پاکستان میں اس وقت سیاسی درجہ حرارت عروج پر ہے۔ وفاق میں مسئلہ حل ہوا ہے تو پنجاب میں نئی رکاوٹیں پیدا ہو گئی ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے عدالتوں سے رجوع کیا گیا ہے۔ سیاسی گروئوں کے لیے یہ صورتحال تشویش ناک ہے۔ سیاستدانوں کے مسائل جب عدالتیں حل کرنے لگیں تو جمہوری اور سیاسی عمل پر عوام کا اعتماد بحال نہیں رہتا۔ موجودہ صورتحال سیا ستدانوں کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ سیاستدان بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں کو ابھی مزید تربیت کی ضرورت ہے تا کہ وہ اپنی اہمیت اور ذمہ داری کا ادراک کرسکیں۔ سیاست میں اقتدار سے پہلے ملک اہمیت رکھتا ہے۔ سڑکیں بند کرنا اور آئینی بحران پیدا کرنا کسی بھی صورت میں ملک کے لیے سود مند ثابت نہیں ہوتا۔ مشرقی پاکستان کے سانحہ میں جہاں دیگر کئی وجوہات تھیں وہاں آئینی بحران پیدا کرنا بھی ایک نمایاں وجہ تھی۔ اہلِ سیاست کو ماضی سے سیکھنا چاہیے تا کہ ملک کا مستقبل بہتر ہو سکے۔ سیاسی شعور کی حالت یہ ہے کہ سابق وزیراعظم نے توشہ خانہ سے کروڑوں روپے مالیت کی گھڑی، زیورات اور دیگر اشیا پچاس فیصد رقم دے کر خریدیں اور بعدازاں مارکیٹ میں بیچ دیں۔ یہ عمل اگرچہ قانون کے عین مطابق ہے لیکن سیاسی شعور رکھنے والوں کے لیے شاید یہ سیاسی موت کے مترادف ہو۔ سیاسی رہنماؤں کے لیے ان کا امیج ہی سب سے بڑا اثاثہ سمجھا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا احتساب کا بیانیہ لے کر عوام میں بڑے دعوے کرنے والے اور عوام کی امانتوں کی حفاظت کے دعویدار رہنما کو ملکی اثاثوں کو آدھی رقم میں خرید کر ذاتی مفاد کے لیے مارکیٹ میں بیچنا زیب دیتا ہے؟ جہاں یہ عمل سیاسی اعتبار سے نقصان دہ دکھائی دیتا ہے وہاں یہ اخلاقی اعتبار سے بھی نامناسب ہے۔ پریشانی اس وقت زیادہ بڑھی جب وہ اس عمل پر پشیمان ہونے کے بجائے اس کا دفاع کرتے دکھائی دیے۔ ماضی میں سید یوسف رضا گیلانی اور ترکی کے ہار کا معاملہ پیش آ چکا ہے‘ لیکن خان صاحب کو اس پر اعتراض تھا جبکہ آج وہ اس عمل کا دفاع کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہار واپس کرنے کے باوجود بھی‘ آج تک گیلانی صاحب اس داغ کو مٹا نہیں پائے اور خدشہ ہے کہ دیانت داری، امانت داری اور ملک کے لیے بے لوث خدمت کرنے والے لیڈر کے طور پر شہرت رکھنے والے عمران خان بھی شاید ساری زندگی یہ داغ نہ مٹا پائیں۔ اس سے کسی کو فرق پڑے یا نہ پڑے لیکن عمران خان کے نظریاتی فالورز کو دھچکا ضرور لگ سکتا ہے۔
پریشانی کا معاملہ یہ ہے کہ ملک کو سیاسی و اخلاقی مسائل کے ساتھ ساتھ معاشی مسائل کا بھی سامنا ہے جو روز بروز شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ڈالر کی قیمت میں دوبارہ اضافہ ہو رہا ہے جس سے سرمایہ کاروں کے بحال ہوئے اعتماد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس معاملے کو آئی ایم ایف اور پاکستان کے مذاکرات سے جوڑ کر دیکھے جانے کی ضرورت ہے۔ گورنر سٹیٹ بینک آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لیے واشنگٹن روانہ ہو گئے ہیں۔ وفاقی کابینہ نے وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا نام ای سی ایل سے نکال دیا ہے اور ان سطور کی اشاعت تک وہ بھی شاید امریکا پہنچ چکے ہوں۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ آئی ایم ایف نہیں چاہتا کہ کوئی سیاسی شخصیت ان سے براہ راست مذاکرات کرے اور جس طرح ماضی میں وہ اپنی مرضی کے فیصلے منواتے رہے ہیں‘ اس مرتبہ بھی ویسا ہی ہو۔ ذہن نشین رکھیے کہ گورنر سٹیٹ بینک کی مدتِ ملازمت مئی 2022ء میں ختم ہو رہی ہے۔ یہ عمومی طور پر نازک وقت ہوتا ہے جب غیر معروف فیصلوں پر عمل درآمد کرایا جا سکتا ہے۔گورنر صاحب نے اسی مہینے‘ وقت سے پہلے پالیسی ریٹ میں 250 پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے جسے آئی ایم ایف نے سراہا ہے۔ ماضی میں بھی دیکھا گیا ہے کہ جیسے ہی آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے کے لیے کوئی وفد امریکا روانہ ہوتا تھا تو ڈالر کی شرح تبادلہ میں بھی اضافہ کر دیا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات اچھے ماحول میں ہو سکیں۔ اطلاعات ہیں کہ آئی ایم ایف نے دیگر شرائط کے ساتھ روپے کی قدر مزید کم کرنے کے مطالبے کو سرفہرست رکھا ہے۔ ان کے مطابق ڈالر کی قیمت 200 روپے تک لائے جانے کی ضرورت ہے۔ ٹیکس اہداف 6 ٹریلین سے بڑھا کر 7 ٹریلین کیے جا سکتے ہیں۔ پٹرولیم مصنوعات پر دی جانے والی سبسڈی واپس لینے کے لیے دبائو بڑھایا جا رہا ہے جس پر عمل درآمد جلد ہوتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ پاکستان کے پاس آئی ایم ایف کے مطالبات ماننے کے علاوہ شاید دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔
ڈالر ریٹ میں اضافے کی دوسری بڑی وجہ آئل کمپنیوں کی ایل سی کھلنا بھی ہو سکتی ہے۔ تیل کی خریداری کے حوالے سے حکومتی ادراہ پاکستان سٹیٹ آئل شدید مالی مشکلات کا شکار ہے۔ سرکاری ادارے نے دیگر سرکاری اور نجی اداروں سے 520 ارب روپے وصول کرنا ہیںجبکہ 265 ارب روپے مقامی اور انٹرنیشنل اداروں کو واجب الادا ہیں۔ اس کے علاوہ پٹرولیم سبسڈی کی ادائیگیوں کا بوجھ بھی اسی ادارے پر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی ضرورت پوری کرنے کے لیے 100 ارب روپوں کی اشد ضرورت ہے۔ ملک میں صرف چار دن کے تیل کے ذخائر باقی تھے اور فنڈز نہ ہونے کے باعث تیل کی خریداری نہیں ہو پا رہی تھی۔ حکومتی مداخلت سے ایل سی بڑھائی گئی ہیں اور مزید تیل خریدا جا رہا ہے جس کے باعث ڈالر کی ڈیمانڈ اور سپلائی میں فرق بڑھا ہے اور روپے پر دبائو زیادہ ہو گیا ہے‘ نتیجتاً ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ خدشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ڈالر کی قیمت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔ میں یہاں اس بات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں کہ ڈالر کی قیمت غیر ضروری طور پر بڑھانا نقصان دہ ہے لیکن مارکیٹ اصولوں کے مطابق اس میں اضافہ ایکسپورٹس کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ موجودہ مالی سال کے پہلے نو ماہ برآمد کندگان کے لیے اچھے رہے۔ میں ٹیکسٹائل شعبے کی برآمدات کا ذکر کرتا رہتا ہوں لیکن آج دیگر شعبوں کی برآمدات کا ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں۔ پاکستان نان ٹیکسٹائل اشیا کی برآمدات میں موجودہ مالی سال کے پہلے نو ماہ میں‘ پچھلے مالی سال کے پہلے نو ماہ کی نسبت تقریباً 9 بلین ڈالرز اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً 24 فیصد کا یہ اضافہ ڈالر ریٹ میں اضافے کے باعث ممکن ہوا۔ ان صنعتوں میں چمڑے کی پراڈکٹس اور انجینئرنگ کا سامان وغیرہ سرفہرست ہیں۔ لیدر گارمنٹس میں تقریباً 8 فیصد، دستانوں کی برآمدات میں تقریباً 9 فیصد اور چمڑے کے خام مال کی برآمدات میں تقریباً 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ قالین کی برآمدات میں تقریباً سوا بارہ فیصد، کھیلوں کے سامان میں تقریباً 35 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں فٹ بال سرفہرست ہیں، جن کی برآمدات میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ انجینئرنگ مصنوعات کی برآمدات میں تقریباً 3 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح چاولوں کی برآمدات میں تقریباً 1 ارب 80 کروڑ ڈالرز کا اضافہ ہوا جو لگ بھگ15 فیصد بنتا ہے۔ حالات کے پیش نظر یہ کہنا مناسب ہو گا کہ پچھلی حکومت کی اچھی پالیسیوں کو ساتھ لے کر چلا جائے اور جن شعبوں میں بہتری درکار ہے ان کے حوالے سے موثر پالیسیاں بنا کر ان پر عمل درآمد کیا جائے۔ اب بھی پاکستان کے معاشی حالات کو درست سمت میں لایا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے لیے ذاتی مفادات اور انا کے مسائل سے باہر نکل کر سوچنا فائدہ مند ثابت ہو گا۔ اس میں حکومت اور اپوزیشن‘ دونوں کو مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔