سپر ٹیکس اور قرضوں کے معاشی اثرات

حکومتِ پاکستان ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے کوشاں دکھائی دیتی ہے۔ سخت فیصلے لیے جا رہے ہیں۔ جن سے حکومتی اتحاد کی عوامی مقبولیت میں کمی آتی دکھائی دے رہی ہے۔ ملک کو مبینہ طور پر ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے وقتی طور پر عوامی تنقید کا سامنا کر لینا شاید مہنگا سودا نہیں ہے۔ امید کی جا رہی ہے کہ اگر چند ماہ بعد معاشی حالات درست ہو جاتے ہیں تو ممکنہ طور پر عوام بھی اس برے وقت کو بھول سکیں گے۔ لیکن یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ بجٹ کے حوالے سے سرکار کے تمام فیصلوں سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ ٹیکس اہداف حاصل کرنے اور پرائمری خسارے کو پرائمری سرپلس میں تبدیل کرنے کے لیے لارج سکیل انڈسٹریز پر 10فیصد تک سپر ٹیکس لاگو کیا گیا ہے۔ جس کے بعد سٹاک ایکسچینج کریش کر گئی اور کاروباری طبقوں میں تشویش بڑھ گئی ہے کہ اگر اسی طرح کے فیصلے لیے جاتے رہے تو آنے والے دنوں میں پاکستان میں کاروبار کرنا مزید مشکل ہو سکتا ہے۔ حکومتی موقف ہے کہ ''سپر ٹیکس امیر کمپنیوں پر لگایا گیا ہے۔ جس کا اثر غریب اور متوسط طبقے پر نہیں پڑے گا۔ ان میں سیمنٹ‘ سٹیل‘ چینی‘ آئل اینڈ گیس‘ فرٹیلائیزر‘ ایل این جی ٹرمینل‘ ٹیکسٹائل‘ بینکنگ‘ آٹو موبیل‘ سگریٹس‘ مشروبات‘ کیمیکلز اور ائیر لائنز شامل ہیں۔ یہ ٹیکس خالص منافع پر لگایا گیا ہے۔ جو عام عوام کو منتقل نہیں کیا جا سکے گا‘‘۔ یہ موقف سرکاری فیصلوں کے دفاع کے لیے تو شاید درست ہوگا لیکن زمینی حقائق مختلف دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان میں یہ روایت رہی ہے کہ لارج سکیل انڈسٹریز ہوں یا سمال اینڈ میڈیم سائز صنعتیں‘ وہ منافع پر ٹیکس اپنی جیب سے ادا نہیں کرتیں۔ اس لیے زیادہ امکانات یہ ہیں کہ وہ اپنی پراڈکٹس کی قیمتیں بڑھا کر سپر ٹیکس کے پیسے بھی عوام سے وصول کر سکتی ہیں۔ پاکستان میں اشیا کی قیمتیں کس فارمولے کے حساب سے بڑھائی جاتی ہیں‘ اس پر سرکار کا کنٹرول دکھائی نہیں دیتا۔ Competition Commission of Pakistan بھی غیر فعال دکھائی دیتی ہے۔ ایسی صورتحال میں عوام پر ایک مرتبہ پھر سرمایہ کاروں کے واجب الادا ٹیکسز کا بوجھ پڑ سکتا ہے۔ جو کہ قابل تشویش ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پہلے ہی ضروریاتِ زندگی کی تقریباً ہر چیز کی قیمت بڑھ چکی ہے۔ اس کے بعد اضافی ٹیکس لاگو ہونے سے مہنگائی کا سونامی آنے کا خدشہ ہے۔ وزیر خزانہ صاحب پہلے ہی فرما چکے ہیں کہ جولائی کے مہینے سے بجلی کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ ہوگا۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپر ٹیکس لگانے کے علاوہ کیا حکومت کے پاس کوئی اور راستہ ہے‘ کیا ٹیکس اہداف کسی دوسرے ذریعے سے حاصل نہیں کیے جا سکتے تھے؟ اگر حالات کا بغور جائزہ لیں تو شاید اس نتیجے پر پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی کہ بہتر منصوبہ بندی کے ذریعے سپر ٹیکس کا بوجھ پہلے ہی سے اربوں روپے کا ٹیکس ادا کرنے والی کمپنیوں پر لگانے کی بجائے ٹیکس ادا نہ کرنے والے ایسے سیکٹرز پر لگایا جا سکتا تھا جو اربوں روپوں کا کاروبار کرتے ہیں اور مبینہ طور پر مذکورہ بالا سیکٹرز سے زیادہ پیسہ کماتے ہیں۔ ان میں زراعت اور سونے کا کاروبار کرنے والے افراد سر فہرست ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق زراعت کے شعبے کا ٹیکس آمدن میں شیئر صرف ایک فیصد ہے۔ اسی طرح صرف دو فیصد جیولرزسیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان کے علاوہ اربوں روپوں کی فروخت کرنے والے دکانداروں کا حساب سرکار کے پاس نہیں ہے۔ خرید و فروخت پر ایک لاکھ روپے کی ٹرانزیکشن پر شناختی کارڈ کی شرط بھی سرکار لاگو نہیں کروا سکی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان تین سیکٹرز کو ڈاکومینٹڈ کرنے سے تقریباً ایک ہزار ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن حکومت اس پر کام کرنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتی۔ زراعت کے حوالے سے وزیر خزانہ ماضی کی حکومتوں کے موقف کو دہرا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ 73ء کے آئین کے مطابق زراعت پر ٹیکس صوبے لگا سکتے ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے آئین کو نظریۂ ضرورت کے تحت تبدیل کیے جانا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ آئین میں تبدیلی کر کے زراعت پر ٹیکس لگانا اور اکٹھا کرنا وفاق کے سپرد کیا جا سکتا ہے۔ یہ فیصلہ شاید اتنا مشکل نہیں ہے جتنا سیاستدانوں نے بنا رکھا ہے۔ یاد رہے کہ پاکستان کے ایوانوں میں موجود افرادکی اکثریت کا کاروبار زراعت سے جڑا ہے۔ سیاستدان عوام کو ٹیکس دینے کی تلقین کرتے ہیں لیکن خود اس کے دائرے میں آنے کے لیے تیار دکھائی نہیں دیتے۔ ٹیکس کے قوانین بنانے والے مبینہ طور پر سب سے کم ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح سونے کے کاروبار کا حساب کتاب سرکار کے پاس نہیں ہے۔ ملک میں کتنا سونا درآمد ہوتا ہے اور کتنا سمگل کیا جاتا ہے اس بارے میں بھی واضع اعدادوشمار موجود نہیں ہیں۔ ماضی میں سابق وزیر خزانہ شبر زیدی نے سناروں کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کے لیے مثبت اقدامات کیے تھے۔ مفتاح اسماعیل بھی سناروں پر ٹیکس لگانے کے لیے حق میں ہیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید ان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح دکانداروں کی سیل پر شناختی کارڈ کی شرط کا لاگو نہ ہونا بھی سیاسی فیصلہ ہو سکتا ہے۔ کیونکہ یہ دکاندار مبینہ طور پر ایک سیاسی جماعت کا ووٹ بینک ہیں۔ جنہیں اس جماعت کی قیادت ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ موجودہ حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یہ وقت قومی ذمہ داری نبھانے کا ہے۔ ہر شخص کو اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ طاقتو ر طبقے کا بوجھ کمزور لوگوں پر ڈالنے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے بلکہ حالات مزید سنگین ہونے کا خدشہ ہے۔ آنے والے دن پاکستانی معیشت کے لیے کیسے ہوں گے اس بارے میں کوئی دعویٰ کرنا قبل از وقت ہے۔ لیکن ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ جب تک عوامی نمائندے پورا ٹیکس ادا نہیں کریں گے ملک میں ٹیکس کا کلچر فروغ نہیں پا سکتا اور ترقی کے مطلوبہ اہداف حاصل کرنا مشکل ہے۔
ایک طرف سپر ٹیکس نے ملکی معیشت میں بھونچال پربا کر رکھا ہے لیکن دوسری طرف چین سے 2ارب 30کروڑ ڈالرز سٹیٹ بینک آف پاکستان میں جمع کروا دیے جانے کی خبریں ہیں۔ جس سے زرمبادلہ کے ذخائر تقریباً گیارہ بلین ڈالرز کے قریب پہنچ گئے ہیں۔ اس کے علاوہ چین نے اگلے دو ماہ میں دو بلین ڈالرز کے قرضوں کی مدت میں بھی توسیع کرنے کی حامی بھر لی ہے۔ جو کہ خوش آئند ہے۔ اس سے بے یقینی کی کیفیت کو کسی حد تک کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ آنے والے دنوں میں مزید قرض ملنے کی امید ہے۔ جن میں ورلڈ بینک کی جانب سے تقریباً نو بلین ڈالرز‘ ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے جانب سے آٹھ بلین ڈالرز سر فہرست ہیں۔ لیکن اس سے پہلے آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد ضروری ہے۔ پاکستان کو اگلے مالی سال کے لیے تقریباً 41 ارب ڈالرز کے قرض درکار ہیں۔ جن میں سے تقریباً 12 ارب ڈالرز کے قرضوں میں توسیع کے امکانات ہیں۔ سعودی عرب نے بھی اس سال میں واجب الادا قرضوں کی توسیع کی یقین دہانی کروائی ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستانی معیشت کب تک قرضوں پر انحصار کرے گی۔ فی الحال قرض ملنے سے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے لیکن اگر برآمدات میں اضافہ نہ ہوا‘ درآمدات میں کمی نہ ہوئی اور اخراجات پر قابو نہ پایا جا سکا تو دو سال بعد پاکستان کو تقریباً80 ارب ڈالرز کے سالانہ قرضوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے شاید چین بھی آگے نہ آسکے۔ چین نے کئی موقعوں پر پاکستان پر معاشی اصلاحات لانے کے لیے زور دیا ہے۔ مثبت اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے قرض واپس لینے کے آپشنز بھی زیر غور آئے ہیں۔ چائینز آئی پی پیز کو بروقت ادائیگیاں نہ کرنے کی صورت میں بجلی کے پلانٹس بند کر دینے کی حالیہ مثال ہمارے سامنے ہے۔ سرکار سے گزارش ہے کہ وہ مثبت‘ موثراور دیرپا پالیسیز بنا کر ملکی معیشت کو درست سمت میں گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس سے پہلے کہ دیر ہو جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں