لانگ مارچ، ڈالر کا ریٹ اور معاشی بحران

پاکستان ایک مرتبہ پھر احتجاجی سیاست کے نرغے میں ہے۔ اتحادی حکومت نے تحریک انصاف کو لانگ مارچ اور اسلام آباد د دھرنا دینے سے روکنے کا فیصلہ کر رکھا ہے جبکہ تحریک انصاف اپنے احتجاج کو ہر صورت کامیاب بنانے کے لیے کوشاں ہے۔ شاید ہماری قسمت میں ہی یہ لکھ دیا گیا ہے کہ ہر نئی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کیا جائے۔ ملکی مفاد کے لیے اکٹھے ہو کر فیصلہ کرنے کا وقت نجانے کب آئے گا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ سیاستدان ایک مرتبہ پھر کسی سانحے کے منتظر ہیں؟ ماضی قریب میں سانحہ اے پی ایس غالباً واحد موقع تھا کہ جب عمران خان سمیت تمام سیاستدان ایک پیج پر تھے اور سب نے اپنی اَنا کو ایک طرف رکھ کر ملک کے بہترین مفاد میں مشترکہ مشاورت سے فیصلے کیے تھے۔ ایسے فیصلوں کے نتائج بھی بہترین ہوتے ہیں۔ ملک میں آج دہشت گردی میں کمی مشترکہ فیصلوں ہی کی بدولت ممکن ہوئی ہے۔ اگر آج کے حالات پر نظر ڈالی جائے تو عمران خان اور مسلم لیگ کا ایک دھڑا فوری انتخابات کروانے کے حوالے سے ایک ہی پیج پر دکھائی دیتا ہے۔ گو کہ لندن مقیم نواز شریف نے حالیہ بیان میں کہا ہے کہ نئی حکومت اپنا وقت پورا کرے گی لیکن باوثوق ذرائع کے مطابق مریم نواز سمیت کئی لیگی لیڈران آج بھی اس مؤقف پر قائم ہیں کہ جتنی جلدی ہو سکے الیکشن کرا دیے جائیں۔ بظاہر اس فیصلے میں ملک کا مفاد بھی دکھائی دیتا ہے لیکن آنے والے دن کیا رخ اختیار کرتے ہیں‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ فی الحال تو دعا ہی کی جا سکتی ہے کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آئے۔ ابھی تک ماڈل ٹاؤن لاہور میں ایک پولیس اہلکار کی شہادت اور اٹک پل پر ایک کارکن کی ہلاکت کی خبر آ چکی ہے۔ 2014ء میں تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے لانگ مارچ سے قبل رونما ہوا سانحہ ماڈل ٹاؤن ابھی تک بھلایا نہیں جا سکا‘ جہاں حاملہ خواتین کو بھی گولیوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ رانا ثناء اللہ صاحب اس وقت بھی صوبائی وزیر داخلہ تھے۔ حالیہ لانگ مارچ تحریک انصاف کے لیے کسی چیلنج سے کم نہیں اور اس کا پُرامن رہنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے قریبی ذرائع سے ایسی اطلاعات بھی مل رہی ہیں کہ عمران خان کو گرفتار کرنے کا منصوبہ بھی بنایا جا چکا ہے۔ عمران خان کو جیل میں دیکھنا شاید بہت سے افراد کی دیرینہ خواہشات میں سے ایک ہے۔ جس طرح میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کو جیل میں قید کیا گیا‘ اس کا بدلہ لینے کے لیے تمام ممکنہ وسائل استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ماضی میں پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی کرنا اور انہیں ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں رسوا ہوتے دیکھنا پھر کسی کے بدلے ہی کی کارروائی بتائی جاتی ہے۔ ان دعووں میں کتنی سچائی ہے اس کا فیصلہ وقت آنے پر ہی ہو سکے گا لیکن حالات کے پیش نظر ان دعووں کو مکمل طور پر جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ بدلے اور احتجاج کی سیاست میں اَنا کی تسکین ممکن ہے لیکن اس کے معیشت پر جو منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں‘ ان کے بارے میں سیاستدان شاید زیادہ فکرمند نہیں ہیں۔ ڈالر بے قابو ہوتا دکھائی دے رہا ہے جس سے ملکی قرضوں میں ہزاروں ارب روپے کا اضافہ ہو چکا ہے۔ سیاسی عدم استحکام ڈالر کے بڑھنے کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
اگر ماضی پر نظر دوڑائیں توڈالر کی اڑان سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں ڈالر کی قیمت اور معیشت و اقتصادیات کا تاریخی جا ئز ہ کچھ یوں ہے۔ 1948ء سے 1954ء تک‘ ا مریکی ڈالر کی قیمت تقریباً تین روپے31 پیسے تھی۔یوں آزادی کے بعد پاکستان میں ڈالر کی قیمت لگاتار سات سال تک مستحکم رہی۔1955ء میں سیاسی بحران زیادہ بڑھنے لگا تو ڈالر کی قیمت میں قدرے اضافہ ہوا اور یہ بڑھ کر تین روپے 92 پیسے ہو گئی۔اگر چہ 1956 ء میں ملک میں پہلا پارلیمانی آئین نافذالعمل ہوا مگر ڈالر کی قیمت میں اضافے کا رجحان جاری رہا اور یہ بڑھ کر چار روپے 77 پیسے ہو گئی۔ ڈالر کی یہ قیمت بھی طویل عرصے تک مستحکم رہی اور 1970-71ء تک پاکستان میں ڈالر کی قیمت پانچ روپے سے معمولی زیادہ رہی۔ 16 دسمبر1971ء کو مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد 20 دسمبر1971ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا۔ 1972 ء میں ڈالر کی قیمت میںتقریباً 74 فیصد اضافہ ہوا اور ایک ڈالر 8 روپے 68 پیسے کا ہو گیا۔ 1973 ء میں ڈالر کی قیمت تقریباً دس روپے ہوگئی اور اس کے بعد یہ قیمت تقریباً نو سال یعنی1981 ء تک مستحکم رہی۔1988ء میں جنرل ضیاء الحق کی وفات کے بعد ایک امریکی ڈالر 18 روپے کا ہو چکا تھا۔ اس کے بعد جو جمہوری حکومتیں آئیں ان میں روپے کی بے قدری میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ 1988 ء سے 1999 ء تک کے عشرے میں بینظیر بھٹو اور میاں محمد نواز شریف کی دو دو مرتبہ حکومتیں آئیں اور اس دوران سالانہ بنیادوں پر ڈالر میں اضافے کا رجحان دیکھا گیا۔ 1988ء سے 1999 ء تک بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے محض گیارہ سالہ دورِ حکومت میں ڈالر 18 روپے سے بڑھ کر 51.4 روپے کا ہو گیا۔یہ اضافہ 185 فیصد تھا۔ اس کے بعد مشرف دور کے اختتام پر ڈالر 60 روپے 43 پیسے کا تھا جو 2013 ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت کے اختتام تک تقریباً 79 فیصد اضافے کے ساتھ 108 روپے کا ہو چکا تھا۔ 2018ء میں مسلم لیگ (ن)کے دورِ حکومت کے اختتام تک ڈالر تقریباً 116 روپے تک پہنچا۔ یہ اضافہ اگرچہ دیگر ادوار کے مقابلے میں کم تھا مگر یہ کم اضافہ اس لیے ہوا کہ تقریباً 35 ارب ڈالر قرض لے کر مارکیٹ میں جھونک دیا گیا تاکہ ڈالر کی قیمت نیچے رہ سکے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے تقریباً چالیس مہینوں میں ڈالر 189 روپے تک پہنچا۔ یہ اضافہ لگ بھگ 63 فیصد بنتا ہے۔‘جو ماضی کے کئی ادوار کی نسبت کم ہے۔ موجودہ حکومت کے ڈیڑھ ماہ کے دوران ہی ڈالر تقریباً 201 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ مستقبل میں یہ کہا ںتک بڑھتا ہے‘ اس بارے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اگر ان تمام ادوار کا موازنہ کریں تو نوے کی دہائی میں بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کی حکومتوں میں ڈالر کی قدر میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔ محض دس برسوں میں ڈالر کی قیمت تین گنا تک بڑھ گئی۔ یہ دور معاشی اعتبار سے بدترین دور تصور کیا جاتا ہے۔ اُس وقت بھی یہ حالات شاید اس لیے پیدا ہوئے کہ سیاستدانوں نے ذاتی انا اور مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دی۔ بدلے کی سیاست عروج پر تھی۔ حکومتیں گرانا ملک چلانے سے زیادہ ضروری سمجھا گیا۔ یہ ماضی سے سیکھنے کا وقت ہے۔ اگر سیاستدانوں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو روپے کی قدر میں مزید گرواٹ ہو سکتی ہے۔ معاشی عدم استحکام اور مہنگائی اگلے کئی سالوں تک پاکستانی عوام کا مقدر بن سکتے ہیں۔
فی الحال صورتحال اس قدر پریشان کن ہو چکی ہے کہ سٹیٹ بینک نے شرحِ سود میں 150 پوائنٹس کا مزید اضافہ کر دیا ہے جو مہنگائی کی شرح مزید بڑھنے کی طرف اشارہ ہے۔ کاروباری حضرات سوچنے لگے ہیں کہ بزنس بند کر کے رقم بینکوں ہی میں رکھ دی جائے۔ اس سے بے روزگاری بڑھنے کے خدشات ہیں۔حکومت نے برآمد کندگان کو سبسڈی پر ملنے والے قرض میں بھی دو فیصد اضافہ کر دیا ہے جو اس سے پہلے تقریباً 5 فیصد تھا۔ اس کا بھی براہِ راست اثر برآمدات پر پڑ سکتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت زرمبادلہ کے ذخائر کی اشد ضرورت ہے لیکن موجودہ پالیسی مثبت نتائج دیتی دکھائی نہیں دے رہی۔ گو کہ سعودی عرب نے تین بلین ڈالر قرض کی ادائیگی کی مدت میں توسیع کرنے کا اعلان کیا ہے مگر اس سے وقتی ریلیف مل سکتا ہے۔ ڈالر کے ذخائر بڑھانے یا برقرار رکھنے کا یہ طریقہ مصنوعی ہے جس پر زیادہ انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ سیاستدانوں کے علاوہ ملک کے ذمہ داران حلقوں کو بھی معاملے کی نزاکت سمجھنے کی ضرورت ہے۔ گزارش ہے کہ ملکی معیشت میں ٹھہرائو لانے اور اسے درست سمت کی جانب گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں