کنٹرولر جنرل آف پرائسزاور وزرات صنعت و پیدوار کے سیکرٹری نے انجینئر نگ ڈویلپمنٹ بورڈ کو خط لکھا ہے کہ چند ہفتے پہلے حکومت نے آٹو مینوفیکچررز کی ڈیمانڈ پر گاڑیوں کی قیمتوں پر ٹیکس کم کیا تا کہ عوام کو ریلیف دیا جا سکے۔ چند دنوں میں ایسی کیا تبدیلی ہو گئی ہے کہ گاڑیوں کی قیمتیں بڑھانے کی ضرورت پڑ رہی ہے؟ وزرات نے تمام گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں سے اخراجات اور منافع کی تفصیل مانگ لی ہے۔ اگر مقررہ وقت تک ڈیٹا شیئر نہ کیا گیا تو حالات کے پیش نظر سرکار Price Control and Prevention of Profiteering and Hoarding Act, 1977کے تحت خود قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار بھی استعمال کر سکتی ہے۔ یہ معاملہ کیا رخ اختیار کرتا ہے‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ کیا حکومتی چیک اینڈ بیلنس سے کارکمپنیاں گاڑیوں کی قیمتیں نہیں بڑھائیں گی یا پھر گاڑیوں کی قیمت کو مستحکم رکھنے کے لیے حکومت کو مزید ٹیکس چھوٹ دینا پڑے گی؟ یہ بھی ممکن ہے کہ سرکار آٹو مینوفیکچرنگ سیکٹر کے آگے ہار مان جائے اور گاڑیوں کی قیمتیں ایک مرتبہ پھر بڑھ جائیں۔ میری رائے میں گاڑیوں کی قیمتوں میں اضافے کے امکانات زیادہ ہیں۔اس کے علاوہ حکومت نے چوری کی گاڑیوں کی درآمد کے حوالے سے 15 سال پہلے ہونے والے فیصلے کو تبدیل کر دیا ہے۔ اگست 2006ء میں سنٹرل بورڈ آف ریونیو نے کسٹم کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ کسی بھی ملک سے چوری کی گاڑیاں پاکستان لائی جا سکتی ہیں لیکن اس پر 30 فیصد ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ کلکٹر کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ طے شدہ رقم وصولی کے بعد وہ گاڑیوں کو پاکستان داخلے کی اجازت دے سکتا ہے۔ وفاقی ٹیکس محتسب نے ستمبر 2021 ء میں اس پر پابندی لگا دی ہے اور تمام کسٹم کلکٹرز کو اس حوالے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ نئے فیصلے کے مطابق جو بھی چوری کی گاڑی بندرگاہ پر آئے گی اسے متعلقہ ملک واپس بھیج دیا جائے گا۔ چوری کی گاڑیوں کا استعمال ملک میں منفی رجحان پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے۔ ایک طرح سے جرم کو قانونی شکل دینے کی کوشش ہے۔ وفاقی ٹیکس محتسب کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے۔ اس سے مقامی طور پر تیار کی گئی گاڑیوں کی فروخت میں اضافہ ممکن ہے۔ اس کے علاوہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں استعمال کرنے والوں کے گرد گھرا تنگ ہونے کی بھی توقع ہے۔
آٹو سیکٹر کی بات کی جائے تو ٹریکٹرز کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان زرعی ملک ہونے کی وجہ سے ٹریکٹر کا استعمال بہت زیادہ ہے لیکن بد قسمتی سے مقامی سطح پر تیار ہونے والے ٹریکٹرز کی صنعت بند ہونے کے قریب ہے جس کی بڑی وجہ فیڈرل بورڈ آف ریونیوکی جانب سے ٹیکس ریفنڈ کی عدم ادائیگی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق تقریباً چھ ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ نہ دیے جانے کی وجہ سے ٹریکٹرز کا سیکٹر عدم استحکام کا شکار ہو گیا ہے۔ ان کے پاس آپریشن چلانے کے لیے کیش موجود نہیں ہے۔ پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو پارٹس اینڈ اسسریز مینوفیکچررز کے مطابق ٹریکٹر انڈسٹری بند ہونے کی خبر نے سپیئر پارٹس بنانے والے تقریبا ً250 کارخانوں کا مستقبل خطرے میں ڈال دیا ہے۔ جس سے تقریبا ًدس لاکھ لوگوں کا روزگار خطرے میں پڑ گیا ہے‘لیکن حکومتی حلقوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی۔ صنعت و تجارت کے وزیر خسرو بختیار بھی اس حوالے سے کئی مرتبہ یقین دہانی کروا چکے ہیں لیکن کوئی نتیجہ نکلتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حالیہ وعدے کے مطابق ڈیڑھ سال سے زیادہ انتظار کرنے والی کمپنیوں کو فوراً ادئیگی کا راستہ نکالا جا رہا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ٹیکسٹائل سمیت دیگر شعبوں کے ٹیکس ریفنڈ دیے جا رہے ہیں تو ٹریکٹر کے شعبے کو نظر انداز کیوں کیا جا رہا ہے؟ کیا پاکستانی معیشت لاکھوں افراد کی بے روزگاری کی متحمل ہو سکتی ہے؟ ایسے وقت میں جب ملک میں کورونا کے باعث صنعتی شعبہ مشکل حالات سے گزر رہا ہے اور بے روزگاری سے تنگ عوام خود سازی کی کوششیں کرتی دکھائی دے رہی ہیں ایف بی آر اور وزرات کی جانب سے لاپروائی کئی سوال کھڑے کر رہی ہے۔ یہ رائے تقویت اختیار کرتی جارہی ہے کہ ٹریکٹرز کو مقامی سطح پر بنانے کی بجائے درآمد کرنے کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔ وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ اس معاملے کا نوٹس لیں۔ ٹریکٹرز کی صنعت کے ریفنڈز کی ادائیگی کا مؤثر راستہ نکالیں‘ متعلقہ اداروں اور وزرات سے جواب طلب کریں اور ذمہ داروں کو قانون کے دائرے میں لا کر احتساب کو یقینی بنائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں