سیاسی جلسوں کے ملکی معیشت پر اثرات

پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں نے جلسوں کا آغاز کر دیا ہے۔(ن) لیگ کے جلسوں کی قیادت مریم نواز کر رہی ہیں اور تحریک انصاف کی جلسوں کی قیادت عمران خان صاحب کر رہے ہیں۔ ان جلسوں کے مقاصد کیا ہیں اور ان کے نتائج کیا ہوں گے عوام کی اکثریت یہ جاننے سے قاصر دکھائی دیتی ہے۔ اگر تحریک انصاف کا مقصد تین ماہ میں الیکشنز کروانا ہے تو الیکشن کمشنر کے بیان کی روشنی میں یہ دکھائی دیتا ہے کہ فی الحال ایسا ممکن نہیں ہے۔ دوسری طرف خان صاحب اداروں سے متعلق جس طرح گفتگو کر رہے ہیں اس میں اختلاف رائے کا تاثر ابھی تک موجود ہے‘ جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خان صاحب کے مطالبات مانے جانے کے امکانات کم ہو سکتے ہیں۔ تیسرا پہلو یہ ہے کہ اگر فوری الیکشن ہی کروانے تھے تو سابقہ اپوزیشن عمران خان کا یہ مطالبہ پہلے ہی مان کر عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لیتی‘ خان صاحب اسمبلیاں تحلیل کر دیتے اور الیکشنز کا اعلان کر دیتے۔ اگر پہلے یہ مطالبہ نہیں مانا گیا تو آنے والے دنوں میں بھی ایسے مطالبات کو تسلیم کرنا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اگر مسلم لیگ (ن) کے جلسوں پر نظر دوڑائی جائے تو وہ بے سود اور بے مقصد دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ان کا مقصد عمران خان کے جلسوں کا جواب دینا ہے تو وہ کام پریس کانفرنس کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے۔ حکمران جماعت کی جانب سے پاور شو اگر مطلوبہ طاقت نہ دکھا سکے تو منفی امیج پیدا ہوتا ہے جو کہ سرمایہ کاروں کے فیصلے بدلنے میں اہم کردارادا کر سکتا ہے۔ جس ملک میں ہر وقت سیاسی محاذ گرم ہو وہاں سرمایہ کاروں کی آمدورفت کم ہو جاتی ہے۔ شاید حکومت کو اس حقیقت کا ادراک ہونا زیادہ ضروری ہے۔ پہلے ہی مارچ اور اپریل میں بیرونی سرمایہ کاروں کی جانب سے ٹی بلز میں سرمایہ کاری صفر رہی ہے جبکہ حکومت نے ٹی بلز کے ریٹ بھی بڑھا دیے ہیں لیکن یہ ریٹس بھی بیرونی سرمایہ کاروں کو مقامی بانڈز میں سرمایہ کاری کرنے پر آمادہ نہیں کر پا رہے جس کے باعث مزید قرض لینے پڑ سکتے ہیں۔ خدشہ ہے کہ موجودہ مالی سال کے اگلے دو ماہ بھی مقامی بانڈز میں سرمایہ کاری نہیں ہو گی جو ملکی معیشت پر عدم اعتماد کے مترادف ہے۔عوامی سطح پر عمومی رائے یہ پائی جاتی ہے کہ اگر پچھلی حکومت چند دونوں میں گرائی جا سکتی ہے تو نئی حکومت بھی کسی وقت تبدیل کی جا سکتی ہے۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ نئی حکومت کا عدم اعتماد کا ایڈونچر مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی کی اپروچ مثبت دکھائی دیتی ہے۔ شاید وہ معاشی معاملات کی حساسیت سے واقف ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری خاموش ہیں اور ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ان کی توجہ وزرات خارجہ کے امور کو سمجھنے اور انہیں بہتر انداز میں چلانے کی طرف ہے۔ شاید یہ وقت بھی دوست ممالک کے ساتھ تعلقات بحال رکھنے کا ہے۔ پاکستان کو اس مشکل وقت میں دوست ممالک کے سہارے کی ضرورت ہے۔ اگر سعودی عرب‘ متحدہ عرب امارات اور چین پاکستان کی مالی مدد کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں تو اگلے ایک سال تک ملکی معیشت میں استحکام کی امید کی جا سکتی ہے۔ فی الحال صورتحال یہ ہے کہ حکومت پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کا دورہ کیا گیا۔ اس دورے کا مقصد مالی امداد کا حصول تھا۔ بظاہر اسے کامیاب دورہ قرار دیا گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے بیرون ملک دوروں کی کامیابی کا انحصار مالی امداد پر منحصر ہوتا ہے۔ آٹھ ارب ڈالرز کے پیکیج کی بات کی جا رہی ہے لیکن عملی میدان میں صورتحال ابھی تک واضح نہیں ہے۔ سعودی عرب اور حکومت پاکستان نے سرکاری سطح پر کسی ڈیل کا ذکر نہیں کیا ہے حالانکہ اس طرح کے اعلانات تو دورہ ختم ہونے سے پہلے ہی کر دیے جاتے ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر سرد رویے کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے استفسار کیا گیاہے کہ کن معاشی بنیادوں پر قرض دیا جائے؟ جبکہ پچھلے قرض ابھی تک واجب الادا ہیں۔ یاد رہے کہ سعودی حکومت نے ماضی میں تقریبا ًسواچار ارب ڈالرز کے قرض انتہائی سخت شرائط پر دیے تھے۔اس کے علاوہ چین کے دورے سے بھی مثبت پیغامات ملنے کی امید کم دکھائی دیتی ہے اور اطلاعات ہیں کہ چینی حکومت کی جانب سے گرین سگنل نہ ملنے کی وجہ سے چین کا دورہ ملتوی ہو سکتا ہے۔
میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ دوست ممالک پاکستان کو جو قرض دیتے ہیں اس پر سود وصول کرتے ہیں۔ قرض دوستی کے نام پر مفت نہیں دیے جاتے۔ یہ مارکیٹ کے اصولوں کے عین مطابق ہوتے ہیں۔ بلکہ اب سعودی عرب اور چین پاکستان سے مارکیٹ کی نسبت زیادہ سود وصول کر رہے ہیں۔ تشویش اس بات پر ہے کہ ان سخت شرائط پر بھی قرض ملنے میں رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے دس ماہ میں پاکستان کا تجارتی خسارہ تقریباً 39 ارب 30 کروڑ ڈالر ہو چکا ہے جو کہ پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ مالی سال 2018 ء میں (ن) لیگ کی حکومت کے دوران تجارتی خسارہ 37 ارب 70 کروڑ ڈالر تھا۔ جو مالی سال 2019 میں کم ہو کر تقریباً 32 ارب ڈالر ہوا‘ 2020 ء میں مزید کم ہو کر 23 ارب 20 کروڑ ڈالرز رہا اور مالی سال 2021ء میں بڑھ کر 31 ارب ڈالرز تک پہنچ گیااور اب بڑھنے کا ٹرینڈ جاری ہے اور پچھلے تمام ریکارڈ توڑ چکا ہے۔ اس صورتحال میں پاکستان کو ڈالرز کی ضرورت ہے جو کہ برآمدات سے حاصل کئے جانے تھے لیکن مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کئے جا سکے۔ پچھلے دس ماہ میں برآمدات تقریباً 26 ارب ڈالر رہیں جبکہ درآمدات تقریباً 65 ارب ڈالر ریکارڈ کی گئیں۔اگر ماہ اپریل کے اعدادوشمار پر نظر دوڑائیں تو صورتحال مزید واضح ہو سکتی ہے۔ اپریل 2022ء میں برآمدات 91 ملین ڈالرز رہیں اور درآمدات 190 ملین ڈالرز ریکارڈ کی گئیں۔ درآمدات کا حجم برآمدات کی نسبت دو گنا سے بھی زیادہ ہے۔ ایسی صورتحال میں قرض کے حصول میں مشکلات آتی ہیں۔ پاکستان کے لیے یہ صورتحال ایک چیلنج ہے جس میں سے نکلنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اس کے علاوہ مفتاح اسماعیل صاحب کی حالیہ پریس کانفرنس نے بہت سے سوالات پیدا کر دیے ہیں۔ ان کے بیانات یہ پیغام دیتے دکھائی دے رہے ہیں کہ آنے والے دنوں میں بے یقینی کی کیفیت بڑھ سکتی ہے اور سخت فیصلے لینے پڑ سکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے سے پہلے یہ سوال کیا جا رہا تھا کہ نئی حکومت بنانے والوں کے پاس کون سی پالیسی ہے جس سے معاشی مسائل حل ہو جائیں گے۔ آمدن میں اضافہ کیسے ہو گا‘ برآمدات کیسے بڑھیں گی‘ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کیسے کنٹرول کریں گے‘ مہنگائی کیسے کم ہو گی اور شرح سود کو کیسے قابو میں رکھا جائے گا۔ اس وقت بھی ان کے پاس جواب نہیں تھا اور آج بھی ان کے پاس کوئی متاثر کن پالیسی دکھائی نہیں دے رہی۔ان حالات میں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسڑی نے ڈالرز ایمنسٹی سکیم متعارف کروانے کی تجویز دی ہے۔ جس کے مطابق لاکرز اور گھروں سے ڈالرز نکال کر بینکوں میں جمع کروانے والوں سے ذرائع آمدن کے بارے میں نہیں پوچھا جائے گا۔ اس کے علاوہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے کے لیے کرپٹو کرنسی رکھنے والوں سے تقریباً دس فیصد جرمانہ وصول کر کے جائز قرار دیے جانے کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔ ان کے مطابق کرپٹو کرنسی کو ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ یہ تجاویز مناسب دکھائی دیتی ہیں لیکن ان پر عمل درآمد میں کافی مشکلات آ سکتی ہیں۔ آئی ایم ایف ایمنسٹی سکیم کے حق میں نہیں ہے بلکہ اطلاعات کے مطابق وہ انڈسٹری ایمنسٹی سکیم کو بھی ختم کرنے کا مطالبہ کر رہ رہی ہے۔آنے والے دنوں میں پاکستان کی معیشت کیا رخ اختیار کرتی ہے اس کا فیصلہ بجٹ سے پہلے ہو تا دکھائی دیتا ہے‘ لیکن مارکیٹ کی صورتحا ل کے پیش نظر اچھی خبریں آنے کی امید کم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں