سیاسی عدم استحکام کے ملکی معیشت پر اثرات

دیگر امور کی طرح سیاست میں بھی معیشت سب سے زیادہ اہم ہوتی ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ کی بنیاد بھی معاشی اصولوں پر رکھی جاتی ہے۔ مضبوط پارٹی وہ ہوتی ہے جس کے پاس زیادہ انویسٹرز ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک کاروبار کی طرح ہے۔ اس میں بھی معیشت کے وہی اصول لاگو ہوتے ہیں جو کسی کمرشل کمپنی کو چلانے کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ جوڑ توڑ پر کتنا سرمایہ لگے گا اور منافع کی شرح کیا ہو گی‘ کتنی دیر میں جوڑ توڑ اورالیکشن میں لگا ہوا سرمایہ واپس آ جائے گا اور کب سے اصل منافع ملنا شروع ہو گا‘ سیاستدان اس حساب کتاب کے ماہر ہوتے ہیں۔ اس معاملے پر وہ کسی چارٹرڈ اکاؤنٹنٹس سے زیادہ علم اور مہارت رکھتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت جوڑ توڑ کی سیاست عروج پر ہے۔ لانگ مارچ اسلام آباد پہنچ چکا ہے۔قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک جمع ہو چکی ہے جبکہ پنجاب کے بڑے گروپوں کی جانب سے عثمان بزدار کو ہٹانے کامطالبہ زور پکڑ گیا ہے۔ وزرا پریشان ہیں اور سب سے بڑھ کر تشویش کی بات یہ ہے کہ کسی بھی اتحادی نے ابھی تک کھل کر عمران خان کی حمایت کا اعلان نہیں کیا۔ شاید معیشت کے رسد اور طلب کے اصول کے تحت مارکیٹ میں ڈیمانڈ اور ریٹ بڑھنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ یہ بھی ایک طرح کی نیلامی ہے‘ جو جتنا زیادہ ریٹ لگائے گا وہی کامیاب ٹھہرے گا۔ لیکن ان حالات میں پاکستانی معیشت کس نازک موڑ پر کھڑی ہے اس کی شاید کسی کو پروا نہیں اور یہ بڑی تشویش کی بات ہے۔
سیاسی عدم استحکام معاشی عدم استحکام کا باعث بنتا ہے۔ غیر یقینی صورتحال کے باعث سرمایہ کار ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ بے یقینی کی اس فضا میں حالات کب کنٹرول سے باہر ہو جائیں‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ جرمنی کی ایک مشہور کمپنی نے پاکستان سٹاک ایکسچینج میں لانچنگ معطل کر دی ہے۔ سٹاک ایکسچینج 389 پوائنٹس مزید گر گئی ہے۔ بیرونی سرمایہ کاروں نے ایک دن میں چار لاکھ ڈالرز کے شیئر بیچ دیے ہیں۔ سیمنٹ‘ آئل اور بینکنگ سیکٹرز کی کارکردگی متاثر ہوئی ہے۔ ڈالر ایک مرتبہ پھر پاکستانی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ مارکیٹ میں ایک ڈالر کی قیمت 180 روپے سے تجاوز کر چکی ہے۔ بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے ایک فیصد کے برابر ہو چکا ہے جبکہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بجٹ سرپلس میں رہنا ضروری ہے۔ سرکار کا دعویٰ ہے کہ اس نے ٹیکس اہداف حاصل کر لیے ہیں لیکن وہ عوام کو یہ بتانے سے گریزاں ہے کہ اگر آمدن بڑھائی ہے تو اخراجات بھی اسی رفتار سے بڑھا دیے ہیں جس کے نتیجے میں منافع کے بجائے نقصان بڑھ گیا ہے جس پر آئی ایم کو تشویش ہے اور آمدن بڑھانے کے لیے نئے ٹیکسز لگانے کی تجویز دے دی گئی ہے۔
آئی ایم ایف اور وزرات خزانہ کے درمیان آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے مارچ کے پہلے ہفتے میں شروع ہونے والے مذاکرات جاری ہیں لیکن وہاں سے بھی کوئی امید کی کرن دکھائی نہیں دے رہی۔ آئی ایم ایف تنخواہ دار طبقے پر 160 ارب روپے کے نئے ٹیکسز لگانے جارہی ہے۔ اس کے علاوہ بجلی اور پٹرولیم پر تقریباً 300 ارب کی سبسڈی کو ختم کرنے کا مطالبہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمت 200 روپے سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ امریکہ کی جانب سے روس کی تیل اور گیس پر پابندیاں لگنے کے بعد عالمی مارکیٹ میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمت 130 ڈالر فی بیرل سے بڑھ گئی ہے۔ جس وقت عالمی مارکیٹ میں خام تیل کی قیمت 95 ڈالر فی بیرل تھی اس وقت پاکستان میں فی لیٹر پٹرول کی قیمت 160 روپے تھی۔ آئی ایم ایف کو اس معاملے پر بھی تحفظات ہیں کہ وزرات خزانہ نے پٹرولیم لیوی 30 روپے فی لیٹر بڑھانے کا معاہدہ کیا تھا جس کی بنیاد پر پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام میں رہنے کی اجازت ملی تھی اور ایک ارب ڈالر کی قسط جاری کی گئی تھی لیکن پاکستان اس معاہدے سے منحرف ہو چکا ہے۔ اگر پٹرولیم لیوی میں اضافہ نہ کیا گیا تو 960 ارب روپے کی نئی قسط ملنا مشکل ہو گی۔ غیر یقینی صورتحال کے باعث امریکہ نے پاکستان کے ساتھ Bilateral Investment Treaty پر فی الحال مزید پیش رفت سے معذرت کر لی ہے۔ گلوبل مارکیٹ ریسرچ اور عوامی رائے جاننے کے حوالے سے 90 سے زیادہ ملکوں میں خدمات دینے والے مشہور بین الاقومی ادارے IPSOS کے مطابق پاکستانی عوام کی اکثریت موجودہ حکومت کی معاشی پالیسیز سے خوش نہیں ہے۔ سرکار سے گزارش ہے کہ وہ اس ادارے کی رپورٹ بھی عوام کے سامنے رکھے تا کہ حقائق سامنے آ سکیں اور عوام کو مستقبل میں یہ فیصلہ کرنے میں آ سانی ہو کہ انہوں نے کس جماعت کو سپورٹ کرنا ہے۔
پاکستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ تحریک انصاف نے واضح لکیر کھینچ دی ہے کہ وہ کس لابی کے ساتھ کھڑی ہے۔ یورپی یونین کے اصرار کے باوجود یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہ کرنا اور عوامی جلسوں میں یورپ اور امریکہ کو للکارنا شاید پاکستان کے لیے معاشی طور پر زیادہ سود مند نہ ہو ۔ پاکستانی برآمدات کا تقریباً 67فیصد یورپ اور امریکہ سے منسلک ہے۔ پاکستانی بیرونی قرضوں کا 70 فیصد ورلڈ بینک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف کے مرہون منت ہیں جبکہ تقریبا ً25 فیصد چین سے منسلک ہیں اور پانچ فیصد دیگر ملکوں سے متعلق ہیں۔ پاکستان روس کو تقریباً175 ملین ڈالرز کی برآمدات کرتا ہے جبکہ امریکہ کے ساتھ پاکستانی برآمدات تقریباً چھ بلین ڈالر کی ہیں۔ یورپ نے پاکستانی مصنوعات کے لیے جی ایس پی پلس سٹیٹس کی سہولت دے رکھی ہے جس کے باعث تقریباً 76 فیصد پاکستانی ٹیکسٹائل اور دیگر مصنوعات کو ڈیوٹی فری سٹیٹس حاصل ہے۔
اس صورتحال میں امریکہ اور یورپ کے بجائے روس کو سپورٹ کرنا معاشی طور پر درست فیصلہ دکھائی نہیں دیتا۔ وزیراعظم صاحب فرماتے ہیں کہ روس کو سپورٹ کرنا اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان نے روس سے 20 لاکھ ٹن گندم درآمد کرنی ہے اور گیس کے دیر پا معاہدے بھی کرنے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان روس کے بجائے کینیڈا اور امریکہ سے گندم درآمد کر سکتا ہے۔ روس کے بعد کینیڈا دنیا میں گندم کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ گیس منصوبوں کے حوالے سے یہ کہناغلط نہ ہو گا کہ ابھی چائے کو ہونٹوں تک آنے میں کافی وقت درکار ہے۔ ممکن ہے کہ پاکستان نے یہ فیصلہ چین کے کہنے پر کیا ہو لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مشکل حالات میں چین پاکستان کے ساتھ کیا تعاون کر رہا ہے۔ اطلاعات کے مطابق حکومت پاکستان نے چین سے 20 بلین ڈالرز کا امدادی پیکیج مانگ لیا ہے۔ 10 بلین ڈالرز کے قرض واجب الادا ہیں جن میں سے چاربلین سپورٹ فنڈز کی مد میں ہیں اور بقیہ چھ بلین کمرشل قرضے ہیں۔ پاکستان نے درخواست کی ہے کہ ان قرضوں کی مدت بڑھا دی جائے۔
اس کے علاوہ پاکستانی معیشت کو سپورٹ کرنے کے لیے مزید 10 بلین ڈالرز کے قرض مانگ لیے ہیں۔ یاد رہے کہ دو بلین ڈالرز کے قرضوں کی مدت 23 مارچ کو مکمل ہو رہی ہے۔ چین پاکستان کے مطالبات پورے کرتا ہے یا نہیں اس بارے کوئی دعویٰ کرنا قبل از وقت ہے۔چین اب جو بھی فیصلہ کرے گا وہ تحریک عدم اعتماد کا نتیجہ آنے کے بعد ہی کرے گا کیونکہ چین جانتا ہے کہ عدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد نئے وزیراعظم کے لیے حالات موافق نہیں ہوں گے۔ اسے مشکل فیصلے لینا ہوں گے۔ بڑے فیصلے نئی پالیسیز کے پیش نظر ہی ممکن ہو سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں