برے معاشی حالات احتساب کے کمزور نظام سے جنم لیتے ہیں۔ انسان کی ہزاروں سالہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ جن قوموں نے مربوط انتظامی نظام تشکیل دینے پر کام کیا‘ ان کے اثرات صدیوں تک موجودرہے۔ ماضی کے تجربات سے سیکھنے کا عمل اب بھی جاری ہے مگر کامیابی کے اصول و ضوابط اور قاعدے و قوانین کبھی نہیں بدلے۔ منزل کے حصول کے لیے راستے کا تعین قوموں کو خود کرنا پڑتا ہے اور نتائج فیصلہ کرتے ہیں کہ راستہ درست تھا یا غلط۔ اگر ہم پاکستان کی معاشی صورتحال پر نظر ڈالیں تو یہ اندازہ لگانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی کہ جس راستے پر اس ملک کو چلایا گیا‘ شاید وہ درست نہیں تھا اور اسی لیے راستہ کٹتے جانے کے باوجود منزل دور سے دور ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔پاکستان میں گردشی قرضوں سے پیدا ہونے والی صورتحال آپ کے سامنے ہے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات 4 اکتوبر کو شروع ہوئے تھے جو 15 اکتوبر تک مکمل ہونا تھے لیکن آج 27 اکتوبر‘ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں‘ تک معاملات طے نہیں ہوئے ہیں۔ نہ مشیرِ خزانہ صاحب واضح لب کشائی کیلئے تیار ہیں اور نہ حکومت ان معاملات کو اہمیت دیتی دکھائی دے رہی ہے۔
حکومت کی یہ خاموشی بلاوجہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف اپنے مؤقف پر قائم ہے کہ گردشی قرضوں کو کم کیا جائے۔ پاکستان کے گردشی قرضے اس وقت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔جون 2018ء میں 1126ارب روپے کے گردشی قرضے تھے جو ستمبر 2021ء میں 2324 ارب روپے سے بڑھ چکے ہیں۔بجلی کی فی یونٹ قیمت میں 41 فیصد سے زیادہ اضافہ ہو چکا ہے مگر گردشی قرضوں کا بوجھ زیادہ سے زیادہ ہو رہا ہے۔ اس وقت ایک طرف بجلی کا فی یونٹ ریٹ بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف قرضوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ عوام دونوں اطراف سے پس رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا کہ ملک اس نہج پر پہنچ گیا؟ کیا آج تک بجلی چوری روکنے کے لیے کوئی مؤثر لائحہ عمل تشکیل نہیں دیا گیا؟ دنیا اس وقت بجلی چوری سے بچنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہی ہے۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جو جے ایف 17 تھنڈر جیسے جدید طیارے خود بنا رہا ہے اور آئی ٹی سیکٹر میں دنیا میں اپنا لوہا منوا رہا ہے‘ اس تمام تر قابلیت کے باوجود بجلی چوری روکنے کا چھوٹا سا منصوبہ پچھلے چھ سالوں سے التوا کا شکار تھا۔ جسے حکومت نے بند کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ حالانکہ اس منصوبے کی تکمیل کے لیے فنڈز کی کمی بھی نہیں تھی۔ 2015ء میں ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بجلی کے سمارٹ میٹر لگانے کے لیے تقریباً 400 ملین ڈالرز کا فنڈ منظور کیا تھا مگر چھ سال بعد بھی اس سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
پاور ڈویژن کے ذرائع کے مطابق یہ منصوبہ بیوروکریسی کے درمیان گھومتا رہا، ایک افسر سے دوسرے تک، دوسرے سے تیسرے تک اور تیسرے سے دوبارہ پہلے تک‘ ہر کوئی دوسرے پر اس کی ذمہ داری ڈالتا رہا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان ایک طرف 400 ملین ڈالرز کے فنڈ سے محروم ہو گیا اور دوسری طرف وعدہ کر کے فنڈز استعمال نہ کرنے اور منصوبہ شروع نہ کرنے کی مد میں تقریباً 2 ملین ڈالرز سے زیادہ جرمانہ ادا کرنا پڑا‘ یعنی کھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے۔ اس میں صرف بیوروکریسی ہی قصور وار نہیں بلکہ سیاسی پارٹیاں بھی برابر کی ذمہ دار ہیں۔ نون لیگ کے دور میں منظور ہونے والا یہ منصوبہ انہی کے دور میں تین سال تک نامکمل رہا، جب تحریک انصاف کی حکومت آئی تو انہوں نے بھی اس منصوبے کو شروع کرنا مناسب نہیں سمجھا بلکہ منصوبے میں تبدیلیوں کو جواز بنا کر معاہدہ ہی معطل کر دیا۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب اس پر عمل درآمد کرنے کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔
آئی ایم ایف اور پاکستان کے مابین قرضوں کی نئی قسط پر ہونے والے مذاکرات میں سب سے بڑا مطالبہ بجلی چوری روکنے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کر کے آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کا راستہ نکالا جا سکتا تھا لیکن ایک مرتبہ پھر حکومت نے صحیح وقت پر غلط فیصلہ کیا۔ اس سے نہ صرف معاشی ماہرین حیران ہیں بلکہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک (ADB) بھی شش و پنج کا شکار ہے۔ اے ڈی بی نے بیوروکریسی اور سیاستدانوں کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کی خود تحقیقات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں‘ اس کا علم اگلے چند ماہ میں ہو جائے گا لیکن اہم معاملہ یہ ہے کہ اے ڈی بی نے معاہدے پر عمل درآمد میں تاخیر کا جرمانہ وصول کر لیا ہے یعنی اصول کے مطابق اس نے اپنا حصہ وصول لے لیا ہے جس کا ادارے کو فائدہ ہوا‘ اس کے باوجود وہ پاکستان میں تحقیقات کروانا چاہتا ہے۔دوسری جانب جس ملک نے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے یہ جرمانہ ادا کیا اور چھ سال تک منصوبے کو التوا کا شکار رکھا اور بعد ازاں اربوں روپوں کی بجلی چوری کا بوجھ بجلی کے نرخوں میں اضافے کی صورت میں عوام کے کاندھوں پر لاد دیا‘ اس ملک کے حکمرانوں نے اس تاخیر کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی کی ہے؟ کیا ان سرکاری بابوؤں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے جو عوام کے خدمت پر مامور ہیں، ان کے ٹیکس کے پیسوں سے ہی تنخواہیں اور مراعات وصول کرتے ہیں‘ کیا وہ آج جوابدہ نہیں ہیں؟ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں شاید یہی فرق ہے جو انہیں ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے۔ چین میں اس طرح کی غیر ذمہ داری پر عمر قید کی سزا ایک معمول کی بات ہے۔ نیوزی لینڈ جیسے ملکوں میں ایسا سکینڈل سامنے آ جاتا تو وزیراعظم سے استعفیٰ طلب کر لیا جاتا، امریکا اور برطانیہ میں یہ صورتحال پیدا ہوتی تو عوام سڑکوں پر نکل آتے اور اپنے حق کے لیے آواز بلند کرتے لیکن ہماری قوم شاید اسے اپنا مقدر سمجھ کر آرام سے بیٹھ گئی ہے۔ وہ ابھی تک اس شعور سے آشنا نہیں ہو سکی ہے کہ اس کی اہمیت کیا ہے۔ اس کے حقوق کس قدر اہم ہیں اور اس کے ٹیکس کا پیسہ حکومت کی ملکیت نہیں بلکہ حکومت کے پاس اس کی امانت کی صورت میں ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ پاکستان میں مؤثر سیاسی و معاشی نظام قائم نہ ہونے کی ایک وجہ عوام میں شعور کا نہ ہونا ہے تو غلط نہ ہو گا۔
لاہورمیں بجلی چوری روکنے کا منصوبہ ختم کرنے کے بعد سرکار نے بجلی چوری روکنے کے لیے اسلام آباد میں نیا منصوبہ لانچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ذمہ داران کی غیر سنجیدگی کا اندازہ ان فیصلوں سے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ پہلے 6 سال لاہور کے حوالے سے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگائے رکھا گیا اور اب اسلام آباد میں بجلی چوری ختم کرنے کے نعرے لگائے جا رہے ہیں حالانکہ بجلی چوری کا سب سے زیادہ مسئلہ خیبر پختونخوا میں ہے۔ اگر حکمران واقعتاًبجلی چوری کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تو شروعات خیبر پختونخوا سے کرتے۔ اسلام آباد میں سترہ ارب کی سرمایہ کاری مطلوبہ نتائج نہیں دے سکے گی۔ یہی سرمایہ کاری اگر خیبرپختونخواہ میں کی جاتی تو اربوں روپوں کی بجلی چوری روک کر مطلوبہ فوائد حاصل کیے جا سکتے تھے۔ یہاں اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ ایڈوانس میٹرنگ انفراسٹرکچر (اے ایم آئی) کی افادیت کے حوالے سے بھی شکوک و شبہات ظاہر کیے جا رہے ہیں جومیرے خیال میں نامناسب ہیں۔ جن ممالک میں اے ایم آئی سسٹم نافذ کیا گیا وہاں نہ صرف بجلی چوری کم ہو گئی بلکہ بجلی کی قیمتیں بڑھائے بغیر آمدن میں بھی اضافہ ہوا۔اے ڈی بی نے ازبکستان میں یہ منصوبہ شروع کیا جس کے حیران کن نتائج سامنے آئے۔ قابلِ وصول رقم میں 90 فیصد زیادہ کمی آئی اور وصولیوں میں سو فیصد اضافہ ہوا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ سرکار اس معاملے پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلے کرے۔اس کے علاوہ بجلی چوری روکنے والے نظام میں بلاوجہ تاخیر کرنے والوں کا احتساب کیا جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو سکے۔