وزیراعظم عمران خان نے پاکستانی تاریخ کے سب سے بڑے سبسڈی پیکیج کا اعلان کیا ہے تا کہ مہنگائی کے اثرات سے نچلے طبقے کو محفوظ رکھا جا سکے۔ 120 ارب روپے کا پیکیج 130 ملین لوگوں کو سستی اشیائے خورونوش فراہم کرنے میں استعمال ہو گا۔ ایسا یقینا عوام کو ریلیف دینے کے لیے کیا گیا ہے لیکن عوامی سطح پر اس منصوبے کی پذیرائی دیکھنے میں نہیں آ رہی‘ جس کی کئی ممکنہ وجوہات ہو سکتی ہیں۔ میرے نزدیک اس پیکیج کی عوام میں عدم پذیرائی کی پہلی وجہ غلط وقت کا تعین ہے۔ جس خطاب میں ریلیف پیکیج کا اعلان کیا گیا‘ اسی خطاب میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا اعلان بھی کر دیا گیا حالانکہ عوام یہ تصور کیے بیٹھے تھے کہ وزیراعظم صاحب اس مرتبہ پٹرول کی قیمت میں اضافہ نہیں کریں گے کیونکہ 31 اکتوبر کو وزیراعظم ہائوس کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ اوگرا کی جانب سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کی سمری کو وزیراعظم نے مسترد کر دیا ہے۔ دوسرا، اسی خطاب میں سردیوں میں گیس کی فراہمی میں تعطل کا اعلان بھی کیا گیا جبکہ تیسری ممکنہ وجہ یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے اشیا کی فراہمی ہو سکتی ہے۔ عمومی رائے یہ ہے کہ یوٹیلٹی سٹورز پر ملنے والی اشیا معیار کے مطابق نہیں ہوتیں‘ ان کے استعمال سے فائدے کے بجائے نقصان کا اندیشہ رہتا ہے۔ ایک کلو دال میں ایک پائو تو کنکر ہوتے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز سے ملنے والی چینی کے دو چمچ کی مٹھاس عام مارکیٹ سے ملنے والی چینی کے ایک چمچ کے برابر ہوتی ہے جبکہ یہاں گھی‘ تیل وغیرہ ان کمپنیوں کا بیچا جاتا ہے جن کے بارے میں نہ کبھی سنا اور نہ ہی کبھی استعمال کیا، وغیرہ وغیرہ ۔ عوام چونکہ حقیقت کے بارے میں بخوبی جانتے ہیں‘ شاید اسی لیے اس پیکیج پر کسی بھی قسم کی خوشی کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔
وزیراعظم صاحب کے خطاب میں ایک انتہائی اہم بیان اپوزیشن کے حوالے سے تھا۔ خان صاحب نے فرمایا کہ اگر اپوزیشن ملک کا لوٹا ہوا آدھا پیسہ بھی واپس لے آئے تو میں اشیا کی قیمتیں آدھی کر دوں گا۔ اس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مہنگائی پر قابو نہ پانے میں مبینہ ناکامی پر بھی ذمہ داری اپوزیشن پر ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر ماضی پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہو گا کہ خان صاحب جب اپوزیشن میں تھے تو کرپٹ حکمرانوں کا احتساب کر کے مبینہ طور پر لوٹا ہوا پیسہ پاکستان لانے کے دعوے کرتے تھے۔ ان کے وزرا تو یہ عمل پہلے تیس دنوں میں مکمل کرنے کا اعلان کرتے دکھائی دیتے تھے۔ اب تحریک انصاف کی حکومت کو تین سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور مبینہ طور پر کرپٹ حکمرانوں سے ایک پائی بھی وصول نہیں کی جا سکی بلکہ ان کو جیلوں میں بند کر کے احتساب کیسز اور سکیورٹی کے نام پر قوم کا پیسہ ضائع کیا گیا۔ اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ سربراہِ حکومت کو درخواست کرنا پڑ رہی ہے کہ اپوزیشن خود ہی لوٹا ہوا پیسہ واپس لے آئے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب، ایف آئی اے، آئی بی، ایف بی آر جیسے مضبوط ادارے حکومت کے ماتحت ہیں۔ ان کے استعمال کے باوجود حکومت نتائج کیوں نہیں دے پارہی؟ اگر دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات بھی حکومت کی مدد کے لیے آگے نہیں آرہے تو کہیں ایسا تو نہیں کہ بیرونِ ملک عدالتوں میں جرم ثابت نہ ہونے کی وجہ سے آپ کو مطلوبہ سپورٹ نہیں مل رہی؟ حال ہی میں برطانیہ کی عدالت میں بھی اس حوالے سے ایک کیس میں شکست ہوئی۔ اس کے علاوہ احتساب کے تقریباً پچانوے فیصد کیسز میں ثبوت فراہم نہ کیے جانے کی وجہ سے ملزم ضمانت پر رہا ہو کر گھروں کو جا چکے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ حکومت جانتی ہے کہ اپوزیشن پر کیسز بے بنیاد یا نہایت کمزور ہیں اورانہیں عدالتوں کے ذریعے سزا نہیں مل سکتی‘ اس لیے عوام کو تسلی دینے کے لیے پھر سے پرانے نعروں کو سہارے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ؟ میری حکومت سے گزارش ہے کہ متعلقہ بیان کے حوالے سے وضاحت کی جائے تا کہ عوام کی کنفیوژن دور ہو سکے۔
اس کے علاوہ مذکورہ خطاب میں ملک میں مہنگائی کا ذمہ دار حکومت اور اس کی پالیسیوں کو قرار دینے کے بجائے میڈیا کے کردار پر سوالات اٹھائے گئے جو تشویش ناک امرہے۔ وزیراعظم صاحب نے فرمایا کہ میڈیا تصویر کے دونوں رخ نہیں دکھا رہا‘ مہنگائی صرف پاکستان میں نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ تیل کی قیمتیں برطانیہ، امریکا اور کینیڈا میں بھی بڑھی ہیں۔ اگرچہ وزیراعظم صاحب درست بات کر رہے ہیں؛ تاہم یہ بھی آدھا سچ ہے۔ ذرائع کے مطابق برطانیہ میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت تقریباً ایک پاؤنڈ چالیس سینٹ ہے اور ایک گھنٹہ کام کرنے کی کم سے کم اجرت دس پاؤنڈ ہے‘ یعنی آٹھ گھنٹے کام کر کے ایک دن میں 80 پاؤنڈ کمائے جا سکتے ہیں جس میں تقریباً ستاون لیٹر پٹرول خریدا جا سکتا ہے۔ اسی طرح امریکا میں ایک لیٹر پٹرول کی اوسط قیمت تقریباً 3 ڈالر ہے اور کام کرنے کی کم سے کم اجرت تقریباً 14 ڈالر فی گھنٹہ ہے یعنی امریکا میں آٹھ گھنٹے کام کر کے 112ڈالر کمائے جا سکتے ہیں جس سے لگ بھگ 37 لیٹر پٹرول خریدا جا سکتا ہے۔ کینیڈا میں ایک لیٹر پٹرول کی قیمت تقریباً ڈیڑھ ڈالر ہے اور کام کرنے کی کم سے کم اجرت 13 ڈالر ہے یعنی آٹھ گھنٹے کام کر کے بآسانی سو ڈالر کمائے جا سکتے ہیں اور اس رقم میں تقریباً 67 لیٹر پٹرول مل جائے گا۔ عام گھروں میں بجلی کا اوسط بل تقریباً 100 ڈالر آتا ہے جو محض ایک دن کی مزدوری سے کمائے جا سکتے ہیں۔ تقریباً پندرہ دن کام یا مزدوری کر کے پورے مہینے کے اخراجات بآسانی پورے کیے جا سکتے ہیں۔ باقی پندرہ دن کی کمائی کو بچت یا انٹرٹینمنٹ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ پاکستان میں حالات اس کے برعکس ہیں۔ یہاں ایک گھنٹے کی کم سے کم اجرت تقریباً ایک سو روپے ہے یعنی کہ آٹھ گھنٹے کام کر کے صرف آٹھ سو روپے کمائے جا سکتے ہیں جس کے عوض صرف ساڑھے پانچ لیٹر پٹرول ملتا ہے۔ حکومت اگر ترقی یافتہ ممالک کے پٹرول کی قیمت کو پاکستان سے زیادہ قرار دے رہی ہے تو ان کی آمدن کا بھی پاکستان کے ساتھ موازنہ پیش کرے۔ اسی صورت میں درست حقائق عوام تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔ یکطرفہ اعدادوشمار بتانا عوام کو کنفیوز کرنے کے مترادف ہے۔ اس حوالے سے میڈیا پر الزام لگانے سے بہتر ہے کہ پہلے اپنا احتساب کیا جائے اور حکومتی پالیسیوں کی سمت درست کرنے کی کوشش کی جائے۔
کہا جا رہا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے پاکستان میں بھی قیمت بڑھانا ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ کرتے تو خسارہ مزید بڑھ جاتا اور مزید قرض لینا پڑتا، حالانکہ اگر دوسری طرف نظر دوڑائیں تو عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہونا شروع ہو گئی ہیں۔قیمتیں 85 ڈالر فی بیرل سے کم ہو کر اب تقریباً 80 ڈالر فی بیرل تک گر چکی ہیں۔ پاکستان میں اس کا مثبت اثر پڑنا چاہیے تھا لیکن ایسا تاحال ممکن نہیں ہو سکا۔ ذرائع کے مطابق یہ اضافہ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے کیا گیاتھا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس سے قبل 15 اکتوبرکو تیل کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ آئی ایم ایف کو خوش کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس مرتبہ بھی آئی ایم ایف کو منانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ایسے سخت حالات پیدا کرنے کے بعد آئی ایم ایف کا مان جانا قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے؛ تاہم سوال یہ ہے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پاکستانی عوام کی دی گئی قربانیوں کا کیا ہوگا؟ کیا حکومت تیل کی قیمتیں پرانی سطح پر لاکر فلاحی ریاست قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے گی یا پھر عوام اسی طرح مہنگائی کی چکی میں پستے رہیں گے؟ اگر اس وقت دانشمندانہ فیصلے نہ لیے گئے تو آنے والا وقت ملکی معیشت کے لیے مزید مسائل پیدا کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔