پاکستانی معیشت ترقی کیوں نہیں کر رہی؟

2013ء میں انتخابات کا سب سے بڑا مدعا بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ تھا۔ 2018ء میں انسدادِ کرپشن کا نعرہ الیکشن کا مدعا بنا اور 2023ء میں انتخابات کا مدعا معیشت کی بحالی ہو گا۔ حکومت کو وقت سے پہلے گرانے کی باتیں بھی اسی جواز کے تحت کی جا رہی ہیں کہ ملکی معیشت دگرگوں ہے۔ اس لیے اپوزیشن کو اس سے بہتر کوئی جواز دکھائی نہیں دیتا۔ اگر سرکار مدت مکمل کر جاتی ہے‘ تب بھی اپوزیشن کی الیکشن مہم معیشت کی تباہ حالی کے گرد گھومے گی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ میں آج کل جس بھی محفل میں چلا جائوں‘ لوگ یہ سوال ضرور پوچھتے ہیں کہ کیا پاکستان کی معیشت کبھی درست ہو سکے گی؟ میرا جواب کچھ یوں ہوتا ہے کہ مستقبل کے بارے میں تو کوئی نہیں جانتا‘ لیکن قدرت کا اصول ہے کہ گندم کاشت کرو گے تو گندم ہی اُگے گی اور آم کا پیڑ لگاؤ گے تو آم ہی ملے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ گندم کا بیج بونے سے آم کا درخت حاصل ہو جائے۔ پاکستانی معیشت وہی کچھ دے رہی ہے جو اس کی مٹی میں بویا گیا تھا اور آنے والے دنوں میں بھی وہی پھل ملے گا جس کے بیج آج بوئے جا رہے ہیں۔ آج ہم جو بو رہے ہیں‘ وہ نئے قرضوں کی درخواستیں اور امداد حاصل کرنے کی پالیسیاں ہیں۔ میرے سامنے اس وقت 1971ء کی ایک سرکاری رپورٹ پڑی ہے جس میں بین الاقومی طاقتوں سے قرضوں کی تاریخیں بڑھانے کے لیے اپیل کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ آج سے پچاس سال قبل ملک میں پیدا ہونے والے معاشی بحران پر ذوالفقار علی بھٹو کی تقریر ملاحظہ فرمائیں ''دنیا میں آپ دیکھیں ‘ انگلستان سے لے کر‘ یورپ سے لے کر ، امریکہ سے لے کر‘پوری دنیا میں ہر چیز کی قیمت بڑھ گئی ہے‘ اس لیے پاکستان بھی متاثر ہوا ہے۔ یہ نہیں کہ ہم نے خود بڑھائی ہیں ان چیزوں کی قیمتیں۔ میں آپ کو ذمہ داری سے کہنا چاہتا ہوں کہ اگر مہنگائی میری وجہ سے ہوتی تو میں کہتا کہ میں لائق نہیں ہوں‘ میں کہتا کہ میں ناکامیاب رہا ہوں لیکن جب میرے ہاتھ میں بات نہیں ہے‘ میری حکومت کے ہاتھ کی بات نہیں ہے تو میں کیسے اسے اپنی ناکامی قرار دوں؟ مہنگائی پوری دنیا میں بڑھ گئی ہے‘ عرب ممالک نے تیل کی قیمت بڑھا دی ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں‘‘۔ یہ الفاظ 2022ء میں تحریک انصاف کی حکومت کے کسی ترجمان کے نہیں بلکہ آج سے چالیس سال پہلے کی گئی وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ایک تقریر سے لیے گئے ہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی پڑھیے ''اگرچہ پچھلے سالوں میں پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے لیکن ملک شدید ترین تجارتی خسارے سے دو چار ہے۔ پاکستان درآمدی تیل پر انحصار کرتا ہے‘ بیرونِ ملک پاکستانیوں سے حاصل ہونے والے ڈالرز کی مقدار میں کمی واقع ہوئی ہے جس سے کرنٹ اکائونٹ خسارہ بڑھ گیا ہے۔ حکومت پاکستان کی کمزور پالیسیوں کی وجہ سے فصلوں کی پیداوار میں بھی کمی آئی ہے‘‘۔ یہ الفاظ آپ کو آج کے دور کے مسائل محسوس ہوں گے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ رپورٹ 1982ء کے یو ایس ایڈ پروگرام کی ہے‘ جو اس نے پاکستان سے متعلق جاری کی تھی یعنی پچھلے چالیس سالوں سے پاکستان کے مسائل جوں کے توں ہیں‘ ذرہ بھر نہیں بدلے۔ ان مسائل کے حل کے لیے جو تجاویز آج دی جاتی ہیں اور جو پالیسیاں آج بنائی جاتی ہیں‘ وہ بھی ماضی سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پرانے وقت اچھے تھے‘ پاکستان معاشی طور پر مضبوط ملک تھا‘ آمدن کے ذرائع زیادہ تھے اور اخراجات محدود تھے۔ اگر حقیقت میں ایسا ہی تھا تو امریکی امداد سمیت قرضوں کے حصول اور ان کی مدت میں اضافے کی درخواستیں کیوں دی جاتی تھیں؟ شاید پاکستان کو درست معاشی سمت میں چلانے کے لیے کبھی کوشش ہی نہیں کی گئی۔ ملک صنعتوں سے چلتے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو نے ملکی صنعتیں کاروباری طبقے سے چھین کر سرکاری بابوؤں کے سپرد کر دی تھیں۔ یہ ہمارے ماضی کی پالیسی تھی جس کی سزا ہم آج تک بھگت رہیں ہیں اور شاید آنے والی نسلیں بھی اس کا خمیازہ بھگتیں۔ اس سانحے کے بعد ملک میں صنعتیں لگانے کا وہ رجحان پیدا ہی نہیں ہو سکا جس سے معیشت نمو پاتی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم بغیر سوچے سمجھے ایک ہی دائرے میں گھومتے جا رہے ہیں۔ یہ تک نہیں جانتے کہ ہمیں اس سے حاصل کیا ہو گا اور ہم کب تک یونہی گھومتے رہیں گے۔ ستر سالوں سے ہر حکومت ملک میں معاشی انقلاب لانے ، غریبوں کو خطِ افلاس سے اوپر کھینچنے، ملک کے ہر کونے میں یونیورسٹیوں ، کالجوں اور سکولوں کے جال بچھانے کی باتیں کرتی آئی ہے لیکن کسی نے اس حوالے سے کامیابی حاصل نہیں کی۔ اگر ماضی کا حقیقی بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت آشکار ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ پاکستان نے آج تک عالمی سطح کا ایک بھی ایسا معیشت دان پیدا نہیں کیا جو ملک کی پالیسیوں کو درست سمت میں آگے بڑھا سکتا۔ ہم نے اچھے کرکٹرز پیدا کیے ، نامور سائنس دان پیدا کیے ، فلاحی تنظیموں کے حوالے سے ایدھی جیسے مسیحا ملک کو عطا ہوئے لیکن ایک بھی کامیاب معیشت دان نصیب نہیں ہو سکا۔ اچھے معیشت دان کی اہمیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگا لیں کہ بھارت کی معیشت کا بوم منمو ہن سنگھ جیسے معیشت دان کے آٹھ سالہ دورِ حکومت کا نتیجہ ہے جبکہ ہمارے ملک میں تقریباً پچھلے بیس سالوں میں کوئی نیا معیشت دان سامنے نہیں آ سکا جسے خزانے کی باگ ڈور سونپی جا سکتی۔ ملک پاکستان کی زمین اتنی بھی بنجر نہیں کہ یہاں زرخیز دماغ پیدا نہ ہو سکیں‘ شاید ایسے دماغ ملک میں رہنا نہیں چاہتے۔ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں معاشی پالیسیاں بنانے والے عبدالحفیظ شیخ اور شوکت ترین پیپلز پارٹی اور مشرف حکومتوں کا حصہ رہے ہیں‘ مجبوراً انہیں ہی دوبارہ لانا پڑا۔ یہ بات تو طے ہے کہ جو شخص اقتدار میں آئے گا وہ پالیسیاں بھی اپنی من پسند بنائے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نئے وزیر خزانہ قرض اور امداد کے چکروں میں ہی گھوم رہے ہیں جیسے وہ ماضی میں گھومتے رہے ہیں۔ اس عمل کو ملک چلانا نہیں کہا جا سکتا‘ یہ گھسیٹنے کے مترادف ہے۔ جہاں امرا ٹیکس چوری کریں اور اس کی قیمت غریب آدمی اور عام عوام ادا کریں‘ ملک کی پالیسی چھوٹی صنعتیں لگانے کے بجائے لنگر خانوں کے قیام پر ہو‘ اس ملک میں صنعتی ایمرجنسی لگانے کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ حکمران امداد اور قرض لینے کی فیکٹریاں لگانے میں مصروف ہیں۔
عوام کو یہ بتایا جا رہا ہے کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کو روشن ڈیجیٹل اکائونٹ کے ذریعے بہترین سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں‘ تقریباً سات فیصد تک منافع ڈالرز میں دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ تین بلین ڈالرز روشن ڈیجیٹل اکائونٹس میں جمع ہو گئے ہیں لیکن عوام کو یہ نہیں بتایا جا رہا کہ اس کا ملکی معیشت اور شرح نمو پر مثبت اثر کیوں نہیں پڑرہا۔ جو رقم روشن ڈیجیٹل اکائونٹس میں آ رہی ہے اس میں پچاس فیصد سے زیادہ بینکوں کا پیٹ بھرنے میں استعمال ہو رہی ہے یعنی زیادہ تر ڈالرز فکسڈ ڈیپازٹس میں جمع ہو رہے ہیں‘ صنعتیں لگانے میں استعمال نہیں ہو رہے۔ اس کے علاوہ کچھ رقم زمین کی خریداری میں استعمال ہو رہی ہے جس کے باعث زمینوں کی قیمتوں میں غیر یقینی حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کا فائدے سے زیادہ نقصان ہوا ہے کیونکہ زمینیں اور جائیداد خریدنا عام پاکستانی کی پہنچ سے اب دور ہو چکا ہے اور زیادہ تر خریدوفروخت بیرونِ ملک پاکستانیوں کے مابین ہو رہی ہے۔ یہ وہ معاشی پہلو ہے جس کے بارے میں سوچا نہیں جا رہا بلکہ 3 ارب ڈالرز آنے کو معاشی استحکام سے جوڑا جا رہا ہے۔ حکومت کی ترجیح اعدادوشمار کی بنا پر پذیرائی حاصل کرنا دکھائی دیتی ہے لیکن اس امر پر غور نہیں کیا جا رہا کہ آنے والے سالوں میں اس کے نتائج کیا ہوں گے۔ مسائل حل کرنے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو دیر پا معاشی پالیسیوں پر اتفاق کرنا ہو گا۔ اگرحکومتیں موجودہ روش پر ہی چلتی رہیں تو عین ممکن ہے کہ اگلے پچاس سال بعد بھی پاکستان کا وزیراعظم وہی مسائل بتا رہا ہو جو آج سے پچاس سال پہلے ذالفقار علی بھٹو بتارہے تھے اور جو آج عمران خان بتا رہے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں