معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام کے ساتھ امن و امان کی صورتحال کا تسلی بخش ہونا بھی اہم ضرورت ہے۔ کراچی یونیورسٹی میں چینی شہریوں پر حملے نے کئی سوالات کو جنم دے دیا ہے۔ کراچی پاکستان کا تجارتی مرکز ہے اور چین پاکستان کا بہترین دوست ہے لیکن شاید ریاست ان دونوں کی حفاظت میں ناکام ہو رہی ہے۔ چند ماہ قبل لاہور‘ انارکلی میں ہونے والا بم دھماکا ابھی تک ذہنوں سے محو نہیں ہوا تھا کہ کراچی میں بھی خوف و ہراس پھیلتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس سے قبل چینی انجینئرز کی بس پر ہونے والے حملے پر چینی حکومت نے پاکستانی سرکار کے ساتھ شدید احتجاج کیا تھا اور سی پیک کے منصوبوں پر کام سست روی کا شکار ہو گیا تھا۔ حالیہ حملے میں چینی باشندوں کی ہلاکت کے کیا معاشی اثرات ہوں گے‘ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے لیکن یہاں سوال یہ کہ آخر کار یہ سلسلہ کب رکے گا؟
دو دہائیوں سے جاری اس جنگ میں پاکستان تقریباً 83 ہزار سے زیادہ جانوں کی قربانی دے چکا ہے اور تقریباً 126 ارب ڈالرز کا مالی نقصان اٹھا چکا ہے۔ ابھی مزید کتنا نقصان اٹھانا پڑے گا؟ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کو افغانستان اور ایران بارڈر سے جوڑا جاتا رہا ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق پاک افغان 26 سو کلومیٹر طویل بارڈر پر باڑ کا کام تقریباً 95 فیصد مکمل ہو چکا ہے اور ایران بارڈر پر جنگلا لگانے کاکام تقریباً 40 فیصد تک ہو چکا ہے۔ شاید ایران بارڈر پر زیادہ توجہ دیے جانے کی ضرورت ہے۔ یاد رہے کہ کلبھوشن یادیو بھی پاکستان میں بدامنی پھیلانے کیلئے پاک ایران بارڈر کا استعمال کرتا رہا۔ گو کہ حالیہ دہشت گردی کے تانے بانے بلوچستان کی بدامنی سے جڑتے دکھائی دیتے ہیں لیکن اس بات کا تعین کرنا بھی ضروری ہو گیا ہے کہ دہشت گردی کی ذمہ داری قبول کرنے والی جماعتوں کے تانے بانے کہاں جا کر ملتے ہیں۔ موجودہ صورتحال سرمایہ کاری کے لیے موزوں دکھائی نہیں دیتی۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں اور سکیورٹی اداروں کو سر جوڑ کر بیٹھنے کی ضرورت ہے اور اس موقع کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔
اس وقت ایک طرف ملک میں دہشت گردی کے واقعات کا تسلسل دیکھنے میں آ رہا ہے تو دوسری طرف عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دینے کی منصوبہ بندی کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اپنی حالیہ تقریر میں انہوں نے عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ چند ہفتوں میں اسلام آباد جلسے کی کال دیں گے‘ اور الیکشنز کا اعلان نہ ہونے تک اسلام آباد میں ہی رہیں گے۔ یہ صورتحال تشویش ناک دکھائی دیتی ہے۔ تحریک انصاف کے 2014ء کے دھرنے کے نتائج عوام کے سامنے ہیں۔ 126 دنوں کے دھرنے کے دوران چینی صدر کو اپنا اہم دورۂ پاکستان مؤخر کرنا پڑا تھا اور وہ دھرنا آرمی پبلک سکول میں معصوم بچوں پر ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد ختم کیا گیا تھا۔ اگر اسلام آباد میں دوبارہ دھرنا دیا جاتا ہے تو یہ صورتحال دہشت گردوں کے لیے مددگار ثابت ہو گی اور اگر خدانخواستہ اس صورتحال سے فائدہ اٹھا کر دہشت گرد ملک کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہو گا؟ عوامی حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے کہ اگر ملک اسی طرح ایڈونچرز کی نذر ہوتا رہا تو شاید سیاسی اور معاشی استحکام کا حصول ایک خواب ہی رہ جائے۔ اس کے علاوہ علمی، ادبی اور سنجیدہ حلقوں میں اس حوالے سے بھی تشویش بڑھتی دکھائی دیتی ہے کہ جس طرح تحریک انصاف امریکا مخالف نظریے کو تقویت دے رہی ہے‘ یہ ملک کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ کمزور معیشتوں کو اس طرح کے ایڈونچرز کی بھاری قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ اس نظریے کے ساتھ عوام میں تو پذیرائی حاصل کی جا سکتی ہے لیکن ایسی پذیرائی اقتدار کے حصول کی راہیں مسدود کر دیتی ہے۔ اگر اقتدار مل جائے تو بھی مستقل مزاجی پیدا ہونا مشکل ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اقتدار کی سیاست نمبرز گیم کی مرہونِ منت ہوتی ہے جس میں اسمبلی کے اندر 172 ارکان شاید 22 کروڑ عوام سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ جوڑ توڑ کرکے اکثریتی جماعت کے بجائے کم ووٹوں والی جماعت کا حکومت بنانا پارلیمانی سیاست میں معمول کی بات دکھائی دیتی ہے۔ ممکنہ طور پر خان صاحب کو اقتدار میں واپس آنے کیلئے امریکا مخالف بیانات پر یوٹرن لینا پڑ سکتا ہے۔
پاکستان اگر امریکا مخالف بیانیے کے ساتھ چلنا چاہتا ہے تو اس کے لیے معاشی استحکام لانا ضروری ہے۔ جب دنیا کی بڑی معاشی طاقتوں پر امریکا کی مخالفت کے منفی اثرات دکھائی دے رہے ہیں تو پاکستان جیسی کمزور معیشت میں امریکا سے آزادی کا بیانیہ عوام کے جذبات کو غلط سمت دکھانے کے مترادف ہو سکتا ہے۔ یہ وقت عوام کے سامنے حقائق رکھنے کا ہے نہ کہ آزادی اور غلامی کے نظریے کو فروغ دینے کا۔ پاکستان میں نئی حکومت کے قیام کے ساتھ معاشی استحکام بھی آتا دکھائی دے رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالر کے قرض کو آٹھ ارب ڈالرز تک بڑھانے پر اتفاق کیا ہے اور قرض کی مدت میں مزید ایک سال کا اضافہ بھی کر دیا ہے۔ کم آمدن والے شہریوں کو پٹرول پر سبسڈی دینے کے اعلانات بھی سامنے آئے ہیں۔ ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک بھی معیشت کو ڈیفالٹ ہوتا نہیں دیکھ رہے۔ ورلڈ بینک کی جانب سے روکے گئے تقریباً دو ارب ڈالرز کے فنڈز بھی جلد ملنے کی امید ہے۔ مفتاح اسماعیل کے حالیہ دورۂ واشنگٹن کے بعد پاکستان میں سری لنکا جیسی صورتحال پیدا ہونے کے امکانات کم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
بظاہر وزیر خزانہ کے امریکی دورے کے بہتر نتائج دکھائی دیے لیکن ویب تھری کے بارے میں مفتاح اسماعیل کی لاعلمی ڈیجیٹل دنیا میں معرکے سر کرنے والے پاکستانیوں کے لیے زیادہ اچھی خبر نہیں۔ واشنگٹن ڈی سی میں وزیر خزانہ کی امریکی تھنک ٹینک اٹلانٹک کونسل کی ایک گفتگو میں ماہر معیشت عزیر یونس نے جب ان سے سوال کیا کہ وہ دنیا میں ترقی کرتی ویب تھری معیشت کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ اس بارے میں نہیں جانتے۔ شاید قارئین میں سے بھی بہت سے لوگ اس بارے میں نہیں جانتے ہوں گے‘ آسانی سے سمجھنے کے لیے صرف یہ ذہن نشین رکھیے کہ جب انٹرنیٹ کو صرف یکطرفہ معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا تو اسے ویب ون کہا جاتا تھا۔ جب انٹرنیٹ میں دو طرفہ معلومات کا تبادلہ شروع ہوا اور اس کی معاشی حیثیت بھی دو طرفہ معلومات کی بنیاد پر طے کی جانے لگی تو اسے معیشت ٹو پوائنٹ زیرو کا نام دیا گیا جیسا کہ ایمازون‘ فیس بک وغیرہ۔ ویب تھری جدید معیشت کا نام ہے جس میں پاکستان میں بیٹھا ایک شخص امریکا کی ایک دکان سے پیزا خرید کر بغیر کسی بینکنگ چینل کے ایک آزادانہ نظام کے تحت ادائیگی اور وصولی کر سکے گا۔ اسے ممکنہ طور پر کرپٹو کرنسی کی جدید شکل کہا جا سکتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اگلے بیس سالوں میں ویب تھری معیشت کا حجم پاکستان میں صرف ٹیلنٹ ایکسپورٹ کی مد میں ہی 100 ارب ڈالرز تک پہنچ سکتا ہے۔ شاید عام لوگ اسے ابھی مکمل طور پر نہ سمجھ سکیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے 1980ء میں اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا کہ آنے والے چند سالوں میں دنیا میں اربوں ڈالرز کی خریدوفروخت انٹرنیٹ کے ذریعے ہو گی تو شاید کوئی بھی اس کی بات پر یقین نہ کرتا۔ ویب تھری دنیاکا مستقبل دکھائی دیتا ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ پاکستانیوں کی بڑی تعداد اس نظام کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔