منی بجٹ ٹُو‘ ٹیکس چھوٹ اور تاخیری فیصلے

عوام کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا ہے کہ آئی ایم ایف کا مقصد پاکستان کے معاشی نظام میں اصلاحات لانا ہے یا عوامی مشکلات میں اضافہ کرنا ہے۔بلاشبہ اصلاحات کرنے کے لیے سخت فیصلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب تیر جسم میں پیوست ہو تا ہے تو اتنی تکلیف نہیں ہوتی۔ اصل تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب تیر کو جسم سے نکالا جاتا ہے۔ زیادہ خون بہتا ہے اور گوشت کے لوتھڑے بھی جسم سے باہر نکل آتے ہیں‘ مگر سب سے زیادہ تکلیف اس سے اگلے مرحلے میں ہوتی ہے جب زخم کو بھرنے کے لیے اس میں دہکتی ہوئی راکھ ڈالی جاتی ہے اور اس پر لوہے کی گر م سلاخ لگائی جاتی ہے۔ اگر جسم کو اس پراسس سے نہ گزارا جائے تو تیر کا زہر جسم میں پھیل جائے گا اور موت واقع ہو سکتی ہے۔ ماضی میں پاکستان کے معاشی نظام میں نااہلی اور کرپشن کے اتنے تیر پیوست ہو چکے ہیں کہ انہیں نکالنے میں وقت لگے گا اور تکلیف بھی زیادہ ہو گی۔
عمران خان کی معاشی پالیسیوں کی حمایت کرنے والوں کا خیال درست ہے‘ لیکن یہاں آئی ایم ایف اور عمران خان کی معاشی پالیسیوں کو کنفیوژ نہیں کیا جانا چاہیے۔ عمران خان آئی ایم ایف کے معاشی اصولوں کے مخالف دکھائی دیتے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ سال تک آئی ایم ایف پروگرام معطل رہا کیونکہ وزیراعظم نئے ٹیکس لگانے کے حامی نہیں تھے۔ اس کے بعد جب آئی ایم ایف نے اجلاس میں یہ کہا کہ پاکستان حتمی فیصلہ کر کے بتائے کہ اس نے آئی ایم ایف کے ساتھ چلنا ہے یا نہیں‘ اگر شرائط نہ مانی گئیں تو پروگرام کینسل کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد نہ تو ورلڈ بینک پاکستان کو قرض دے گانہ ہی ایشیائی ترقیاتی بینک قرض فراہم کرے گا ۔واضح رہے پاکستان کے بیرونی قرضوں کا 70 فیصد ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینکوں کا مرہون منت ہے۔ اس کے بعد ملک فیٹف کی بلیک لسٹ میں چلا جائے گا۔ درآمدات تقریباً ناممکن ہو جائیں گی اور برآمدات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وزیراعظم ان وجوہات کی بنا پر دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس گئے ۔یہاں اکثر لوگ مثال دیتے ہیں کہ پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط نہ مان کر بھی آسانی سے زندہ رہ سکتا ہے۔ ہمارا ہمسایہ ملک ایران بھی بلیک لسٹ میں شامل ہے لیکن وہ پھر بھی ترقی کر رہا ہے۔ یہاں اس حقیقت کا ذکر ضروری ہے کہ ایران اور پاکستان کے وسائل میں فرق ہے۔ ایران دنیا میں تیل کا دوسرا بڑا پروڈیوسر ہے۔ اگر وہ بلیک میں بھی تیل بیچتا رہے تو اس کو معاشی تنگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ شاید اسی لیے تہران کو دنیا کے سستے ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ایران سوئی سے لے کر جہاز تک اپنے ملک میں بناتا ہے جبکہ پاکستان کی معیشت کا انحصار درآمدات پر ہے۔ ہم شاید عالمی تنہائی برداشت نہیں کر سکیں گے۔ اسی لیے تقریبا 700 ارب روپے کے ٹیکس لگائے جا چکے ہیں۔ منی بجٹ میں 343 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے۔ ان کے علاوہ بجلی کی قیمتوں میں لگاتار اضافے اور دیگر ٹیکسوں کو شمار کیا جائے تو حساب 700 ارب روپے سے بھی تجاوز کر سکتا ہے۔ بدقسمتی سے معاملہ یہاں رکا نہیں ہے۔ آئی ایم ایف نے حکومتِ پاکستان پر دباؤ ڈالا ہے کہ مزید سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے۔ منی بجٹ میں سرکار نے تقریباً 60 فیصد اشیا پر ٹیکس چھوٹ ختم کر دی تھی۔ اگر یہی صورتحال رہی تو سالانہ بجٹ-23 2022ء سے قبل 90 فیصد ٹیکس چھوٹ ختم کرنا پڑ سکتی ہیں اور نئے ٹیکس بھی لگائے جا سکتے ہیں۔ وزراتِ خزانہ کے ذرائع کے مطابق اگلے دو ماہ میں حکومت مزید سیلز ٹیکس چھوٹ ختم کرنے کا اعلان کر سکتی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ منی بجٹ ٹُو آنے کی تیاری ہے تو غلط نہ ہو گا۔
منی بجٹ ٹُو میں فرٹیلائزرز‘ ٹریکٹرز اور پیسٹی سائیڈز سمیت کئی اشیا پر ٹیکس چھوٹ ختم کئے جانے کا امکان ہے۔ معاملہ صرف یہاں ختم نہیں ہو رہا بلکہ تنخواہ دار طبقے کی تنخواہوں پر 160 ارب روپے کے ٹیکسز لگائے جانے کی بھی تیاری ہے۔ یاد رہے کہ شوکت ترین نے مالی سال-22 2021ء کے بجٹ میں اعلان کیا تھا کہ تنخواہ دار طبقے پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا جائے گا لیکن بعدازاں ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کر دی گئی جس سے تنخواہ دار طبقے پر اضافی ٹیکس لگائے گئے۔ منی بجٹ ٹُو کے تحت لگنے والے ٹیکسوں سے تنخواہ دار طبقے کی آمدن پر ٹیکس میں تقریباً دو گنا اضافہ ہو گا۔ اس کے بدلے میں عوام کو کیا سہولیات ملیں گی یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید سرکار کے پاس بھی نہیں کیونکہ یہ ٹیکس حکومتی ٹیکس ریفارمز کا حصہ نہیں ہیں بلکہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر لگائے گئے ہیں۔
ایک طرف پاکستانی عوام پر مسلسل ٹیکس لگائے جا رہے ہیں جبکہ دوسری طرف وزیراعظم‘ صدر اور گورنرز پر منی بجٹ کے ذریعے لگائے گئے 17 فیصد ٹیکسز کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ سفارت کاروں اور اقوام متحدہ کے نمائندوں پر بھی لگائے گئے ٹیکس واپس لے لیے گئے ہیں۔ اس معاملے پر مختلف آرا پائی جاتی ہے۔ ایک مؤقف یہ ہے کہ حکومت نے منی بجٹ میں سفارتکاروں پر ٹیکس لگا کر غلطی کی کیونکہ ویانا کنونشن آف ڈپلومیٹک ریلیشنز 1961ء کے تحت پاکستان ڈپلومیٹس پر ٹیکس نہیں لگا سکتاجبکہ دوسرا موقف یہ ہے کہ جب ملک میں کھانے پینے کی اشیاکی درآمدات پر ٹیکس لگائے جا سکتے ہیں تو ڈپلومیٹس کی درآمدات پر ٹیکس بھی لگائے جا سکتے ہیں‘لیکن زمینی حقائق کے مطابق پہلا موقف درست دکھائی دیتا ہے۔ اوریہ رائے تقویت اختیار کرتی جا رہی ہے کہ حکومت نے ڈپلومیٹس پر ٹیکس لگا کر غلطی کی تھی۔ اگر اقوام متحدہ چاہے تو پاکستان کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس میں لے جا سکتی ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ جو ٹیکس چھوٹ پاکستانی ڈپلومیٹس کو بیرون ممالک حاصل ہے وہ بھی ختم کی جا سکتی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے قوانین بنانے والوں اور انہیں لاگو کرنے والوں کے غلط فیصلوں کا احتساب کب ہو گا؟ بین الاقومی قوانین کے بارے میں معلومات رکھنے کے باوجود ان کے خلاف قوانین پاس کرنا اور پھر انہیں واپس لینا وقت اور پیسے کا ضیاع ہے مگر سرکاری بابوؤں کو کوئی پوچھنے والا نہیںکہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ ڈپلومیٹس سے متعلق 17 فیصد ٹیکس واپس لینے کا جواز سمجھ میں آتا ہے لیکن وزیراعظم‘ صدر اور گورنرز کو ٹیکس چھوٹ دینے کی وجوہات سامنے نہیں لائی جا رہیں۔ شاید بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے پرانے فارمولے پر عمل کیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس طرح کے ٹیکسوں کی چھوٹ سے عمومی طور پر وزیراعظم صدر اور گورنرز فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ ان کے کاروباری دوست اس کوٹے سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جیسا کہ ڈپلومیٹس کو ملنے والی سہولیات سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ سفارت کاروں اور سفیروں کی گاڑیوں پر ٹیکس چھوٹ ہونے کی وجہ سے وہ سستی گاڑیاں منگوا کر پاکستان میں قریبی دوستوں کو تحفے میں دیتے رہے ہیں اور پاکستانی مارکیٹ میں اسی گاڑی کو دو سو گنا قیمت بڑھا کر بیچا جاتا رہا ہے۔ بلکہ یہ پریکٹس ابھی بھی جا ری ہے۔ پاکستانی قوانین کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ ایسا جال ہے جس میں غریب پھنستے چلے جاتے ہیں اور امیر ایک ہی جھٹکے میں اسے توڑ کر باہر نکل جاتے ہیں۔موجودہ حقائق کے پس منظر میں یہ دعویٰ درست دکھائی دیتا ہے۔اس کے علاوہ صوبوں اور وفاق کے درمیان سیلز ٹیکس ‘ پراپرٹی کی قیمتوں اور ٹیکس کے حوالے سے اتفاق رائے پیدا نہیںہو رہا جس کے باعث ورلڈ بینک اور ایشیاانفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کی طرف سے تقریبا 695ملین ڈالرزکے قرض منظور نہیں ہو رہے۔ صوبہ پنجاب نے بھی وفاق سے نئے ٹیکس ریٹس پر عمل درآمد کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ملک بیوروکریسی کے ہاتھوں یرغمال ہے‘ انہیں شاید ملکی مسائل کا ادراک نہیں ہے۔ دانستہ غلطیاں اور تاخیر بھی کرپشن کے زمرے میں آتی ہیں ۔ کرپٹ سیاست دانوں کے ساتھ کرپٹ بابوؤں کا احتساب بھی وقت کی اہم ضرورت بن گیا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں