معاشی چیلنجز اور امریکہ کی اہمیت

اقتدار کے ایوانوں سے لے کر گھروں کے ڈرائنگ رومز تک ان دنوںجو موضوع زیر بحث ہے وہ پاکستان‘ امریکہ اور روس کے تعلقات کا ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ امریکہ تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں کردار ادا کر رہا ہے جبکہ امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اس سے انکار کیا ہے۔ اس حوالے سے فوری طور پر اصل حقائق کاسامنے آنا مشکل ہے‘ ممکن ہے کہ امریکی بیوروکریسی سے ریٹائر ہونے کے بعد سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کا کوئی آفیشل اپنی کتاب میں اصل کہانی بیان کردے یا پاکستانی سفارتکار آنے والے دنوں میں کوئی انکشاف کر ے۔اسی صورت میں مکمل حقائق سامنے آ سکیں گے۔ فی الحال جو بیان زیادہ اہمیت کا حامل ہے وہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کا ہے‘ جن کا کہناہے کہ پاکستان نے امریکہ کے ساتھ تعلقات ٹھیک نہ کیے تو ملکی معیشت دیوالیہ ہو سکتی ہے اور ہم اس صورتحال میں آ سکتے ہیں کہ شاید ہمارے پاس تیل خریدنے کے لیے بھی ڈالرز نہ ہوں۔ اس بیان کی تائید قائدِ حزب اختلاف اور مسلم لیگ (ن) کے صدرشہباز شریف نے بھی کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ بھکاریوں کے پاس چوائس نہیں ہوتی۔
پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر شہباز شریف صاحب کی بات درست ہی دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان کے بیرونی قرضوں کا 70 فیصد ورلڈ بینک‘ ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور آئی ایم ایف کا مرہون منت ہے۔ 25فیصد چین کے قرض ہیں اور پانچ فیصد جاپان اور دیگر ممالک کے قرض ہیں۔ ورلڈ بینک‘ اے ڈی بی اور آئی ایم ایف کے قرض امریکہ کی اشیرباد پر منحصر ہیں۔ اگر امریکہ پاکستان سے منہ موڑ لے تو یہ ادارے پاکستان کو قرض دینا بند کر دیں گے اور پاکستانی اکانومی کریش کر سکتی ہے۔ اس وقت ڈالر ذخائر 16 ارب سے کم ہو چکے ہیں جبکہ درآمدات آٹھ ارب ڈالرز ماہانہ سے تجاوز کر چکی ہیں اور برآمدات میں مطلوبہ اضافہ نہیں ہو رہا۔اس طرح کرنٹ اکاونٹ خسارہ 20 ارب ڈالرز کی حد کو چھونے کی طرف گامزن ہے۔ قرضوں کی ادائیگی مزید قرض لیے بغیر ممکن نہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ابھی تک FATF کی گرے لسٹ میں شامل ہے۔ تحریک انصاف 42 مہینوں میں پاکستان کو FATF گرے لسٹ سے نکلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکی جس کی ممکنہ وجہ امریکی اثرو رسوخ کو قرار دیا جا رہا ہے۔امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ مارکیٹ بھی ہے۔ امریکہ کو ماہانہ برآمدات 473ملین ڈالرز ‘جرمنی کو 179ملین ڈالرز‘سپین کو 121ملین ڈالرز‘ برطانیہ کو 199ملین ڈالرز ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو ناراض کرنے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیںاس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر خواجہ آصف اور شہباز شریف کے بیانات کو غیر حقیقی قرار نہیں دیا جا سکتا۔
حکومت پاکستان ان حالات سے آگاہ ہے‘ اس کے باوجود امریکی مخالفت مول لے کر روس کا دورہ کرنا دانشمندی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ روس سے پاکستان کو کوئی معاشی فائدہ حاصل نہیں ہو سکا۔ کہا گیا تھا کہ روس سے سستی گیس حاصل ہو سکے گی اور گندم کی خریداری میں بھی روس سے مدد حاصل کی جائے گی لیکن ابھی تک ایسا کوئی منصوبہ مکمل نہیں ہوا۔ حکومت شاید یہ بھول رہی ہے کہ امریکی مخالفت کی وجہ سے ہی پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے سے بھی فائدہ نہیں اٹھا سکا۔ ان حالات میں امریکہ کی مرضی کے خلاف نئے معاہدوں سے فائدہ اٹھانا تقریباً ناممکن ہے۔
پاکستان ایک کمزور معیشت ہے جبکہ روس اور چین کا شمار معاشی طور پر مضبوط ممالک میں ہوتا ہے۔ جرمنی یورپ کا سب سے مضبوط ملک ہے اورجرمنی کی گیس ضروریات کا تقریبا 55 فیصد حصہ روس پورا کرتا ہے۔ چین دنیا کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے اس کے باوجود امریکہ نے روس اور چین پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں جس کے باعث ان عالمی طاقتوں کو بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ امریکی سٹاک ایکسچینج میں رجسٹرڈ چینی کمپنیوں کے لیے یہ ضروری قرار دے دیا گیا ہے کہ یہ کمپنیاں امریکی اکاوٹنٹس سے اپنے سالانہ اکاونٹس آڈٹ کروائیں۔ خلاف ورزی کرنے کی صورت میں امریکی سٹاک ایکسچینج سے ان کی رجسٹریشن منسوخ ہو جائے گی۔ اس پابندی کے بعد امریکہ اور چین میں ان کمپنیوں کے شیئرز گر گئے ہیں۔ یہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ مشکل وقت میں چین اور روس کی دوستی شاید پاکستان کو بچا نہ سکے۔ پاکستانی معیشت کو امریکہ کی مخالفت مہنگی پڑ سکتی ہے۔ پاکستان کے معاشی مسائل میں اضافے کی وجوہات اندرونی بھی ہیں اور بیرونی بھی۔ یوکرین اور روس کی جنگ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا ہے جس کے باعث اوگرا نے حالیہ سمری میں پٹرول کی قیمت میں 53 روپے فی لیٹر اضافے کی تجویز دی تھی لیکن حکومت نے قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا اگرچہ اس کا بوجھ معیشت پر بڑھتا جا رہا ہے اور تیل کی قیمت نہ بڑھانے کا معیشت کو بھاری نقصان ہو رہا ہے۔ ڈالر کی رسد اور طلب میں فرق بڑھ گیا ہے۔ ڈالر ذخائر میں تقریباً تین ارب ڈالرز کی مزید کمی واقع ہو گئی ہے۔ ڈالر 184 روپے کے ساتھ بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ میں نے چھ ماہ قبل اپنے کالمز میںکہا تھا کہ جون 2023ء سے قبل ڈالر 200 روپے تک پہنچ سکتا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے صرف ترقی پذیر ممالک کو متاثر نہیں کیا بلکہ امریکہ بھی اس کی زد میں ہے۔ ایک سال قبل امریکہ میں تیل کی قیمت 64 ڈالر فی بیرل تھی جو اَب 104 ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔ اس مسئلے سے نکلنے کے لیے امریکہ نے سٹرٹیجک ریزروز میں سے 18 کروڑ بیرل تیل نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ پچاس سالہ تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ ماضی میں بھی امریکہ اپنے ذخائر سے کروڑوں بیرل تیل نکالتا رہا ہے لیکن اس سے قیمتوں پر زیادہ فرق نہیں پڑا۔ حالیہ فیصلے کے نتیجے میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں صرف تین فیصد کمی آئی ہے۔ امریکہ کے پاس ٹیکساس اور لوزیانا کے ساحلوں پر تقریبا 60 کروڑ بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں جن کا استعمال ایمرجنسی میں حالات میں کیا جاتا ہے۔ امریکہ کے پاس تیل ذخائر ہونے کے باوجود اس کے لیے مالی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے پاس تیل کے ذخائر بھی نہیں ہیں اور ایمرجنسی کی صورت میں امریکی اثر و رسوخ کے ماتحت اداروں سے قرض لینا پڑے گا تا کہ ملک میں سری لنکا جیسا بحران پیدا نہ ہو۔ اگر ان مشکل حالات میں روس پاکستان کو سستا تیل اور گیس فراہم کرتا ہے تو ہمیں امریکہ کی قیمت پر روس کے ساتھ تعلقات ضرور بہتر رکھنے چاہئیں۔ دوسری صورت میں دور اندیشی والا فیصلہ کیا جانا چاہیے۔
ان حالات میں چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بیان اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اسلام آباد سکیورٹی ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو روس یوکرین تنازع پر تشویش ہے۔ اس جنگ کو ختم ہونا چاہیے اور تنازع کو ہاتھ سے نہیں نکلنا چاہیے۔ہم امریکہ سے بھی بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔آرمی چیف کا یہ بیان پاکستان کی نئی معاشی سمت سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ امید کی جا تی ہے کہ آنے والے دن پاکستانی معیشت کیلئے بہتر ثابت ہو سکیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں