پاکستان میں ہر خاص و عام آجکل مہنگائی سے متاثر ہے۔ پاکستان کے قیام سے لے کر آج تک کے عرصے کو اگر دو حصوں میں تقسیم کر کے دیکھا جائے تو حیران کر دینے والے اعدادوشمار سامنے آتے ہیں۔ پچھلے تین سالوں میں ہونے والی مہنگائی پچھلے ستر سالوں میں ہونے والی مہنگائی سے زیادہ ہے۔ گھی‘ آٹا‘ چاول سمیت ضروریاتِ زندگی کی تقریبا ًتمام اشیا کی قیمتوں میں تقریبا ًدو گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ 1947ء سے لے کر 2018ء تک گھی 135 روپے فی کلو تک مہنگا ہوا لیکن پچھلے تین سالوں میں اس کی قیمت 350 روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ ستر سالوں میں چینی 45 روپے فی کلو تک مہنگی ہوئی جو تین سالوں بعد 110 روپے فی کلو مل رہی ہے جو کہ تشویش ناک ہے۔ اس نے نہ صرف ملکی معیشت کو کمزور کیا ہے بلکہ عوام کی مالی حیثیت کو بھی یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ جو شخص ایک کروڑ روپے کیش کا مالک تھا اس کی حیثیت پچاس لاکھ روپے کے برابر ہو گئی ہے۔ پہلے جتنی رقم میں مکمل آپشن والی ایک اٹھارہ سو سی سی گاڑی خریدی جا سکتی تھی آج اس قیمت میں تیرہ سو سی سی والی گاڑی بھی نہیں ملتی۔ جس نے 2018ء میں دس مرلے کے گھر کے لیے ڈیڑھ کروڑ روپے جوڑ رکھے تھے آج اس قیمت میں پانچ مرلے کا گھر بھی مشکل سے ملتا ہے۔ جس عورت نے اپنی بیٹی کی شادی کے لیے پانچ لاکھ روپے جوڑ رکھے تھے تین سالوں میں ان کی حیثیت اڑھائی لاکھ کے برابر رہ گئی ہے۔ یہ وہ اصل مسائل ہیں جنہوں نے پاکستانی عوام میں غیر یقینی صورتحال پیدا کر دی ہے۔ وہ تذبذب کا شکار ہیں کہ مستقبل میں کیا ہو گا۔ کیا آنے والے دن پہلے سے زیادہ مشکلات لے کر آئیں گے یا حکومتی پالیسیوں کی بدولت ملک میں اکنامک ریفارمز لائی جا سکیں گی؟اگر ملکی حالات کا جائزہ لیا جائے تو مستقبل قریب میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی آتی دکھائی نہیں دے رہی۔
حکومت نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمت میں پانچ روپے فی لیٹر تک اضافہ کر دیا ہے جس سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں اور ملک میں مہنگائی کا نیا سونامی آنے کے لیے تیار کھڑا ہے۔ یعنی عوام کی قوتِ خرید مزید کم کرنے کی تیاری ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ اس کی ذمہ دار موجودہ حکومت ہے‘ مافیاز ہیں یا پھر پچھلی حکومتیں ہیں؟ اس حوالے سے ہمیں ستمبر 2014ء کو عمران خان صاحب کی ڈی چوک میں کی گئی تقریر کو یاد کرنا ہو گا۔ خان صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر ملک میں مہنگائی بڑھے تو اس کا ذمہ دار وزیراعظم ہے۔ بلکہ انہوں نے تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ مہنگائی ہونے کا مطلب ہے کہ وزیراعظم چور ہے۔ آج جب مہنگائی نے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں اور ممکنہ طور پر آنے والے دنوں میں نئے ریکارڈ بنانے جا رہی ہے تواس کی ذمہ داری بھی آج کے وزیراعظم پر عائد کرنا ہوگی۔ یہاں چور کسے کہنا ہے اس کا فیصلہ میں عوام پر چھوڑ دیتا ہوں۔
صورتحال یہ ہے کہ شوکت ترین صاحب نے آٹے کی قیمت پر 32 فیصد سبسڈی ختم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ آٹے کے چالیس کلو کے تھیلے کی قیمت میں آٹھ دنوں میں پانچ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ایک سال میں یہ اضافہ بیس فیصد ہوا ہے اور اگر تین سالوں کا حساب لگایا جائے تو تقریباً 65 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے۔ اب سبسڈی ختم کرنے کے بعد اس میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ پچھلی حکومتوں میں وزرا آٹے کی قیمتیں بڑھاتے تھے لیکن موجودہ حکومت میں سبسڈی ختم کرنے کا فیصلہ وزیراعظم صاحب نے خود کیا ہے۔ وزیراعظم صاحب پہلے بھی فرما چکے ہیں کہ آٹے اور چینی کی قیمتوں کی نگرانی میں خود کروں گا۔ جب سے انہوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی ہے قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ وزیراعظم کا بھی کارکردگی کے حوالے سے احتساب ہو تا کہ عوام کو مہنگائی کے ذمہ داران کا علم ہو سکے۔
مہنگائی میں اضافے کی ایک بڑی وجہ بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔ وزیراعظم صاحب خود بیان دے چکے ہیں کہ ملک میں بجلی بہت مہنگی ہے۔ وزیراعظم صاحب کا یہ بیان نا مکمل محسوس ہوتا ہے۔ اگر خان صاحب یہ فرما دیتے کہ پچھلے تین سالوں میں تحریک انصاف کی حکومت کی غیر مؤثر پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں بجلی بہت مہنگی ہو گئی ہے تو زیادہ مناسب ہوتا۔ وزیر اعظم کے بیان پر مجھے عمران خان کی 19 ستمبر 2014 ء کی وہ تقریر یاد آرہی ہے جس میں انہوں نے کنٹینر پر چڑھ کر فرمایا تھا کہ نواز شریف نے بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ رحیم یار خان کی ایک عورت نے بل ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے خود کشی کر لی ہے۔ اس لیے میں آج اپنا بجلی کا بل جلا رہاہوں۔ آپ بھی بجلی کے بل جلا دیں اور انہیں ادا مت کریں ورنہ آنے والے بل اس سے بھی زیادہ ہوں گے اور سارا پیسہ کرپٹ وزیراعظم کے پاس چلا جائے گا۔ آج سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے تین سالوں میں نواز شریف کے دور کی نسبت بجلی کی قیمتوں میں دو گنا سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے اور نہ جانے کتنی عورتوں نے بل ادا نہ کر سکنے کی وجہ سے خود کشیاں کر لی ہیں۔ وزیراعظم صاحب سے گزارش ہے کہ عوام کی رہنمائی فرمائیں کہ ان حالات انہیں کیا کرنا چاہیے؟ عمومی رائے یہ ہے کہ شاید بل جلانے کا درست وقت یہ ہے۔
ان حالات پر رائے لینے کے لیے جب ایکسچینج کمپنیز کی تنظیم کے رہنما ظفر پراچہ صاحب سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہا کہ حکومتی عمل سے ایسا ہر گز محسوس نہیں ہوتا کہ سرکاری مشینری ملک میں مہنگائی کم کرنے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہے کیونکہ مہنگائی کے ذمہ داران کو ایک وزارت سے نکال کر دوسری وزارت میں ڈالا جا رہا ہے اور جنہیں حکومت سے نکال دیا گیا ہے ان کا بھی احتساب نہیں ہو رہا یعنی سب محفوظ ہیں۔ چینی سکینڈل ہو‘ آٹا سکینڈل ہو یا ادویات کا سکینڈل ہو کسی سے ریکوری نہیں کی گئی۔ اس طرح مہنگائی کم نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ملک میں مہنگائی کم کرنی ہے تو آٹا اور چینی کی تجارت کو سرکار سے الگ کرنا ہو گا۔ کاروباری حضرات جتنی چاہے چینی منگوائیں یا بیچیں حکومت کو اس میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ آزاد تجارت ہونی چاہیے جیسے دیگر اشیا کی ہوتی ہے۔ جب تک یہ اشیا حکومتی تسلط سے نہیں نکلیں گی ان کی قیمت کم نہیں ہو سکتی۔ ملک میں شوگر مل لگانے کا عمل اس قدر مشکل ہے کہ سیاسی لوگوں کی سرپرستی کے بغیر یہ عمل مکمل نہیں ہو سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر شوگر ملیں زرداری‘ نواز شریف‘ شہباز شریف‘ جہانگیر ترین‘ خسرو بختیار سمیت سیاسی خاندانوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ یہ سرکار سے بجلی‘ گیس‘ درآمدات اور برآمدات پر سبسڈیاں لیتے ہیں اور عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے تجارت کرتے ہیں۔ جب درآمدات کا وقت ہوتا ہے یہ برآمدات کرتے ہیں اور جب برآمدات کا وقت ہوتا ہے تو درآمدات کرتے ہیں کیونکہ ان کے مفادات اس سے ہی جڑے ہوتے ہیں۔انہوں نے ڈالر کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر جانے کو بھی مہنگائی میں اضافے کی وجہ قرار دیا۔ ان کے مطابق ڈالر کی قدر میں اضافہ شک و شبہات سے خالی نہیں ہے۔ ملک کے اکثر ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ موجودہ حالات میں ڈالر کی قیمت 155 روپے سے نہیں بڑھنی چاہیے۔ ڈالر ذخائر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہیں۔ روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹ میں دو ارب ڈالر جمع ہو چکے ہیں۔ کوئی بڑی ادائیگی بھی نہیں کرنی ہے۔ ایسے حالات میں ڈالر کا بڑھ جانا اس شک کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ممکنہ طور پر حکومت نے آئی ایم ایف سے ڈالر کی قیمت بڑھانے کا معاہدہ کر رکھا ہے۔ (جاری )