پاکستان اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں سے بری طرح متاثر ہے لیکن سیاسی قائدین کی جانب سے مطلوبہ مثبت ردِ عمل دیکھنے میں نہیں آ رہا۔ عمران خان جلسے کر رہے ہیں‘ وزیراعلیٰ پنجاب سیاسی تقریبات میں شرکت کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے دکھائی دیتے ہیں‘ وزیراعظم صاحب سیاسی تقریریں کرنے میں مصروف ہیں اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو متاثرین کی داد رسی کے لیے ان کے پاس جانے کے بجائے ہیلی کاپٹر سے ہی حالات کا فضائی جائزہ لے رہے ہیں۔ شاید حکمران یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ انہوں نے بیرونی ممالک سے امداد مانگ کر اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اگر یہ امداد مل گئی تو عوام پر خرچ کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی جائے گی اور اگر نہ ملی تو سیلاب متاثرین رو دھو کر چُپ ہو جائیں گے۔ یاد رہے کہ ابھی تک 2005ء کے زلزلے اور 2010ء کے سیلاب کے کئی متاثرین اپنے گھر پھر سے تعمیر نہیں کر سکے ہیں۔ جبکہ ان آفات سے نمٹنے کے لیے خاطر خواہ امداد اُس وقت کے پاکستانی حکومتوں کو دی گئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ سیاستدانوں کی بے حسی میں اضافہ ہوا ہے۔ 2014ء میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے دہشت گردوں کے حملے کے بعد عمران خان نے اسلام آباد دھرنا ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس فیصلے کو عوامی سطح پر بھرپور پذیرائی ملی تھی۔ موجودہ سیلاب اُس سے بڑا سانحہ ہے جس میں ابھی تک تقریباً ساڑھے بارہ سو سے زائد پاکستانی جان کی بازی ہار چکے ہیں‘ جن میں 402 بچے بھی شامل ہیں۔ اگر 2014ء میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کے بعد پاکستانی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا ختم ہو گیا تھا تو سیلاب کے سانحے کے بعد اب سیاسی جلسے ختم کیوں نہیں ہو سکتے؟ یہ وہ سوال ہے جو آج کل پاکستانیوں کی اکثریت پوچھ رہی ہے۔ تحریک انصاف کے ووٹرز اور سپورٹرز بھی اس معاملے کو لے کر پریشان ہیں کہ بیمار اور بے سہارا پاکستانیوں کے مفت علاج کے لیے اربوں روپیہ اکٹھا کرنے والے عمران خان سیاسی سرگرمیاں کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں؟ خان صاحب سیلاب متاثرین کی دلجوئی کرنے اور اُن سے ملنے کے لیے ان کے علاقوں میں بھی جانے سے گریزاں ہیں۔ حالانکہ سیلاب سے متاثرہ دو صوبوں میں اُنہی کی جماعت تحریک انصاف کی حکومت ہے۔ ایک ٹیلی تھون سے سیلاب زدگان کے مسائل کم نہیں ہونے والے۔ شاید تحریک انصاف کی قیادت کو ابھی اس کا احساس نہیں ہو رہا۔ ان کے جلسے بظاہر کامیاب ہو رہے ہیں اور شاید ان کا خیال ہے کہ جلسے روکنے سے جو سیاسی دباؤ حکومت پر ڈالا گیا ہے اس کا اثر زائل ہو جائے گا۔ اور تحریک انصاف جلدی انتخابات کروانے کے مطالبے پر عمل نہیں کروا سکے گی۔ ممکن ہے کہ ان کا یہ خدشہ درست ہو لیکن حالات کے پیش نظر یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ چاہے جتنا بھی دباؤ ڈال لیا جائے‘ اس سال انتخابات ہونے کے امکانات کم ہیں۔ اگر انتخابات کروانا ضروری ہوتا تو اسلام آباد تک حالیہ لانگ مارچ کے دوران ہی ایسا ممکن ہو جاتا۔ تحریک انصاف جتنی جلدی اس حقیقت کو مان لے گی اس کے لیے مستقبل کی پالیسیاں بنانے میں اتنی ہی آسانی ہوگی۔
دوسری طرف وزیراعظم صاحب کی کارکردگی بھی زیادہ متاثرکن دکھائی نہیں دی۔ شہباز شریف صاحب جب 2010ء میں وزیراعلیٰ پنجاب تھے تو سیلاب متاثرین کی امداد کرنے میں ذاتی طور پر کافی متحرک دکھائی دیے تھے اور غفلت برتنے والے افسروں کے خلاف فوری ایکشن لیا کرتے تھے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ پاکستانیوں کی اکثریت شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے حق میں تھی لیکن موجودہ صورتحال میں وہ سیلاب متاثرین پر بات کرنے کے بجائے اپوزیشن کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرنے میں زیادہ وقت صرف کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سیلاب متاثرین سے متعلقہ حالیہ تقریب میں بھی وہ سیاسی گفتگو کرتے رہے۔ حکمرانوں کے یہ رویے عوام کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہیں۔ ایک طرف حکومتِ پاکستان سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی کے لیے مطلوبہ اقدامات نہیں کر پا رہی اور دوسری طرف آئی ایم ایف سے مزید سخت شرائط طے کرنے کی اطلاعات ہیں۔ آئی ایم ایف ری ویو رپورٹ کے مطابق جون 2023ء تک تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالرز کے بدلے حکومتِ پاکستان کو مزید سخت اقدامات کرنا ہوں گے۔ جن میں منی بجٹ سرفہرست ہے۔ گیس کی قیمتوں میں تقریباً 240 فیصد اضافے کی شرائط رکھی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بجلی کی قیمتوں میں بھی ضرورت کے مطابق مسلسل اضافہ کیے جانے کے امکانات ہیں۔ پیڑولیم مصنوعات پر 17فیصد جنرل سیلز ٹیکس لگایا جائے گا۔ آنے والے دن شاید کمرشل بینکوں کے لیے بھی زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف کئی برسوں سے یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ سرکاری اداروں کے فنڈز کمرشل بینکوں میں رکھنے کے بجائے سٹیٹ بینک آف پاکستان میں رکھے جائیں۔ اس مالی سال کے اختتام سے قبل اس مطالبے پر عمل درآمد ہونے کے امکانات ہیں۔ ایف بی آر سے متعلق ٹیکس اہداف بھی بڑھائے جانے کے امکانات ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر اگر یہ کہا جائے کہ آنے والے دنوں میں پاکستانی عوام کو مہنگائی کے ایک اور سونامی کا سامنا ہوگا تو شاید غلط نہیں ہوگا۔ یہ صورتحال نہ صرف عوام کے لیے پریشانی کا باعث ہے بلکہ ملکی معاشی عدم استحکام میں اضافہ کرنے کی طرف واضح اشارہ کرتی دکھائی دیتی ہے۔ فی الحال درآمدات سے پابندی ہٹانے کے بعد تجارتی خسارہ تقریباً تیس فیصد بڑھ گیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات ہیں۔ پاکستان کی زرعی برآمدات بھی سیلاب کے بعد متاثر ہو سکتی ہیں۔ ملکی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی اجناس درآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ متحدہ عرب امارات سے 13ہزار ٹن ٹماٹر اور پیاز درآمد کرنے کے پرمٹ جاری کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ ایران‘ افغانستان اور ترکی سے بھی درآمدات کے بڑے آرڈرز بک کروائے جا رہے ہیں۔ یہ مؤقف درست ہے کہ ملک کو اس وقت زرعی اجناس کی ضرورت ہے لیکن درآمدی بل کو کم کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ اس وقت پاکستان متحدہ عرب امارات کو تقریباً 1ارب 36کروڑ ڈالرز کی برآمدات کرتا ہے اور تقریباً سوا 8ارب ڈالرز کی درآمدات کرتا ہے۔ شنید ہے کہ متحدہ عرب امارات سے درآمد کی جانے والی زیادہ اشیا بھارت سے آتی ہیں۔ بارڈر بند ہونے کی وجہ سے بھارت سے مال متحدہ عرب امارات پہنچتا ہے اور وہاں سے پاکستان بھیج دیا جاتا ہے۔ پابندی کے باوجود پاکستانی سپر سٹورز میں بھارتی ٹیگ والی اشیا کی موجودگی اس دعوے کو تقویت دیتی ہے۔
یہ طریقہ پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے راستے پاکستان اشیا منگوانے کے لیے زیادہ ڈالرز خرچ ہوتے ہیں۔ اگر یہی تجارت بھارت سے براہِ راست شروع کر دی جائے تو اس کے پاکستانی اکانومی پر مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں۔ موجودہ حالات میں پاکستان کو اس کا دو طرفہ فائدہ ہو سکتا ہے۔ سستی سبزیاں ملنے سے ایک طرف مہنگائی کم ہوگی اور دوسری طرف روپے پر دباؤ کم ہوگا۔ پاکستان کو اس معاملے پر باقی ممالک سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت اور چین کے درمیان کئی جنگیں ہو چکی ہیں اور سرحدی اختلاف ابھی تک برقرار ہے۔ اس کے باوجود چین اپنی چاول کی ضروریات بھارت سے پوری کرتا ہے اور بھارت اپنی ٹیکنالوجی کی ضروریات چین سے پوری کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یورپ اور امریکہ کی ایران سے شدید اختلافات کے باوجود تجارت کے لیے راہِ ہموار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر بھارت اور پاکستان کے درمیان بھی تجارت بحال کی جا سکتی ہے لیکن یہ برابری کی بنیاد پر ہونی چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ بھارت پاکستانی ڈالرز اپنے ملک میں لے جاتا رہے اور پاکستان سے اس کے بدلے برابر ایکسپورٹ نہ کرے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں کے مابین متنازعہ معاملات طے کرنے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ جب تک متنازعہ معاملات پر واضع پالیسی نہیں بن جاتی اور بڑے فیصلے نہیں ہو جاتے‘ بھارت سے تجارت کھولنے کا صحیح معنوں میں فائدہ نہیں ہو سکے گا۔