پاکستان میں سیاسی درجہ حرارت ایک مرتبہ پھر بڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ جب سے تحریک انصاف نے رجیم چینج کو غیر ملکی سازش قرار دینے کا بیانیہ بنایا ہے‘صورتحال روز بروز بدل رہی ہے۔لیکن اس مرتبہ کا مبینہ رجیم چینج شاید مختلف رہا ہے۔ عمومی طور پر دیکھا گیا ہے کہ حکومتیں بدلنے کے نتیجے میں سب سے پہلے سیاسی قائدین زیرِ عتاب آتے ہیں لیکن جب سے نئی حکومت آئی ہے‘ سیاستدانوں سے زیادہ مقدمات اور حملے صحافیوں پر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ ابھی تک تحریک انصاف کے کسی رہنما کو گرفتار نہیں کیا گیا لیکن کئی صحافیوں کو نوکریوں سے نکالا جا چکا ہے۔ کچھ پر غداری کے مقدمے درج ہوئے ہیں‘ کچھ پر حملے ہوئے ہیں اور کچھ کو جیل کی ہوا بھی کھانا پڑ گئی ہے۔ ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ شاید جس طرح پہلے میڈیا کا ایک طبقہ تحریک انصاف کو اقتدار میں لانے کا سبب بنا تھا، اب اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے شاید ایک مرتبہ پھر وہی کردار ادا کیا جا رہا ہے۔ میں یہاں اس بات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ایک صحافی کی ذمہ داری غیر جانب دار رہ کر سچی خبر دینا ہوتی ہے۔ پھر یہ عوام پر چھوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ اس سے کیا نتیجہ اخذ کرتے ہیں۔اگر کسی پارٹی یا شخصیت کی مثبت خبریں عوام کو بتائی جا رہی ہیں تو اس کی منفی خبر بیان کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہو جاتا ہے تاکہ عوام حقائق کی بنیاد پر درست رائے قائم کر سکیں۔ متوازن رہنا ایک آرٹ ہے جسے سیکھنا پڑتا ہے۔ جو لوگ عملی زندگی میں اس کا درست استعمال کرتے ہیں‘ ان کی رائے زیادہ معتبر اور وزن دار سمجھی جاتی ہے۔ کسی ایک پارٹی کی طرف زیادہ جھکاؤ صحافت نہیں ہے لیکن اس وقت کچھ لوگ صحافت کی آڑ میں سیاسی ترجمانی کا کام کر رہے ہیں۔ کچھ کو شاید سیاسی لیڈر بننے کا بھی شوق ہے‘ اس حوالے سے معاملات کیا رخ اختیار کرتے ہیں‘ یہ تو وقت کے ساتھ سامنے آ جائے گا، فی الحال اس گرم ماحول میں سرکار نے کچھ ایسے فیصلے کیے ہیں جن سے ملک کے بڑے مافیاز کو تحفظ مل سکتا ہے اور انسانی جانوں‘ خصوصاً نوجوان کی صحت کے مسائل بڑھ سکتے ہیں اور ملک کی ٹیکس آمدن میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔
وفاقی حکومت نے تمباکو نوشی کی صنعت کو اربوں روپوں کا ٹیکس ریلیف دے کر عوام کو سستے سگریٹ فراہم کرنے کی راہ ہموا کر دی ہے۔ بجٹ میں ٹیکس ریٹ تقریباً 13 فیصد بڑھایا گیا ہے لیکن دوسری طرف فی ایک ہزار مہنگے سگریٹس کی قابلِ ٹیکس رقم کی حد 5960 روپے سے بڑھا کر 6660 روپے کر دی گئی ہے جس سے سستے سگریٹس مہنگے اور مہنگے سگریٹس سستے ہو سکتے ہیں۔ یعنی اگر یہ کہا جائے کہ اب غریب آدمی بھی مہنگا سگریٹ بہ آسانی پی سکے گا تو شاید غلط نہیں ہو گا۔ یہ صورتحال تشویشناک ہے کیونکہ حکومتی فیصلہ سگریٹ نوشی کی راہ ہموار کرنے کے مترادف ہے۔ سگریٹ ایک ایسا زہر ہے جسے حکومت نہ صرف سرعام بیچنے کی اجازت دیتی ہے بلکہ اس کی فروخت کو عام کرنے کے لیے سہولت کار کا کردار بھی ادا کر رہی ہے۔ پچھلے پانچ سالوں میں تمباکو نوشی کے ٹیکس ریٹس میں خاطرہ خواہ اضافہ نہیں ہواجو میری نظر میں سہولت کاری ہی کے زمرے میں آتا ہے۔ حکومت نے 2017ء میں تمباکو نوشی کی صنعت سے 82 ارب روپے ٹیکس اکٹھا کیا تھا اور چار سال بعد یعنی 2021ء میں اس ٹیکس میں صرف 43 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔2021ء میں سرکار نے صرف 135 ارب روپے ٹیکس اس صنعت سے اکٹھا کیا۔ یہ معمولی اضافہ بھی ٹیکس ریٹ میں اضافے کی بدولت نہیں بلکہ فروخت میں اضافے کی وجہ سے ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ سگریٹ کی خریداری آسان ہوتی جا رہی ہے کیونکہ روپے کی قدر گر رہی ہے لیکن سگریٹ کے ریٹس نہیں بڑھائے جا رہے۔آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان میں مالی سال 2021ء میں دو ہزار سگریٹس خریدنے کے لیے تقریباً چار فیصدفی کس آمدن کی ضرورت تھی جو 2022ء میں کم ہو کر ساڑھے تین فیصد رہ گئی ہے۔ اگر سگریٹ پر ٹیکس نہ بڑھایا گیا تو 2023 ء میں یہ مزید کم ہو کرتقریباً تین فیصد رہ جائے گی۔
گزشتہ چار برس کے دوران پاکستان میں سوئی سے لے کر جہاز تک تقریباً ہر شے پر ٹیکس میں اضافہ ہو چکا ہے۔ ان حالات میں تمباکو اور سگریٹ پر ٹیکس نہ بڑھنا شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا کہ سگریٹ مافیا شاید حکومتوں سے زیادہ مضبوط ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے بجٹ تقریر میں فرمایا تھا کہ تمباکو نوشی پر مزید 25 ارب روپے کے ٹیکسز لگائے جائیں گے لیکن چپکے سے ٹیکس بڑھانے کے بجائے مزید کم کر دینا بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔ یہ قصہ محض آج کا نہیں بلکہ پچھلی حکومت میں بھی یہی مسائل دیکھنے میں آئے تھے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ2019ء میں تحریک انصاف کے سربراہ اور اس وقت کے وزیراعظم نے ایک مشہور امریکی ٹوبیکو کمپنی کے منیجنگ ڈائریکٹر سے نہ صرف ملاقات کی تھی بلکہ ڈیم فنڈ کے لیے چندہ بھی وصول کیا تھاجس پر کافی تنقید ہوئی تھی کیونکہ عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا آرٹیکل 53 کسی بھی سرکاری اہلکار یا وزیراعظم کو سگریٹ بیچنے والی کمپنیوں کے نمائندوں سے ملاقات کرنے سے منع کرتا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ حکومت پاکستان کے زیر نگرانی چلنے والا گورنمنٹ ٹوبیکو کنٹرول سیل ختم کیا جا رہا ہے۔ اس کا کام تمباکو نوشی کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ اس کی بندش کی مبینہ وجہ سگریٹ مافیا کے خلاف کی جانے والی اس کی کارروائیاں ہیں جو اس رائے کو تقویت دیتی ہیں کہ شاید سرکار دانستہ طور پر سگریٹ انڈسٹری کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی۔حیرت اس بات پر بھی ہے کہ آئی ایم ایف بھی حکومت کو تمبا کو پر ٹیکس بڑھانے پر پابند نہیں کر رہی۔
دوسری طرف آج کل کے نوجوانوں میں عام سگریٹ کی جگہ ای سگریٹ متعارف کروایا جا رہا ہے اور سرکار نے اس کی درآمدات کی اجازت بھی دے رکھی ہے۔ یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ یہ صحت کے لیے نقصان دہ نہیں ہے۔ حالیہ تحقیق کے مطابق تقریباً پانچ فیصد نوجوان ای سگریٹ کی طرف منتقل ہو چکے ہیں۔ انہیں جدید نام دے کر فیشن کے طور پر متعارف کرایا جا رہا ہے۔ آج کل یہ ای حقہ، موڈز، ویپ پنز، ویپس، ٹینک سسٹمز اور الیکٹرانک نکوٹین ڈیلیوری سسٹم کے نام سے متعارف کرائے جا رہے ہیں۔ وزارتِ صحت سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کے مطابق پاکستان میں ہر سال تقریباً ایک لاکھ 60 ہزار سے زیادہ افراد تمباکو نوشی سے ہونے و الی بیماریوں کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ کی رپورٹ کے مطابق سرکار سالانہ 615 ارب روپے سے زائد بجٹ تمباکو نوشی سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج پر خرچ کر رہی ہے اور ٹیکس صرف 135 ارب روپے وصول کرتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ تقریباً 480 ارب روپوں کی ادائیگی عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے کی جا رہی ہے، جبکہ یہ رقم تمباکو مافیا سے وصول کی جانی چاہیے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے 2005ء سے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن فریم ورک کنونشن آن ٹوبیکو کنٹرول کے ساتھ سگریٹ نوشی کی روک تھام کا معاہدہ بھی کر رکھا ہے لیکن بدقسمتی سے اس پر عمل درآمد نہیں ہو رہا۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق سگریٹ کی فروخت کم کرنے کا بہترین طریقہ ٹیکس میں اضافہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او نے کئی ممالک کے ساتھ مل کر سگریٹ کی فروخت پر ٹیکس بڑھایا ہے جس کے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ دنیا کے 38 ممالک میں تمباکو نوشی ٹیکس سگریٹس کی لاگت کے 75 فیصد سے زائد ہے، جس سے نہ صرف سگریٹ کی فروخت میں کمی ہوئی ہے بلکہ صحت کا بجٹ بڑھانے میں بھی مدد ملی ہے۔ 2012ء میں گیمبیا میں سگریٹ کی قیمت افریقہ میں سب سے کم تھی جس کے باعث صحت کے شدید مسائل جنم لے رہے تھے۔ ڈبلیو ایچ او نے بتدریج ٹیکس بڑھانے کی پالیسی لانچ کی جس کے باعث آج تمباکو کی فروخت میں 60 فیصد تک کمی آ چکی ہے۔ اسی طرح سری لنکا، عمان، کولمبیا، فلپائن میں بھی ریفارمز کی گئی ہیں۔ فلپائن میں تمباکو ٹیکس کا نام دلچسپ ہے اسے Sin Tax یعنی گناہ کرنے کا ٹیکس کہا جاتا ہے۔ پاکستانی حکومت بھی ڈبلیو ایچ او کے ساتھ مل کر قابل عمل پالیسیاں بنا سکتی ہے، جہاں فنڈز کے ساتھ رہنمائی بھی بہ آسانی مل سکتی ہے لیکن اس کے لیے حکومت کو پہلے اپنا قبلہ درست کرنے کی ضرورت ہے۔