پاکستان کی معاشی ترقی کا انحصار بڑی حد تک برآمدات پر ہے اور برآمدات میں اضافے کے لیے جی ایس پی پلس سٹیٹس کا برقرار رہنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اس حوالے سے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور مثبت اقدامات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کے حالیہ دورہ یورپ سے امید کی کرن پیدا ہوئی کہ پاکستان اگلے کئی سال تک جی ایس پی پلس سٹیٹس سے مستفید ہو سکتا ہے‘ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت پاکستان گورنر صاحب کی تجاویز پر عمل بھی کرے۔ ذاتی تعلقات کی بنا پر ایک وقت تک فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں‘ اس کے بعد ملکی سطح پرکارکردگی دکھانا ہوتی ہے۔ 2013ء سے لے کر آج تک پاکستان سالانہ تقریباً تین ارب ڈالر سے زائد فائدہ حاصل کر رہا ہے۔ اس وقت پاکستان کی کل برآمدات کا 31 فیصد یورپ سے منسلک ہے۔ پاکستان جی ایس پی پروگرام کا حصہ ہے جو حقیقی معنوں میں کسی نعمت سے کم نہیں ‘ لیکن اس سے صحیح معنوں میں فائدہ اٹھانے کے لیے معاہدے کی شرائط پر من و عن عمل کرنا اور یورپ کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھنا ضروری ہے جو کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن اب ایسا محسوس ہورہا ہے کہ شاید سرکار اس محاذ پر بھی ناکام ہو جائے گی۔ اس کا اندازہ یورپی یونین کے پارلیمانی وفد کے حالیہ دورہ پاکستان سے ہوا ہے۔ وفد نے اپنے دورہ کے بعد متنبہ کیا ہے کہ اگر پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال بہتر نہ ہوئی تو اس کو حاصل تجارتی مراعات پر مبنی جی ایس پی پلس سٹیٹس کی تجدید کا امکان کم ہو سکتا ہے۔اطلاعات کے مطابق چار رکنی یورپی پارلیمانی وفد نے پہلے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اورمشیر تجارت رزاق داؤد سے ملاقات کی۔ ملاقات کو صحیح انداز میں ہینڈل نہ کرنے کی وجہ سے معاملات خراب ہوئے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ گورنر پنجاب سے بھی وفاقی وزرا کے غیر سنجیدہ رویے کی شکایت کی گئی ۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ گورنر صاحب یورپ میں جو محنت کر کے آئے تھے اس پر وزیر خارجہ نے پانی پھیر دیا۔ وفد میں شامل ایک رکن لوئیس گاریکانو نے پاکستان کے دورے سے واپسی کے بعد تقریباً بارہ ٹوئٹس میں پاکستان کو جی ایس پی پلس کے تحت تجارتی رعایت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے خواتین‘ اقلیتی برادری کے حقوق کے ساتھ ساتھ آزادی صحافت کی صورتحال کو بہتر کرنے کی طرف کوئی پیش رفت نہیں کی۔پاکستان کا جی ایس پی پلس سٹیٹس دسمبر 2023ء میں ختم ہو رہا ہے۔ 2024ء سے 2033ء تک پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹس دینے یا نہ دینے کا فیصلہ کرنے کے لیے سکروٹنی کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔ اس حوالے سے اپریل 2021ء میں یورپی پارلیمنٹ میں ایک قرارداد بھی پاس ہوئی تھی جس میں پاکستان کے جی ایس پی پلس سٹیٹس کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ یورپی وفد کا حالیہ دورہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کرنا اہم ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری لابنگ کر کے بہتر تعلقات بنانا اور پھر انہیں قائم رکھنا ہے۔ چوہدری محمدسرور اس تکنیک کو سمجھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ پچھلے دس سال میں اقلیتوں کے حقوق‘ جبری شادیوں کی روک تھام‘ کالعدم تنظیموں کے خلاف مطلوبہ ایکشن جیسے کئی معاملات پر کوئی خاص کام نہ ہونے کے باوجود بھی جی ایس پی پلس سٹیٹس قائم رہا۔ یہ معاملات عمومی طور پر وزیر خارجہ کی ذمہ داری ہوتے ہیں ‘جسے وہ ادا کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔کسی بھی ملک کے دیگرممالک کے ساتھ تعلقات کا انحصار وزیر خارجہ پر ہوتا ہے۔ یہ ایک حساس عہدہ ہے جس کی کامیابی اسے متوازن رکھنے پر منحصر ہے۔ شاہ محمود قریشی صاحب کے کالعدم جماعتوں کے حوالے سے حالیہ بیانات اور پھر ان کے دفاع کو لے کر بین الاقوامی سطح پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے جس کے معاشی اثرات پاکستان پر پڑتے دکھائی دے رہے ہیں۔ دوسری طرف یہ رائے بھی تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ یورپی یونین کے کسی وفد کے ساتھ مذاکرات کی ذمہ داری چوہدری محمد سرور کو سونپی جائے اور کسی اور کو اس میں مداخلت کی اجازت نہ دی جائے۔ اگر کسی وزیر یا مشیر سے ملاقات ضروری ہے تو وہ بھی گورنر پنجاب کی موجودگی میں کی جائے۔ اس رائے کی بنیاد ان کی نو سالہ کارکردگی ہے۔ انتہائی مشکل حالات میں پاکستان کو جی ایس پی پلس سٹیٹس دلوانا اور پھر اسے مستقل طور پر برقرار رکھنا بڑی کامیابی ہے جسے سراہا جانا ضروری ہے۔
ملک اس وقت نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ڈالر کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہے‘ پیٹرولیم مصنوعات عوام کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں اور مہنگائی نے عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔ ان حالات میں بین الاقوامی برادری سے تعلقات بہتر بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان مزید کسی پابندی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ حکومت پاکستان سالانہ برآمدات 30 بلین ڈالرز تک لے جانے کا ہدف طے کیے ہوئے ہے جس میں ٹیکسٹائل کا حصہ 22 بلین بتایا جاتا ہے۔ پچھلے ماہ ٹیکسٹائل برآمدات میں 17 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانی ٹیکسٹائل کی 75 فیصد سے زائد برآمدات یورپی مارکیٹس میں کی جارہی ہیں۔ اس موقع پر اگر پاکستان کے جی ایس پی پلس سٹیٹس میں 2023 ء کے بعد توسیع نہیں ہوتی تو برآمدات متاثر ہو سکتی ہیں جس سے ڈالر پر دباؤ بڑھنے اور اس کی قیمت میں مزید اضافہ کے امکانات بڑھا سکتے ہیں۔
بعض حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ وقت سے پہلے ہی ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔ جی ایس پی پلس سٹیٹس 31 دسمبر 2023ء تک پاکستان کے پاس ہے۔ وقت آنے پر احتیاطی تدابیر اختیار کر لیں گے۔ شاید وہ اس کا ادراک نہیں رکھتے کہ وقت آ چکا ہے۔ یورپی یونین کے پارلیمانی وفد کے ٹویٹس نے یورپی کسٹمرز کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ کیا پاکستان کے ساتھ دیر پا معاہدے کیے جائیں یا نہیں۔اگر اسی طرز پر ایک دو بیانات مزید آ گئے اور یورپی یونین نے اعلان کر دیا کہ پاکستان کو 2023ء کے بعد جی ایس پی پلس سٹیٹس نہیں ملے لگا تو اس کا اثر آج کی مارکیٹ پر پڑنے لگے گا‘ لہٰذا بیانات دیتے وقت ذمہ داری کا مظاہر ہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اہم حکومتی شخصیت نے بتایا کہ عمران خان صاحب کے وزیراعظم بننے کے بعد یہ امید کی جا رہی تھی کہ پاکستان کا امیج پوری دنیا میں بہتر ہو سکے گا۔ کسی اور شعبے پر کام ہو یا نہ ہو لیکن سفارتی تعلقات شاندار ہو سکیں گے‘ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔ اس وقت پورا یورپ آپ کے خلاف ہے۔ نیوزی لینڈ اپنی ٹیم پاکستان لا کر بغیر کھیلے واپس چلا گیا۔ عمران خان صاحب نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن کو فون کر کے سکیورٹی کی یقین دہانی بھی کروائی لیکن مبینہ طور پر ایک جعلی ای میل کا وزن پاکستانی وزیراعظم کی یقین دہانی سے زیادہ محسوس ہوا۔ اس کے بعد انگلینڈ کا پاکستان آنے سے انکار اور اب آسٹریلیا کے کھلاڑیوں کی آئیں بائیں شائیں یہ سمجھنے کے لیے کافی ہے کہ پاکستان بین الاقومی سطح پر تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔امریکہ کے ساتھ تعلقات سرد مہری کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ بھی سفارتی سطح پر پاکستان کا ساتھ دینے میں ہچکچاہٹ کا شکارہے۔حالانکہ وزیراعظم پاکستان ان سے بہترین تعلقات کے دعویدار تھے اور پاکستانی اسے اپنا دوسرا گھر سمجھتے تھے۔جبکہ آج صورتحال یہ ہے کہ برطانیہ نے پاکستان کو کورونا ریڈ لسٹ میں سے نکالنے کے لیے بھی بہت نخرے کئے۔ آنے والے دنوں میں کیا ہوتا ہے اس حوالے سے مکمل یقین کے ساتھ کچھ کہنا قبل از وقت ہے ‘البتہ ماضی کے تجربات کے پیش نظر یہ رائے تقویت اختیار کرتی جارہی ہے کہ اگر سفارتی تعلقات میں بہتری لانے کے لیے بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو سال2023کے بعد پاکستان کا جی ایس پی پلس سٹیٹس قائم رہنا مشکل ہو سکتا ہے۔